Live Updates

وزیراعظم نے خود کو احتساب کیلئے پیش نہ کیا تو تحریک انصاف سڑکوں پر ہو گی‘ وزیراعظم کا کام الزام لگانا نہیں‘ نواز شریف نے جو تقریر کی وہ یورپ کے کسی پارلیمنٹ میں کی گئی ہوتی تو وزیراعظم کو استعفیٰ دینا پڑتا‘میرے محلات اور اثاثے ہیں توحکومت تحقیقات کرائے ‘

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کاقومی اسمبلی میں نکتہ اعتراض پر اظہار خیال

بدھ 18 مئی 2016 15:31

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔18 مئی۔2016ء) پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ اگروزیراعظم نواز شریف نے خود کو احتساب کیلئے پیش نہ کیا تو تحریک انصاف سڑکوں پر ہو گی، وزیراعظم کا کام الزام لگانا نہیں، وزیراعظم نواز شریف نے جو تقریر کی اگر وہ یورپ کے کسی پارلیمنٹ میں کی گئی ہوتی تو وزیراعظم کو استعفیٰ دینا پڑتا،اگرمیرے محلات اور اثاثے ہیں توحکومت تحقیقات کرائے ، اگر میں نے کرپشن کی ہے تو انکوائری کریں اور مجھے گرفتار کریں،اپوزیشن تنقید نہ کرے تو پارلیمنٹ کا کوئی کام نہیں،جن ٹی او آرز پر وزیراعظم کا احتساب کرنا ہے ان پر میرا بھی کریں،ٹی او آرز میں شوکت خانم کے اکاؤنٹس بھی شامل کئے جائیں،دس سال پاکستانی کرکٹ ٹیم کا کپتان رہا، اس عرصے کے دوران مجھ پر ایک بھی کرپشن کا الزام نہ لگا،نیازی سروسز کے ذریعے خریدا گیا اپنا اثاثہ کبھی نہیں چھپایا اور فلیٹ کی فروخت کے بعد ملنے والا سارا پیسہ میں پاکستان لے کر آیا ،1992ورلڈ کپ اور بھارت کیخلاف سیریز سے ملنے والا انعام ،پلاٹس اور گاڑی شوکت خانم کو دی ،چاہتا تو میں بھی شوگر ملیں لگا سکتا تھا،ملک میں روزانہ 12ارب کی کرپشن ہو رہی ہے،ریونیو سے زیادہ تو روزانہ کی کرپشن ہے،وزیراعظم کی طرح طوطا مینا کی کہانی چلتی رہی تو ملک ترقی نہیں کر سکتا ، پاناما لیکس پر پوائنٹ اسکورنگ نہیں چاہتے ،میں نے جان لڑا کرکینسر ہسپتال بنایا ، میاں صاحب 30سال حکومت میں رہے مگر ایسا ہسپتال نہیں بنا سکے جس میں ان کا چیک اپ ہو سکے۔

(جاری ہے)

وہ بدھ کو قومی اسمبلی میں نکتہ اعتراض پر اظہار خیال کر رہے تھے۔تحریک انصاف کے چیئر مین نے اپنی آف شور کمپنی اور لندن فلیٹس سے حاصل ہونے والی رقم سمیت شریف خاندان کے لندن فلیٹس کے حوالے سے تمام دستاویزی ثبوت سپیکر ایاز صادق کے حوالے کئے۔قبل ازیں عمران خان نے کہا کہ دنیا میں جمہوریت کو اس لئے اہمیت دی جاتی ہے کہ جتنی جمہوریت مضبوط ہو گی اتنا ہی ملک مضبوط ہو گا، پاکستان واحد ملک ہے جو اسلام کے نام پر بنا،مگر ہم ڈیمو کریٹک سسٹم سے شروع ہوئے اور بادشاہت کے نظام تک چلے گئے جبکہ یورپ بادشاہت سے شروع ہوا اور ڈیمو کریٹک کی طرف آیا، جن ممالک میں جمہوریت جتنی زیادہ مضبوط ہوتی ہے وہ اتنے ہی زیادہ خوشحال اور ترقی کرتے ہیں، جب یورپ جمہوریت کی طرف جا رہا تھا تو اسلامی دنیا بادشاہت کی طرف جا رہی تھی، پاکستان کو مدینہ کی طرح اسلامی ریاست بننا چاہیئے لیکن افسوس کہ مسلم ممالک جمہوریت سے شروع ہو کر بادشاہت جب کہ یورپ بادشاہت سے شروع ہو کر جمہوریت کی طرف چلے گئے۔

