وزیراعظم کے صاحبزادے پاکستان کو ٹیکس نہیں دیتے تو ان کے پاس گرین پاسپورٹ بھی نہیں ہونا چاہیے ‘

قائداعظم نے1947میں 4489روپے ٹیکس دیا ‘نواز شریف نے1993میں27سو روپیہ ٹیکس دیا‘ انفراسٹرکچر حکومت وقت کے پاس امانت ہوتے ہیں‘ پاکستان وزیراعظم کے پاس امانت ہے جب امانت میں خیانت ہوتو قوم پریشان ہوجاتی ہے ‘پاناما لیکس کا معاملہ ختم نہیں شروع ہوا ہے‘جب چورچور کی روایت شروع ہوئی تو فائدہ کسے ہوا؟‘ آج بھی کسی کو چور نہیں کہنا چاہتے‘ قانون سازی کرکے سپریم کورٹ کو اختیارات دیں تاکہ مسئلے کا حل نکلے وزیراعظم کو کرپٹ ثابت کرنا نہیں چاہتے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کا نکتہ اعتراض پر اظہار خیال

بدھ 18 مئی 2016 15:31

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔18 مئی۔2016ء) قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے وزیر اعظم نواز شریف کے بیٹوں کی پاکستانی شہریت ختم کر نے کا مطالبہ کر تے ہوئے کہا ہے کہ وزیراعظم کے صاحبزادے پاکستان کو ٹیکس نہیں دے سکتے تو ان کے پاس گرین پاسپورٹ بھی نہیں ہونا چاہیے ،پاکستان کو ٹیکس نہیں دینا تو گرین پاسپورٹ نہ رکھیں،قائداعظم نے1947میں 4ہزار 4سو 89روپے ٹیکس دیا ، وزیراعظم نے1993میں27سو روپیہ ٹیکس دیا، انفرااسٹرکچروقت کی حکومت کے پاس امانت ہوتے ہیں، پاکستان وزیراعظم کے پاس امانت ہے اور جب امانت میں خیانت ہوتو قوم پریشان ہوجاتی ہے ،پاناما لیکس کا معاملہ ختم نہیں ابھی شروع ہوا ہے۔

جب چورچور کی روایت شروع ہوئی تو اس کا فائدہ کسے ہوا، آج بھی کسی کو چور نہیں کہنا چاہتے،آئیں مل بیٹھیں کر ضابطہ کار بناتے ہیں، قانون سازی کرکے سپریم کورٹ کو اختیارات دیں تاکہ مسئلے کا حل نکلے،ہم وزیراعظم کو کرپٹ ثابت کرنا نہیں چاہتے۔

(جاری ہے)

وہ بدھ کو قومی اسمبلی میں نکتہ اعتراض پر اظہار خیال کر رہے تھے۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے کہا کہ میڈیا میں یہ تاثر دیا گیا کہ اپوزیشن نے سپیکر کے کہنے پر واک آؤٹ ختم کر دیا، یہ تاثر بالکل غلط ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا واک آؤٹ وزیراعظم کے ایوان میں نہ آنے کی وجہ سے تھا،وزیراعظم ایوان میں آ گئے مگر وزیراعظم نے ہمارے سوالوں کے جواب نہیں دیئے جس کی وجہ سے ہم نے پھر احتجاجاً واک آؤٹ کیا، پارلیمنٹ بیس کروڑ عوام کی نمائندہ ہے، جو مسائل باہر حل نہیں ہو سکتے وہ پارلیمنٹ میں حل ہونے چاہئیں، یہی وجہ ہے کہ ہم نے بار بار وزیراعظم کو پارلیمنٹ میں بلوانے کی کوشش کی۔

