سی آئی اے کی افریقہ میں مداخلت کی طویل تاریخ

افر یقی ممالک میں حکو متو ں کا تختہ الٹنے ، نیلسن منڈیلا کی گرفتا ری سمیت با غی تحر یکو ں میں امریکی ایجنسی پیش پیش رہی ، رپو رٹ

بدھ 18 مئی 2016 11:39

واشنگٹن(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔18 مئی۔2016ء) امریکہ کی انٹیلی جنس ایجنسی سی آئی اے کی افریقہ میں مداخلت کی لمبی تاریخ ہے۔ اسی لیے تازہ رپورٹ جس میں یہ کہا گیا ہے کہ 1962 میں نیلسن منڈیلا کی گرفتاری اس وقت ہوئی جب سی آئی اے نے حکام کو خبر دی تو کسی کو تعجب نہیں ہوا۔اس قسم کے زیادہ تر واقعات سرد جنگ کے دوران پیش آئے جب امریکہ اور روس افریقہ میں اثر و رسوخ بڑھانے کی کوششوں میں تھے۔

مندرجہ ذیل چند مثالیں ہیں جب امریکی ایجنسی سی آئی اے نے اپنی کارروائیاں کیں۔پیٹرس لممبا 1960 میں کونگو کے پہلے وزیر اعظم بنے۔ کونگو نے نئی نئی آمادی حاصل کی تھی۔ لیکن پیٹرس چند ماہ ہی اس عہدے پر رہ سکے اور ان کی حکومت کا تختہ جنوری 1961 میں الٹ دیا گیا اور ان کو قتل کر دیا گیا۔

(جاری ہے)

2002 میں بیلجیئم نے اس پیٹرس کے قتل میں کردار ادا کرنے کی ذمہ داری قبول کی۔

تاہم امریکہ نے کبھی بھی اس واقعے میں اپنے کردار کے حوالے سے بات نہیں کی۔اس وقت کے امریکی صدر آئزنہاور کو تشویش تھی کہ کمونزم پھیل رہا ہے اور کونگو کیوبا کی طرح کمیونزم کی جانب نہ چل پڑے۔پیٹرس کے قتل پر لکھی گئی کتاب ’ڈیتھ ان دا کونگو‘ میں ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’صدر آئزنہاور نے پیٹرس کے قتل کا حکم دیا۔ اس حوالے سے بحث نہیں ہوئی اور (نیشنل سکیورٹی کونسل) کا اجلاس دیگر واقعات پر بحث کرنے لگے۔

اس وقت کونگو میں سی آئی اے کے سٹیشن کے سربراہ نے بی بی سی کو 2000 میں بتایا کہ سی آئی اے نے پیٹرس کی ٹوتھ پیسٹ میں زہر ملانے کا منصوبہ بنایا تھا لیکن اس پر عملدرآمد نہ ہو سکا۔گھانا کے پہلے صدر نروما کی حکومت 1966 میں فوجی بغاوت میں ختم ہوئی۔ ایسا اس وقت ہوا جب وہ ملک سے باہر تھے۔نروما کو شک تھا کہ ان کی حکومت ختم کرنے میں امریکہ کا ہاتھ تھا۔

1978 میں سی آئی اے کے سابق اہلکار جان سٹاک نے اپنی کتاب میں اس واقعے کا ذکر کیا۔اہلکار نے اپنی کتاب ’ان سرچ آف اینمیز‘ میں لکھا ہے کہ اگرچہ اس بغاوت کی منظوری کے حوالے سے سی آئی اے میں کوئی دستاویز نہیں ہے لیکن گھانا کے دارالحکومت اکرا میں واقع سی آئی اے کے دفتر کو ہیڈ کوارٹر نے کہا تھا کہ وہ باغیوں سے رابطے کریں۔سی آئی اے کے دفتر کا بجٹ بڑھا دیا گیا اور تختہ الٹنے کے منصوبے کے دوران سی آئی اے ان سے قریبی رابطے میں رہی۔

کتاب میں لکھا ہے کہ سی آئی اے بہت زیادہ ملوث ہو گئی اور ان اہلکاروں کو غیر ضابطہ طور پر بغاوت کرنے کا کریڈٹ دیا جاتا ہے۔پرتگال سے 1975 میں آزادی حاصل کرنے کے بعد تین گروپ ملک پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے سرگرم تھے۔ اگستنہو نیتو کی قیادت میں ایم پی ایل اے نے دارالحکومت لوانڈا پر قبضہ کر لیا۔انگولا میں 1975 میں سی آئی اے کے اہلکار سٹاک ویل نے لکھا کہ واشنگٹن نے فیصلہ کیا کہ ایم پی ایل اے کی مخالفت کرنی ہے کیونکہ اس کا جھکاوٴ سوویت یونین کی طرف تھا۔

اس کی بجائے ایف این ایل اے اور یونیتا کی حمایت کرنی ہے اگرچہ ان تینوں گروپس کو کمونسٹ ممالک ہی سے حمایت مل رہی تھی۔سٹاک ویل نے ایک دستاویزی فلم میں کہا کہ سی آئی اے نے خفیہ طریقے سے کنشاسا سے ہمسایہ ملک زائر (اب کونگو) 30 ہزار رائفل پہنچائیں۔انھوں نے مزید کہا کہ سی آئی اے نے جنگجووٴں کو تربیت بھی دی۔امریکی سرکاری دستاویزات کے مطابق سی آئی اے کے سربراہ اور امریکی وزیر خارجہ اور دیگر حکام نے سی آئی اے کی ایم پی ایل اے کی مخالفت کی حمایت کی۔

حسین حبری 1980 میں طاقت کے زور پر چاڈ میں حکومت حاصل کرنے میں ناکام ہوئے۔اس کے نتیجے میں اس وقت کے صدر نے لیبیا کے معمر قذافی سے مدد مانگی جن کے فوجیوں نے حبری کی کوشش ناکام بنائی اور اس کے نتیجے میں ان کو ملک چھوڑنا پڑا۔لیبیا اور چاڈ کے روابط پر امریکہ خوش نہ تھا کیونکہ معمر قذافی امریکہ مخالف کارروائیوں کے حمایتی تھے۔امریکی جریدے فارن پالیسی میں مائیکل برونر نے لکھا کہ سی آئی اے کے ڈائریکٹر اور وزیر خارجہ نے حبری کے ساتھ مل کر حکومت الٹانے کا منصوبہ بنایا۔الزام عائد کیا جاتا ہے کہ امریکہ نے 1982 میں حبری کو حکومت حاصل کرے میں مدد کی اور ان کی حکومت کے دوران ان کی حمایت جاری رکھی

متعلقہ عنوان :