لاپتہ بلوچ اسیران وشہداء کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 23015دن ہوگئے

بدھ 18 مئی 2016 15:25

کوئٹہ ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔18 مئی۔2016ء ) لاپتہ بلوچ اسیران وشہداء کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 23015دن ہوگئے اظہار یکجہتی کرنے والوں میں ڈیرہ غازی خان سے میر چاگلی بلوچ نے اپنے ساتھیوں سے سمیت لاپتہ بلوچ و شہداء کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کیا اور بھرپور تعاون کا یقین دلایا اور انہوں نے کہاکہ یہ ایک بات ہے کہ استعماری قوت کے اپنے سامراجی مقاصد کو زیر مقبوضہ نو آبادتی اقوا م میں پھیلائی جانے والے تباہی اور لوٹ مار کے کھوکھلے مناظر کے باعث پوشیدہ رکھنے میں ناکام رہے یہ کھیل آج بھی جاری ہے جس کا ایک بدنما اور گھناونا اظہار بلوچ قوم اور اس کی سرزمین پر نمایا طورپر ہورہاہے بلوچ قوم کو اقتدار اعلیٰ اور جداگانہ آزادی قومی تشخص سے محروم کرنے والوں دعویٰ ہے کہ بلوچ قوم کو پسماندگی و جہالت وجدت تر قی سے نوازنا چاہتے ہیں ترقی کے جو نمونے پیش کئے گئے ہیں وہ تو بلوچستان کی سرزمین پر مکران میں بلوچ قوم کہی دکھائی نہیں دیتی ہر جگہ پر ائے دیس کے اجنبی لوگ چھکاچوندمیں نظر آتے ہیں نہ تو بلوچ قوم کو اس ترقی پر کسی قسم کا اختیار حاصل ہیں اور نہ ہی وہ اس سے فیض پاسکے گی ۔

(جاری ہے)

اصل مقصد بلوچستان کی سرزمین پر کنٹرول ہے جس میں ڈیرہ غازی خان بلوچستان کا حصہ ہے بھی شامل ہے جس میں قابض قوتوں کی خوشحالی اور تر تیعش زندگی کا راز پوشیدہ ہے بلوچ سرزمین کی یہ خوش بختی اسلئے بد بختی بنا دی گئی ہے کہ وہ نہ صرف بے پنا قیمتی قدرتی وسائل او ر توانائی کے ذخائر سے مالا مال بلکہ طویل ترین ساحل کے باعث کھلی بین القوامی سرحدیں رکھنے کے علاوہ ایک ایسے اہم ترین خطے میں واقعہ ہے جہاں ااج پوری دنیا کے مفادات کا ایک بڑا حصہ سمٹ آیا ہے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے وفد آنے کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہاکہ بلوچستان جغرافیائی سرحد سے ہلمند مغربی بلوچستان یعنی ایرانی بلوچستان کراچی جیکب آباد ، یعنی خان گڑھ اور ڈیرہ غازی خان یہ بلوچستان ہے انگریز نے نوری نصیر خان سے پوچھا کہ بلوچستان کہاتک ہے تو خان آف قلات نے کہا کہ جہاں جہاں بلوچی بولی جاتی ہے وہ بلوچستان ماما نے مزید کہااگر بلوچستان قومی اقتدار اعلیٰ کا مالک ہوتا تو اس کا شمار امیر ترین اور ترقی یافتہ ریاستوں میں ہوتا ۔

جس طرح پہلے آزاد ریاست تھا ۔بلوچ قوم وہ غریب تھا بھوکا تھا بے روزگار تھا لیکن بہت خوشحال تھا ۔ ذہنی آزادی ، جسمانی آزادی ، تعلیمی آزادی ،کلچر کی آزادی ، ثقافتی آزدی ، لیکن جب سے قبضہ گیر نے بلوچ قوم کو غلام بنایا ہے تو ہماری ساری آزادی سلب ہوچکی ہے ماما نے مزید کہاکہ بلوچستان علاقائی سیاست میں انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا جس کی ثمرات سے فوری بلوچ قوم مستفید ہوتی اور اقوام عالم میں اپنا منفرد اور جداگانہ مقام رکھتی ۔

متعلقہ عنوان :