پانا ما لیکس معاملہ ‘ اپوزیشن لیڈر کی حکومت کو ملکر ٹی او آرز بنانے کی دعوت

اگر وزیر اعظم کے بیٹے باہرکام کرتے ہیں توان کی قومیت بھی یورپ کی ہونی چاہیے خورشید شاہ

بدھ 18 مئی 2016 13:39

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔18 مئی۔2016ء) قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے پانا ما لیکس کے انکشافات کے بعد معاملے تحقیقات کیلئے حکومت کو ملکر ٹی او آرز بنانے کی دعوت دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر وزیر اعظم کے بیٹے باہرکام کرتے ہیں توان کی قومیت بھی یورپ کی ہونی چاہیے ‘ہم پبلک پراپرٹی ہیں ‘ہمارے بارے میں عوام کو پتہ ہونا چاہیے ‘ہم کسی کو چور نہیں کہنا چاہتے ‘ وزیر اعظم سے سات سوالات کے جوابات چاہئیں ‘ جو مسئلے جلسوں میں حل نہیں ہوسکتے وہ پارلیمنٹ حاصل کرسکتی ہے۔

بدھ کو قومی اسمبلی میں اظہارخیال کرتے ہوئے خورشید شاہ نے کہاکہ وزیراعظم کہتے ہیں میرے بیٹوں پر ملکی قوانین لاگو نہیں ہوتے ‘ اگروزیراعظم کے صاحبزادے پاکستان کو ٹیکس نہیں دے سکتے تو ان کے پاس گرین پاسپورٹ بھی نہیں ہونا چاہیے ‘ اس ملک کے خزانے ‘انفرااسٹرکچروقت کی حکومت کے پاس امانت ہوتے ہیں ‘ پاکستان وزیراعظم کے پاس امانت ہے اور جب امانت میں خیانت ہوتو قوم پریشان ہوجاتی ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے 1938 میں 4 ہزار490 روپے ٹیکس ادا کیا لیکن موجودہ وزیراعظم نے 1992 میں صرف 2700 روپے ٹیکس دیا، کیا قائداعظم کی آف شور کمپنیاں، فلیٹس اور کمپنیاں تھیں ‘ کیا ان کے پاس اتفاق فاوٴنڈری یا اسٹیل مل نہیں تھی لیکن انہوں نے اپنا قومی فرض ادا کیا ‘ ہم پبلک پراپرٹی ہیں ہمارے بارے میں عوام کو پتہ ہونا چاہئے۔

اپوزیشن لیڈرخورشید شاہ نے کہاکہ 23 سال میں وزیراعظم کی 12 کمپنیوں نے ایک ارب روپے ٹیکس دیا ‘ مجموعی طور پرانہوں نے 14 سال میں 6 لاکھ 50 ہزارروپے انکم ٹیکس ادا کیا جو اوسطاً 40 ہزار روپے بھی نہیں بنتا، پاناما لیکس کے معاملے پر وزیراعظم کے ایوان میں اظہارخیال کے بعد انہوں نے مزید سوالات اٹھادیئے ہیں ‘جب سوالات اٹھیں گے تو اس پر ناراض ہونے کی ضرورت نہیں ‘جب چورچور کی روایت شروع ہوئی تو اس کا فائدہ کسے ہوا؟آج بھی کسی کو چور نہیں کہنا چاہتے بلکہ وزیراعظم سے 7 سوالات کے جوابات چاہئیں لیکن وزیراعظم کی تقریرکے بعد نئے سوالات نے جنم لیا ہے، ہم یہ بھی سوال نہیں کرتے کہ جب نیشنلائزین ہوئی تو آپ کس طرح پیسے باہر لے کرگئے اورفیکٹری لگائی، پہلی مرتبہ ذہن میں یہ بات آئی کہ گلف اسٹیل مل بھی بنائی گئی ہے۔

خورشید شاہ نے کہا کہ پاناما لیکس کے معاملے پرسپریم کورٹ نے ہمارے موقف کی تائید کی کہ مل کر ٹی او آرز بنائے جائیں ‘ آج بھی حکومت کو دعوت دیتے ہیں کہ آئیں اور مل کر ٹی او آرز بنائیں، ہم نے حکومت کو ڈکٹیشن نہیں دی بلکہ وضاحت مانگی ہے، ہم نہیں چاہتے کہ کوئی کہے کہ وزیراعظم کرپٹ تھے اور انہوں نے غلط طریقے سے لندن میں فلیٹس خریدے، ہم چاہتے ہیں ہر کوئی قانون کے تابے ہو، ہمارا بھی احتساب ہونا چاہئے تاکہ کوئی یہ نہ کہے کہ اشرافیہ کا اس ملک میں احتساب نہیں ہوتا، ہم سے بھی پوچھا جائے۔