جمہوریت کے اندر حکومت اگر قانون سے ہٹ کر کوئی غلط کام کرے یا ٹیکس کا غلط استعمال کرے تو اپوزیشن اس پر تنقید کرتی ہے، اگر ایسا نہیں ہونا تو پارلیمنٹ کی کوئی ضرورت نہیں،60ہزار روپے ایک منٹ کا اس پارلیمنٹ پر غریب عوام کا روپیہ خرچ ہوتا ہے، اگر اپوزیشن غلط پیسے استعمال ہونے پر حکومت سے جواب طلبی یا سا پر تنقید نہیں کرتی تو اس کا کیا فائدہ۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نواز شریف نے اپنی تقریر میں کہا کہ بنی گالہ میں لوگ محل میں رہتے ہیں جہاں ہیلی کاپٹر آتے جاتے رہتے ہیں، وہ بتائیں کہ پیسے کہاں سے آ رہے ہیں؟ میں وزیراعظم کو کہنا چاہتا ہوں کہ ایف بی آر نیب آپ کے ماتحت ہیں، آپ تحقیقات کریں اگر ہمارے پاس پیسے غلط طریقے سے آئے ہیں تو ہمیں گرفتار کریں، اگر اپوزیشن آپ پر تنقید کرتی ہے تو آپ کا فرض ہے کہ اس تنقید کا جواب دیں نا کہ اس کے بدلے اپوزیشن پر ہی الزامات لگانا شروع کر دیں، برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون پر الزامات لگے تو انہوں نے اپنے اوپر لگنے والے ایک ایک الزامات کا جواب پارلیمنٹ میں دیا، اسے کہتے ہیں جمہوریت، میری ایوان سے درخواست ہے کہ جمہوریت کو مضبوط کریں۔

انہوں نے کہا کہ پانامہ لیکس کا انکشاف اپوزیشن نے نہیں انٹرنیشنل میڈیا نے کیا۔ عمران خان نے کہا کہ میں نے سیاست میں آنے کا فیصلہ صرف اس لئے کیاکہ ملک میں سیاست میں ہونے والی کرپشن کو ختم کر سکوں، جس نے پاکستان کی سیاست کو تباہ کر دیا،میں نے ایک غیر مسلم عورت کو مسلمان کر کے اس سے شادی کی اور اسے پاکستان لایا،مگر 1997ء میں جب الیکشن ہوئے تو مجھ پر اور میری بیوی پر یہودیوں کا ایجنٹ ہونے کا الزام لگایا گیا، میں نے جان لڑا کرکینسر ہسپتال بنایا اور 1997ء میں ہی مجھ پر الزام لگایا گیا کہ عمران خان نے اپنی الیکشن کمپین میں زکوٰة اور ہسپتال کے چندے سے اپنی کمپین چلائی ہے، جس پر لوگوں نے ہسپتال کو چندہ دینا بند کر دیا اور اخبارات میں آیا کہ شوکت خانم بند ہونے کے قریب پہنچ گیا ہے، جس کے بعد میں نے غیر ملکی دورے کر کے کس طرح شوکت خانم کو دوبارہ بحال کیا وہ مجھے پتہ ہے،1997ء میں مجھ پر الزامات لگنے کے بعد مسلم لیگ(ن) کی حکومت آئی تو حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ مجھ پر لگنے والے الزامات کی تحقیقات کرتی مگر ایسا نہیں ہوا، اس کے بعد 2011ء میں ایسے الزامات پھر لگنا شروع ہو گئے، مگر خدا کا شکر ہے کہ اس وقت شوکت خانم اس سطح پر پہنچ چکا تھا کہ کوئی بھی الزامات سچ ثابت نہ ہو سکے اور تیسری بار پانامہ لیکس کے بعد شوکت خانم پر الزامات لگے اور حکومت کے چار نمائندے ٹی وی پر بیٹھ کر شوکت خانم پر الزام تراشی کرتے رہے، حکومت کوچاہیے تھا کہ الزامات لگانے سے پہلے کم سے کم تحقیقات تو کرلیتے، اپوزیشن کا فرض ہے کہ وہ حکومت پر پانامہ لیکس کے حوالے سے لگنے والے الزامات کے بارے میں سوال کرے، مگر حکومت ان سوالوں کے جوابات دینے کی بجائے الٹا ہم پر ہی الزامات لگانا شروع کر دیتی ہے، میں نے اپنی والدہ کی تکلیف کو دیکھ کر شوکت خانم ہسپتال بنایا تھا،ہر سات افراد میں سے ایک کو کینسر ہے،دنیا میں سب سے مہنگا علاج کینسر کا ہے جو کم سے کم دس لاکھ روپے سے شروع ہو کر کروڑوں روپے تک جاتا ہے، شوکت خانم میں 70فیصد مریضوں کا علاج مفت ہوتا ہے، میں چیلنج کرتا ہوں کہ کوئی ثابت کر دے کہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی سرکاری ہسپتالوں میں کینسر کا 70فیصد مریضوں کا علاج مفت ہوتا ہو، میاں صاحب 30سال حکومت میں رہے مگر ایسا ہسپتال نہیں بنا سکے جس میں ان کا چیک اپ ہو سکے۔

