Live Updates

نواز شریف کا تین بار وزیراعظم بننا عوام کا ان پر بھرپور اعتماد ہے

عمران خان نے آف شور کمپنیوں کے حوالے سے کئی بار اپنا موقف بدلا‘ پی ٹی آئی پارٹی فنڈز پر حکم امتناعی کے پیچھے چھپی ہوئی ہے، احتساب کا ایک ایسا جامع ادارہ بنانا چاہیے،سیاسی اختلافات کو اتنا آگے نہیں لے کر جانا چاہیے کہ ہماری آنے والی نسلیں جمہوریت سے محروم ہوں وفاقی وزیر پانی و بجلی و دفاع خواجہ محمد آصف کا قومی اسمبلی اجلاس میں اظہار خیال

بدھ 18 مئی 2016 16:33

اسلام آباد ۔ 18 مئی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔18 مئی۔2016ء) وفاقی وزیر پانی و بجلی و دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ ہمیں احتساب کا ایک ایسا جامع ادارہ بنانا چاہیے جو پارلیمنٹ سے جنم لے اور ہمیں باہر یا کسی تھرڈ امپائر کی جانب نہیں دیکھنا چاہیے‘ پارلیمنٹ طاقت کا سرچشمہ ہے اور یہ ہماری آخری پناہ گاہ ہے‘ سیاستدان عوام اور نوجوانوں کے لئے رول ماڈل ہیں‘ ہمیں اپنی نوجوان نسل کے لئے رول ماڈل بن کر دکھانا ہوگا‘ سیاسی پینترے بدلنے سے گریز کرنا چاہیے‘ ہمیں سیاسی اختلافات کو اتنا آگے نہیں لے کر جانا چاہیے کہ ہماری آنے والی نسلیں جمہوریت سے محروم ہوں‘ نواز شریف تین بار اس ملک کے وزیراعظم بن چکے ہیں اور یہ عوام کا ان پر بھرپور اعتماد ہے‘ عمران خان نے شوکت خانم ہسپتال کے پیچھے چھپ کر اسے متنازعہ بنایا‘ اس کے فنڈز انوسٹمنٹ بورڈ کی مخالفت کے باوجود بیرون ملک انویسٹ کئے‘ عمران خان نے آف شور کمپنیوں کے حوالے سے کئی بار اپنا موقف بدلا‘ پی ٹی آئی پارٹی فنڈز پر حکم امتناعی کے پیچھے چھپی ہوئی ہے‘ عمران خان ایک ماہ تک آف شور کمپنیوں کے نام پر دوسروں کو برا بھلا کہتے رہے لیکن اپنی کمپنی کی کسی کو بھنک نہیں پڑنے دی‘ 2010ء میں سیلاب متاثرین کے لئے عمران خان فاؤنڈیشن کے نام پر اربوں روپے حاصل کئے گئے ان کا حساب دیا جائے۔

(جاری ہے)

بدھ کو قومی اسمبلی اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا کہ پانامہ لیکس میں سیاستدانوں کے علاوہ اور بھی بہت سے لوگ ہیں لیکن سیاستدان ہی توجہ کا مرکز ہیں۔ بہتر ہوتا کہ ٹی او آرز پر اتفاق ہو جاتا اور یہ معاملہ ختم ہو جاتا۔ اب بھی موقع ہے کہ یہ ادارہ جو بالادست ہے وہ معاملات اپنے ہاتھ میں رکھے اور اپنی بالادستی اور عزت میں اضافہ کرے۔

انہوں نے کہا کہ جو الزام لگاتے ہیں ان کا اپنا دامن صاف ہونا چاہیے۔ آج پتھر ان لوگوں نے اٹھائے ہوئے ہیں جن کا خود دامن صاف نہیں۔ ہم احتساب سے بھاگ نہیں رہے۔ وزیراعظم نے اپنے متعلق تمام سوالوں کے جواب دیئے اور جو ادارہ مزید تفصیلات طلب کرے گا تو دیں گے۔ پاناما میں آف شور کمپنی ہو یا کسی اور جگہ ہو‘ وہ آف شور کمپنی ہے۔ کسی جگہ غلط اور کسی جگہ درست والی بات نہیں۔