خورشید شاہ نے کہا کہ پہلے ہم لوگ پارلیمنٹ سے باہر اور دوسروں کے اشارو ں پر فیصلے کرتے تھے یہی وجہ ہے کہ پارلیمنٹ کو وہ اہمیت حاصل نہیں ہو سکی جو اس کو ہونی چاہیے تھی، پاکستان 68سال کا ہو گیا ہے مگر جو اہمیت پارلیمنٹ کو ہونی چاہیے تھی وہ ہم لوگ نہیں دے سکتے۔ انہوں نے کہا کہ جس دن وزیراعظم ایوان میں آئے اس روز اخباروں میں ہیڈ لائنز لگی ہوئی تھیں کہ وزیراعظم آج ایوان میں آئیں گے اور پوری قوم سے خطاب بھی کریں گے، یہ سب پڑھ کر بہت افسوس ہوا ، ایسا ظاہر کیا جا رہا تھا کہ جیسے ہمارا اپنا وزیراعظم نہیں بلکہ چین یا کسی اور ملک کا وزیراعظم پاکستانی پارلیمنٹ سے خطاب کرنے جا رہا ہے، بہتر ہوتا کہ وزیراعظم آج ایوان میں موجود ہوتے اور ہماری باتوں کو غور سے سنتے، پھر بھی وزیراعظم کو ہماری باتیں پہنچا دی جائیں گی، مگر جو احساسات ہمارے ہیں وہ شاید ان تک نہ پہنچائے جا سکیں۔

اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ پانامہ لیکس کے حوالے سے آج جو باتیں ہو رہی ہیں وہ اپوزیشن نے نہیں اٹھائیں اور نہ ہی آف شور کمپنیوں کا انکشاف کرنے والوں کو اپوزیشن نے کہا کہ وہ انکشافات کریں۔ انہوں نے کہا کہ پانامہ لیکس سے قبل وزیراعظم کے بیٹوں نے کچھ پریس کانفرنسیں کیں، کبھی لندن فلیٹس کا اعتراف کیا اور کبھی ان کی تردید کی، پانامہ لیکس کے انکشافات کے بعد وزیراعظم نے قوم سے خطاب میں اپنی صفائی پیش کرنے کی کوشش کی جبکہ وفاقی وزراء کی جانب سے کہا گیا کہ 1973ء میں لندن فلیٹس خریدے گئے اور کبھی کہا گیا کہ 2000ء میں وزیراعظم کے بیٹوں کی پڑھائی کیلئے وہ فلیٹس خریدے گئے، یہ تمام سوالات میاں صاحب کی فیملی اور وزراء نے پیدا کئے، جب وفاقی وزراء اور وزیراعظم کی جانب سے لندن فلیٹس کے حوالے سے متضاد بیانات آئیں گے تو وزیر اعظم پر انگلیاں اٹھیں گی۔

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن نے وزیراعظم سے آسان سے صرف سات سوال پوچھے تھے مگر وزیراعظم نے ان کے جواب دینے کی بجائے ہمارے لئے 70سوالات اور پیدا کر دیئے، وزیراعظم نے اپنے خطاب میں کہا کہ 1972ء میں گلف سٹیل مل لگائی مگر یہ نہیں بتایا کہ گلف سٹیل مل لگانے کیلئے پیسے کیسے یو اے ای گئے، ان پر ٹیکسز ادا کئے گئے یا نہیں کئے گئے،وزیراعظم نے اپنے خطاب میں یہ بھی کہا کہ انہوں نے 23سالوں میں 10ارب ٹیکس دیا،23سالوں میں شریف خاندان کی 12فیکٹریوں نے صرف دس ارب ٹیکس دیا؟، ایک ایک کمپنی کے سات سے آٹھ ڈائریکٹر ہیں جن میں میاں صاحب بھی شامل ہیں اور ایک کمپنی نے 23سالوں میں ایک ارب سے بھی کم ٹیکس ادا کیا؟۔