خورشید شاہ نے کہاکہ جومسئلے جلسوں میں حل نہیں ہوسکتے وہ پارلیمنٹ حل کرسکتی ہے ‘ ہم اپنے فیصلے باہر کرتے تھے اس لیے پارلیمنٹ کو اہمیت نہیں ملی، متعدد مرتبہ کہا کہ وزیراعظم کا حلقہ پارلیمنٹ ہے وہ یہاں آکربات کریں، وزیراعظم اس پارلیمنٹ سے کیوں بھاگ رہے تھے انہیں کیا خوف تھا؟ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے کہا کہ اپوزیشن نے پاناما کا معاملہ نہیں اٹھایا ‘یہ معاملہ عالمی سطح پراٹھایا گیا ‘پاناما لیکس معاملے پرجوباتیں ہورہی ہیں وہ اپوزیشن کی طرف سے نہیں ‘نوازشریف کے بیٹوں نے کبھی پاناما لیکس کااعتراف کیاکبھی تردید کی، لندن فلیٹس پروزراء اورشریف فیملی نے مختلف بیانات دیئے، ہم انتظارکرتے رہے کہ حقیقت سامنے آجائے۔

انہوں نے کہا کہ کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے اور میاں صاحب ایوان میں تشریف لائے ‘ آج بھی وزیراعظم کو یہاں موجود ہونا چاہئے تھاانہوں نے کہا کہ لوگوں کے ذہنوں میں یہ خلفشار میاں صاحب کی فیملی اور وزراء نے پیدا کیا، یہ ساری باتیں یہ سارے سوالات خود میاں صاحب کی فیملی نے پیدا کیے، وزیراعظم کی باتوں میں تضاد آتے رہے۔وزیر اعظم کوبار بار کہا کہ ان کا فورم پارلیمنٹ ہے ، وزیراعظم قوم سے خطاب میں اپنی فیملی کی وضاحت دیتے رہے جوانہیں نہیں دینی چاہئے تھی، وزیر اعظم کو قوم سے خطاب کے بجائے انہیں کہنا چاہئے تھا کہ وہ سامنے آئیں۔

خورشید شاہ نے سوال کیا کہ کیا گلف اسٹیل میں پیسے اسٹیٹ بینک کی اجازت سے گئے؟ ہم یہ سوال نہیں کرتے کہ ٓپ کے پاس پیسا کہاں سے آیا؟ہم تو یہ پوچھ رہے ہیں کہ آپ نے یہ پیسا باہر کیسے بھیجا؟خورشید شاہ نے کہا کہ اگر آپ کے بیٹے باہرکام کرتے ہیں توان کی قومیت بھی یورپ کی ہونی چاہیے ‘کوئی بھی یہ پسندنہیں کریگاکہ اسکابیٹاپاکستان سے ٹیکس بچانے کیلئے باہر کاروبار کرے، جوبچے باہرکاروبارکرتے ہیں،یہاں ٹیکس نہیں دیناچاہتے ن کے پاس پاکستان کی قومیت کیوں ہے؟اپوزیشن لیڈر نے کہاکہ وزیراعظم کے ایوان میں نہ آنے پراپوزیشن نے احتجاج کیا ‘ہم نے بڑے صبرکے ساتھ وزیراعظم کی وضاحتیں سنیں۔

خورشید شاہ نے کہاکہ گزشتہ سوالات آسانی پیدا کرنے کیلئے دیئے تھے اور جوابات نہ ملنے پر اسمبلی سے واک آؤٹ کیا۔انہوں نے کہاکہ ہمیشہ کوشش کی ہے کہ پارلیمنٹ ہی مسائل کا حل نکالے کیونکہ پارلیمنٹ 20کروڑ افراد کا نمائندہ فورم ہے۔ انہوں نے کہا جانتے تھے کہ سڑکوں پر نہیں بلکہ پارلیمنٹ میں مسائل حل ہوتے ہیں اس لیئے وزیراعظم سے کہا یہاں آئیں اور یہاں بات کریں ۔

آج بھی ہمارا یہی موقف ہے۔انہوں نے کہا کہ ایسا محسوس ہورہا تھا کہ جیسے چین یا ترکی کا صدر خطاب کرنے کیلئے آرہا ہو۔ کیونکر ہم اس پارلیمنٹ سے بھاگتے رہے ؟پاکستان میں روایت رہی ہے کہ پارلیمنٹ کو اتنی اہمیت نہیں ملتی جس قدر وہ مستحق ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم پارلیمنٹ کے بجائے اشاروں پر کام کرتے تھے اور پارلیمنٹ کے فیصلے باہر کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے غریب کی بھوک کا کبھی نہیں سوچا بس اپنی ریاست اور تجارت کا سوچا۔ہمارے ملک کا پیسہ ہمارے ملک کے عوام کے پاس ہی رہنا چاہئے ‘جو لوگ پاکستان کو ٹیکس نہیں دینا چاہتے یہاں کے غریبوں کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے ان کے پاس گرین پاسپورٹ بھی نہیں ہونا چاہئے۔ خور شید شاہ نے کہاکہ کیوں ہمارا شہری غریب سے غریب تر ہوتا جا رہا ہے؟آخر ہمیں کیوں احساس نہیں ہو رہا کہ ہمارا کسان بے حال کیوں ہے؟اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم امین ہیں اورجہاں امانت میں خیانت ہوتی ہے وہاں پریشانیاں ہوتی ہیں۔