شوکت خانم ایک خیرات پر چلنے والا ادارہ ہے اس کو ہم نقصان نہیں پہنچانا چاہتے۔ عمران خان نے خود اسے سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ شوکت خانم کا پیسہ بورڈ کے ممبر کے ذریعے انویسٹ کرنے کا فیصلہ کیا۔ 70 لاکھ ڈالر مسقط اور فرانس میں انویسٹ ہوئے‘ ڈیڑھ سے دو فیصد پر جب وہاں انویسٹ ہوئے تو پاکستان میں ٹی بانڈ 13 فیصد تھا۔ اس کی تحقیقات ہونی چاہیے۔

جب وزیر اعظم محمد نواز شریف خود کو تحقیقات کے لئے پیش کرتے ہیں تو شوکت خانم کینسر کے لئے یہ پیسہ بھی خیرات تھی اس کو بھی درست طریقے سے استعمال ہونا چاہیے۔ خیرات کا پیسہ اللہ کے نام پر دیا جاتا ہے اسے منزل مقصود پر پہنچنا چاہیے۔ تنازعہ ہم نے نہیں عمران خان نے پیدا کیا۔ امتیاز حیدری بورڈ کا ممبر تھا۔ انوسٹمنٹ کمیٹی نے اس انوسٹمنٹ کے خلاف فیصلہ دیا تھا تاہم ان کے فیصلے کو نہیں مانا گیا۔

ملک میں دو دیگر خیراتی ادارے بھی چل رہے ہیں وہ سیاست سے کوسوں دور ہیں۔ شوکت خانم کے نام پر خیراتی ادارہ چلانے والے اگر کنٹینر پر چڑھ کر گالیاں دیں گے تو اس کا پیغام عوام تک صحیح نہیں جائے گا۔ خواجہ آصف نے کہا کہ تنازعہ پیدا کرکے شوکت خانم کے پیچھے چھپنے والے خود اس کو متنازعہ بنا رہے ہیں۔ نواز شریف کا خاندان بھی دو ادارے چلا رہا ہے۔

وہ کسی سے خیرات نہیں مانگتے۔ کہیں انوسٹمنٹ نہیں کرتے۔ عمران خان نے مدینے کی بات کی یہ ہم سب کے لئے مثال ہے۔ عمران خان کی ایک صوبے میں حکومت ہے وہ اس کو مدینہ کی طرز پر مثال بنائیں۔ ہم کے پی کے میں پانچ گرڈ سٹیشن بنانا چاہتے تھے۔ دو سال بعد اراضی بڑی مشکل سے ملی۔ عمران خان کا موقف تھا کہ آف شور کمپنی غیر قانونی دولت چھپانے‘ ٹیکس بچانے کے لئے قائم کی جاتی ہے۔

اپنی کمپنی سامنے آئی تو کہا کہ اکاؤنٹنٹ کے کہنے پر کمپنی بنائی۔ وہ موسم اور حالات کے لحاظ سے اس کی تعریف بدلتے رہتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے ایک سابق رکن اکبر ایس بابر نے مقدمہ دائر کر رکھا ہے اس پر حکم امتناعی پی ٹی آئی نے لے رکھا ہے اور اس کی تحقیقات نہیں کرنے دے رہی۔ تحریک انصاف شوکت خانم اور پی ٹی آئی کے فنڈز میں کوئی فرق روا نہیں رکھا جاتا۔

ان کے اپنے ہاتھ لوگوں کی جیبوں میں ہوتے ہیں ‘ اپنی جیبیں خالی ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک ماہ کسی کو بھنک نہیں پڑنے دی اور لوگوں کو گالیاں دیتے رہے۔ 1983ء سے 2014ء تک اس کے ریٹرن فائل کرتے رہے۔ انہوں نے 2002ء اور 2013ء میں اپنے اثاثہ جات کے گوشواروں میں اس نیازی کمپنی کا ذکر نہیں کیا۔ عمران خان نے کتنے پیسے کمائے ‘ کس چینل سے فلیٹ کے کیسے بیچ کر پیسے پاکستان لائے اس کی بھی تحقیقات ہوں گی۔