انہوں نے کہا کہ جب میں نے الیکشن میں دھاندلی پر بات کی تو کہا گیا کہ جمہوریت ڈی ریل کرنے کی کوشش ہے اور جب میں نے کرپشن پر بات کی تو پھر بھی کہا گیا کہ یہ بھی جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کی کوشش ہے،دھاندلی کے حوالے سے سپریم کورٹ میں 22جماعتوں نے کہا کہ دھاندلی ہوئی ہے۔انہوں نے کہا کہ جب الزامات ایک دوسرے پر لگائے جائیں تو جمہوریت کمزور اور کھوکھلی ہو جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پوری دنیا میں پانامہ لیکس کے انکشافات کے بعد بحث ہو رہی ہے کہ ٹیکس بچانے کیلئے آف شور کمپنیوں کی روک تھام کیلئے قانون سازی کی جائے مگریہاں الزامات لگائے جا رہے ہیں اور ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالا جا رہا ہے۔ تحریک انصاف چیئر مین نے آف شور کمپنی کے انکشاف کے بعد خود پر لگنے والے الزامات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ میرا نام پانامہ پیپرز میں نہیں آیا، جیسے میں اب جواب آف شور کمپنیوں کے حوالے سے دوں گا وزیراعظم کو بھی ایسے دینا چاہیے تھا، میں نے 1971ء سے 1978ء تک مختلف کلبز کی جانب سے کاؤنٹی کرکٹ کھیلی جبکہ اسی دوران آسٹریلیا کے کیری پیکرسے3سالہ معاہدہ ہوا، جس سے مجھے جو آمدن ہوئی اس سے میں نے 1983ء میں لندن میں فلیٹ خریدا، وہ برطانیہ کے شہری نہیں تھے تو ان کے اکانٹنٹ نے کہا کہ اگر آپ اپنے نام پر فلیٹ لیں گے تو آپ کو ٹیکس دینا پڑے گا، لہذا آپ آف شور کمپنی کے ذریعے فلیٹ خریدیں، کیونکہ یہ قانونی ہے ،میں نے اپنی کوئی پراپرٹی نہیں چھپائی اور نہ ہی اپنے بچوں کے نام کی میری جتنی بھی پراپرٹی ہے وہ میرے نام ہے،نیازی سروسز کیلئے میں نے کوئی پراپرٹی نہیں چھپائی ،2012ء میں پریس کانفرنس کر کے نیازی سروسز کے حوالے سے تمام تر تفصیلات میڈیا کے سامنے رکھی تھیں،2003ء میں لندن میں فلیٹ جتنے کا بیچا اس کی تمام تر تفصیلات بھی ایوان میں پیش کرتا ہوں، لندن فلیٹ سے حاصل ہونے والی رقم کہیں اور نہیں بلکہ پاکستان لایا۔

عمران خان نے کہا کہ میں دس سال پاکستانی کرکٹ ٹیم کا کپتان رہا، اس عرصے کے دوران مجھ پر ایک بھی کرپشن کا الزام نہ لگا، پوری دنیا جانتی ہے کہ کرکٹ میں پہلی بار نیوٹرل امپائر عمران خان نے لگوائے۔ انہوں نے کہا کہ تمام ترتفصیلات پیش کرنے کے باوجود میں خود کو احتساب کیلئے پیش کرتا ہوں، جن ٹی او آرز کے ذریعے وزیراعظم کا احتساب ہو انہی کے ذریعے میرا بھی احتساب کیا جائے اور ان ٹی او آرز میں شوکت خانم کے تمام اکاؤنٹس بھی لے کر آئیں۔