انہوں نے کہا کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے 1938 میں 4 ہزار490 روپے ٹیکس ادا کیا لیکن موجودہ وزیراعظم نے 1992 میں صرف 2700 روپے ٹیکس دیا کیا قائداعظم کی آف شور کمپنیاں، فلیٹس اور کمپنیاں تھیں، ان کے پاس اتفاق فانڈری یا اسٹیل مل نہیں تھی لیکن انہوں نے اپنا قومی فرض ادا کیا۔1994ء میں میاں صاحب نے2ہزار،1995ء میں زیرو ٹیکس،1997ء میں 50ہزار روپے ٹیکس ادا کیا جبکہ اس سے قبل 1992ء میں صرف 2700روپے ٹیکس ادا کیا۔

مجموعی طور پرانہوں نے 14 سال میں 6 لاکھ 50 ہزارروپے انکم ٹیکس ادا کیا جو اوسطا 40 ہزار روپے بھی نہیں بنتا۔خورشید شاہ نے کہا کہ جب وزیراعظم کے بیٹے ملکی ٹیکس بچانے کیلئے اپنا پیسہ کسی اور ملک میں رکھ رہے ہیں تو کیا کوئی باہر سے آ کر ملک میں سرمایہ کاری کرے گا؟اگر آپ کے بیٹوں نے بیرون ملک سرمایہ کاری کرنی ہے تو ان کی پاکستانی شہریت بھی ختم کر دینی چاہیے، جب انہوں نے پاکستان کو ٹیکس نہیں دینا تو ان کو پاکستان کی شہریت کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔

اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ حکومت کے پاس ملکی خزانہ اور انفراسٹرکچر امانت ہوتا ہے لیکن جب اس میں خیانت ہو رہی ہوتو شہری پریشان ہوتے ہیں،ہمیں سوچنا ہو گاکہ 68سال ہو گئے ہم کیوں امیر اور غریب کے درمیان فرق ختم نہیں کرسکے؟ ہمارا کسان پس رہا ہے، غریب کو پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں ہے، آج 68سال ہو گئے ہم نے کامیاب کا سفر مکمل نہیں کیا اور آج بھی ہم آئی ایم ایف کے مرہون منت ہیں،آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے قرضے ملنے پر ہم ڈھول بجاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم الزامات کی سیاست نہیں کرنا چاہتے، ہم وہ پارلیمنٹ دیکھنا چاہتے ہیں جس کا خواب قائد اعظم نے دیکھا تھا،گزشتہ روز جنوبی افریقہ کے پارلیمنٹ میں جو کچھ ہوا وہ ہم اپنی پارلیمنٹ میں نہیں دیکھنا چاہتے۔ انہوں نے کہا کہ پانامہ لیکس کی تحقیقات کے حوالے سے سپریم کورٹ نے اپوزیشن کے موقف کی تائید کی اور کہا کہ حکومتی ٹی او آرز پر تحقیقات کیلئے کئی دہائیاں لگیں گی،اپوزیشن نے کہا کہ ہم نے حکومت کو پیشکش کی تھی آئیں مل بیٹھ کر ٹی او آرز بناتے ہیں اور قانون سازی کے ذریعے سپریم کورٹ کو پاورز دیں کہ وہ اس مسئلے کو جلد سے جلد حل کراسکے، ہم نہیں چاہتے کہ کمیشن وزیراعظم کو کرپٹ ثابت کرے، ہم صرف ایسے ٹی او آرز بنانا چاہتے ہیں جس میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے، اپوزیشن وزیراعظم نواز شریف کے حوالے سے پاکستانیوں کے ذہنوں میں پیدا ہونے والی گڑ بڑ کو ختم کرنا چاہتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ صرف وزیراعظم ہی نہیں ہمارا بھی احتساب ہونا چاہیے اور جن لوگوں نے آج تک قرضے معاف کروائے، ان کا بھی احتساب ہونا چاہیے، مگر اس کا آغاز وزیراعظم نواز شریف سے ہو۔