وزیر اعظم نے ٹیکس ادائیگیو ں بارے حقائق پارلیمنٹ سے چھپائے، خورشید شاہ

بدھ 18 مئی 2016 14:09

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔18 مئی۔2016ء) اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے کہا کہ وزیر اعظم نے ٹیکس ادائیگیو ں بارے حقائق پارلیمنٹ سے چھپائے ہیں اپوزیشن کے شریف خاندان کے تمام کمپنیوں کا ٹیکس ریکارڈ حاصل کر لیا ہے احتساب وزیر اعظم کا پہلے ہونا چاہئے ۔ عوام کے دلوں سے خلفشار دور ہونا چاہئے کہ وزیر اعظم کرپٹ ہے وزیر اعظم کے بیٹے اگر ٹیکس نہیں دیتے تو ان سے پاکستانی شہریت اور پاسپورٹ واپس لئے جائیں سپیکر ایاز صادق کی صدارت میں جاری اجلاس میں سید خورشید شاہ نے کہا کہ میڈیا میں تاثر دیا گیا ہے کہ سپیکر کی ہدایت پر احتجاج ختم کیا گیا ہے ہمارا احتجاج وزیر اعظم کی غیر حاضری کے خلاف تھا ۔

آخر کار وزیر اعظم ایوان میں آ گئے واک آؤٹ مسلسل کرنے سے خدا خدا کر کے وزیر اعظم ایوان میں آ گئے اور صبر کے ساتھ انہیں سنا تھا ۔

(جاری ہے)

پانامہ لیکس کا معاملہ اب شروع ہوا ہے یہ معاملہ اب آگے چلے گئے اور ہم نے کئی سوالات اٹھائے ہیں ہم جمہوری آدمی ہیں اس ملک کے مسائل کا واحد حل پارلیمنٹ ہے پارلیمنٹ مشکل سے مشکل مسئلہ کو حل کر سکتی ہے اس مسئلے کا حل اس ایوان میں ڈھونڈنا ہو گا جو مسئلے جلسے جلوسوں میں حل نہ ہوں گے ایوان میں حل ہوں گے ۔

وزیر اعظم کو کہا کہ آپ کا حلقہ انتخاب ایوان ہے ہمارا یہ موقف آج بھی یہی ہے کل بھی یہ ہوگا ماضی میں پارلیمنٹ کو اہمیت نہیں دی جاتی تھی اس لئے باہر فیصلے کرتے تھے اس سے دوسرے لوگوں کو فائدہ ملے گا ہمارا بڑا مطالبہ نہیں ہے بڑی تکلیف ہوئی ہے جس صبح میڈیا پر تاثر دیا گیا کہ کیا مسئلے کے لئے ہم پارلیمنٹ کا سامنا نہیں کر سکتے انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کو آج ایوان میں ہونا چاہئے تھا اور ہماری چھوٹی چھوٹی باتوں کو سنتے ۔

خورشید شاہ نے کہا کہ پانامہ لیکس پر باتیں اپوزیشن کی طرف سے نہیں ہے یہ معاملہ اپوزیشن نے نہیں اٹھایا ہم نے آف شور کمپنیوں کا انکشاف کے لئے نہیں کیا یہ حقائق ہیں کہ وزیر اعظم کے صاحبزادوں نے اقرار کیا کہ ان کی آف شور کمپنیاں ہیں ہر فرد نے مختلف ادوار میں پامانہ کمپنیوں کا قرار کیا ہے پانامہ لیکس پر وزیر اعظم کو بات نہیں کرنی چاہئے تھی بیٹوں کو کہتے کہ خود جواب دو ۔