عمران خان نے کہا کہ 1992ء میں ورلڈ کپ جتنا انعام مجھے ملا میں نے سارا شوعت خانم کو دے دیا، پنجاب حکومت کی جانب سے مجھے ملنے والے دو فلیٹس اور بھارت کے خلاف سیریز میں مین آف دی سیریز کے طور پر مجھے ملنے والی گاڑی بھی میں نے شوکت خانم کو دی، اگر میں چاہتا تو ان پیسوں سے اتفاق فاؤنڈری کی طرز پر مل اور شوگر ملیں بھی لگا سکتا تھا مگر میں نے تمام پیسے شوکت خانم کو دیئے۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نواز شریف نے اپنی تقریر میں کہا کہ 1973ء میں گلف سٹیل لگانے کیلئے پیسے یو اے ای لے کر گئے مگر اس وقت کے وزیر خزانہ ڈاکٹر مبشر حسن نے بیان دیا ہے کہ اس وقت منی لانڈرنگ اور پیسے باہر لے جانے کیلئے قانون بہت سخت تھے اور شریف فیملی جو پیسے یو اے ای لے کر گئی اس حوالے سے ہمیں کوئی علم نہیں، وزیراعظم نواز شریف نے جو تقریر کی اگر وہ یورپ کے کسی پارلیمنٹ میں کی گئی ہوتی تو وزیراعظم کو استعفیٰ دینا پڑتا،وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز کے حوالے سے بات کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ وہ وزیراعظم کی ڈیپنڈنٹ تھیں، جس کا مطلب ہے کہ ان کی جائیداد، وزیراعظم کی جائیداد ہے،مگر نیلسن اور نیسکول کمپنیاں مریم نواز کی ملکیت ہیں، مگر وزیراعظم نے کہا کہ لندن فلیٹس 2005میں خریدے گئے، میں ایوان میں ان فلیٹس کی رجسٹری اور اس سے متعلقہ دیگر دستاویزات پیش کرتا ہوں، لندن فلیٹس میں سے ایک فلیٹ 6جون 1993ء دو فلیٹس 31جولائی 1995ء، ایک فلیٹ23جولائی 1996ء اور پانچواں فلیٹ29جنوری 2004ء میں خریدا گیا، لندن کے ہائی کورٹ کے 1998ء کے فیصلے میں پانچ میں سے چار پراپرٹیز شریف خاندان کی تھیں۔

عمران خان نے کہا کہ حال ہی میں گلوبل اینٹی کرپشن سمٹ میں آئی ایم ایف کی چیف نے اپنے خطاب میں کہا کہ کرپشن کی وجہ سے ملک میں سرمایہ کاری نہیں آتی مگروزیراعظم نواز شریف کہتے ہیں کہ ان کے دور اقتدار میں بیرونی سرمایہ کاری آئی، موجودہ حکومت کے دور اقتدار سے زیادہ سرمایہ کاری تو پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں آئی،آئی ایم ایف کی چیف نے یہ بھی کہا کہ جب کرپشن ہوتی ہے تو پیسہ ملک سے نکل کر آف شور کمپنیوں میں چلا جاتا ہے جو ملک کو تباہ کر دیتا ہے اور ملک کی کرنسی ڈی ویلیو ہوتی ہے اور جب کرپشن ہوتی ہے تو پیسے عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ ہونے کی بجائے میگا پراجیکٹس پر خرچ ہوتے ہیں تا کہ کمیشن بنایا جا سکے، کرپشن سے ملک کے ادارے تباہ ہو جائے امیر اور غریب میں فرق بڑھ جاتا ہے، جب تک کرپشن اوپر سے ختم نہیں ہو گی نیچے سے ختم نہیں ہو سکتی۔

انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف چیف کی یہ تقریر پاکستان کے موجودہ حالات کی عکاسی کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میری درخواست ہے کہ جلد سے جلد پارلیمانی کمیٹی بیٹھے اور متفقہ ٹی او آرز بنائے تا کہ پانامہ لیکس کے حوالے سے وزیراعظم پر لگنے والے الزامات کی تحقیقات کرے۔انہوں نے کہا کہ نیب نے کہا ہے کہ ملک میں روزانہ 12 ارب روپے کی کرپشن ہو رہی ہے، پاکستان کا قرضہ 21ٹریلین ڈالر تک پہنچ گیا ہے گزشتہ تین سالوں میں 5ٹریلین ڈالر قرضہ لیا گیا، حکومت نے ملک کا دیوالیہ نکال دیا ہے، یہ قرضے کون واپس کرے گا، وزیراعظم کی تقریر سے سخت مایوسی ہوئی، اگر ہمیں جواب نہ ملا تو تحریک انصاف کا جمہوری حق ہے کہ وہ سڑکوں پر نکلے۔

Live پاکستان تحریک انصاف سے متعلق تازہ ترین معلومات