جمائا کے پاور آف اٹارنی میں ایک دوسرے نیازی صاحب کا نام ہے اس کی بھی تحقیقات ہوں گی۔ 2016ء میں عمران خان فاؤنڈیشن کے نام پر تین ‘ چار ارب روپے جمع ہوئے اس سے گھر بنانے کی بات کی گئی تھی اس کی بھی تحقیقات ہوں گی۔ خواجہ آصف نے کہا کہ نواز شریف کے فلیٹس کا تنازعہ کئی سالوں سے چل رہا ہے ‘ کردار کشی کے باوجود لوگ نواز شریف کے ساتھ ہیں۔

نواز شریف جلا وطنی سے واپس آکر پھر تیسری بار وزیراعظم بنے یہ ان کی اخلاقی فتح ہے اور اس سے بڑی اور کوئی گواہی نہیں ہو سکتی۔ آنے والے وقتوں کے حوالے سے ان کو خدشہ ہے کہ اگر یہ 2018ء تک رہا تو ہم سیاسی طور پر ختم ہو جائیں گے۔ عمران خان اخلاقیات کی بات کرتے ہیں وہ بتائیں کہ ان کے جلسے میں یہ اخلاقیات کہاں ہوتی ہے۔ انہوں نے اپنے آپ کو اور شوکت خانم کو بہت نقصان پہنچایا۔

ان کے کارکنوں اور ساتھیوں نے سوشل میڈیا کو ” پلید“ بنا دیا ہے۔ پیپلز پارٹی اور ہم نے ایک دوسرے کے خلاف سیاست کی‘ جیلوں میں ڈالا لیکن اخلاقیات کا دامن اور سیاسی روایات برقرار رکھیں۔ خواجہ آصف نے کہا کہ آج بھی وقت ہے اپنے معاملات اس چار دیواری کے اندر رکھیں۔ 20 کروڑ پاکستانیوں کا یہ قرض ہے۔ احتساب نواز شریف سے شروع کریں وہ خود کہہ گئے ہیں وزیراعظم کا کہیں پاناما لیکس میں نام نہیں۔

ہمیں اتنا آگے نہیں جانا چاہیے کہ کسی اہم مسئلہ پر اکٹھے نہ ہو سکیں۔ اتنے فاصلے نہ بڑھائے جائیں کہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر نہ بیٹھ سکیں۔ عمران خان شوکت خانم کو متنازعہ نہ بنائیں۔ اپوزیشن نے گزشتہ ایک ڈیڑھ ماہ سے جو مطالبات کئے وزیراعظم نے تمام تسلیم کئے۔ اس لئے ادارے اور روایات تباہ کرنے سے گریز کیا جائے۔ سیاسی روایات مستحکم ہوں گی تو جمہوریت کی توقیر میں اضافہ ہوگا۔

احتساب کا جامع نظام وضع کیا جائے۔ اس کے لئے ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے۔ ہمارے پاس آج ہی موقع ہے کہ یہ ادارہ بنائیں جو پارلیمنٹ سے جنم لے اور ہم باہر کی جانب سے نہ دیکھیں۔ یہ ادارہ قوت کا سرچشمہ ہے۔ یہ آخری پناہ گاہ ہے۔جب ایسا ادارہ بن گیا تو ہم بھی اس میں ثبوت لے کر جائیں گے۔ پاکستان کے عوام کو فیصلہ کرنے دیں کہ کس کے ہاتھ اور دامن صاف ہیں۔

سیاستدان رول ماڈل ہے اور اس کو نوجوان نسل کے لئے رول ماڈل بنا کر دکھانا ہے۔ پینترے بدلنے سے گریز کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ابھی جمہوریت تناور درخت نہیں بنا۔ اس کا پودہ پھل پھول رہا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک منتخب حکومت نے 2013ء میں دوسری منتخب حکومت کو اقتدار حوالے کیا۔ ہم اس کو اتنا آگے نہ لے کر جائیں کہ یہ درخت سوکھ جائے اور ہماری آنے والی نسلیں جمہوریت کے پھل سے محروم ہوں۔ ہماری نسلیں اس کی تقلید کریں گی۔ امام غلطی کرتا ہے تو پوری جماعت سجدہ سہو کرتی ہے۔

Live پاکستان تحریک انصاف سے متعلق تازہ ترین معلومات