ان کے بیٹوں کی عمریں کیا تھیں رقم کہاں سے آئی ۔ ٹیکس دیا یا نہیں دولت کہاں سے کمائی گئی یہ سوالات کا جواب ملنا چاہئے لندن میں فلیٹ کی خریداری پر شریف خاندان نے متضاد بیانات دے کر مسئلہ کو الجھایا ہے عوام کے ذہنوں میں خلفشار خود شریف خدان نے پیدا کئے ہیں جب وضاحت نہیں ہو گی تو سوالات ضرور جنم لیں گے اس پر ناراض ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ہمارا مطالبہ سات سوال تھے اس کا جواب چاہئے جواب میں کہا جاتا ہے کہ ہم ڈکٹیشن نہیں لیں گے یہ آسان سوال تھے لیکن وزیر اعظم کے جواب نے 70 سوالات مزید جنم دے دیئے ۔

جب اتفاق فاؤنڈری کو قومیائے گئی تو پیسے کہاں سے آئے وزیر اعظم خود کہتے ہیں کہ ہم غریب ہو گئے تھے کیا پھر یہ دولت ہنڈی کی طرف سے کئے گئے ہیں وزیر اعظم نے کہا کہ 10 ارب روپے کا تیکس دیا ہے جبکہ وزیر اعظم نے سیلز ٹیکس کو بھی شامل ہے 12 سال میں 23 کمپنیاں 10 ارب روپے کا سیلز ٹیکس دے رہی ہیں ان کمپنیوں کے ڈائریکٹرز بھی شامل ان کمپنیوں نے حقیقت مإن ایک ارب ٹیکس دیا ہے 14 سال میں انکم اوسط دیا ہے قوم کا ہم پر حق ہے ہم سب پبلک پراپرٹی ہیں ہم کیا مافیا ہیں یا عوام کی خدمت کرتے ہیں عوام اور قوم ہم سے پوچھیں گے عوام کی خدمت کرنے کی بجائے ذاتی جائیدادیں بنانے کا سوچتے ہیں لیکن بچانے کے لئے آف شو کمپنی بنانا ٹھیک نہیں ہے بیٹے کو اجازت دے دی جائے کہ ٹیکس بچانے کے لئے آف شور کمپنی بنائی
جائے تو اخلاقیات کے داہرے میں غلط ہے جو آدمی ٹیکس نہیں دیتے اور لندن میں رہتے ہیں ان کو پاکستان کی شہریت نہیں دینی چاہئے ۔

وزیر اعظم اپنے بیٹوں سے گرین پاسپورٹ واپس لیں اگر وہ غریبو ں کو ٹیکس نہیں دیں گے اگر امانتدار خیانت کرے تو قوم پریشان ضرور ہو گی یہ ظلم آخر کب تک رہے گا سپریم کورٹ نے بھی اپوزیشن کے موقف کی تائید کر دی ہے ۔ہم نے حکومت کو مل بیٹھ کر ٹی او آرز بنانے کا مطالبہ کیا تھا دنیا میں کئی وزیر اعظم استعفےٰ دے چکے ہیں ہم وزیر اعظم کو کرپٹ قرار نہیں دیتے لیکن ہم چاہتے ہیں کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہے اور عوام کے دلوں سے خلفشار نکل جائے کہ ہمارا وزیر اعظم کرپٹ ہے اس لئے ٹی او آرز متفقہ طور پر بنانا ہوں گے تاکہ کمیشن اچھی طرح تحقیقات کر سکے ۔

ہم خود کو احتساب کے لئے پیش کرتے ہیں اگر ہم نے کرپشن کی ہے تو ہمارا احتساب بھی کیا جائے لیکن وزیر اعظم کا احتساب ضروری ہے قرضے معاف کرانے والوں کا ہی احتساب ہونا چاہئے انہوں نے کہا کہ ہم نے 70 سوال بھی جمع کرا دیئے ہیں وزیر اعظم کے تمام ٹیکس چوری ٹیکس ادائیگی اور شریف خاندان کی ملکیتی کمپنیوں کا ریکارڈ ہمارے پاس ہے وزیر اعظم اعداد و شمار میں ھیر پھیر کر کے قوم کو بے وقوف نہ بنائیں ۔