پانا ما لیکس معاملہ ٗوزیر اعظم کی جوڈیشل کمیشن کے ٹی او آر ز کیلئے اپوزیشن کی مشاورت سے پارلیمانی کمیٹی بنانے کی تجویز

کمیٹی باہمی مشاورت کے بعد تحقیقات کیلئے ٹی او آرز بنائے پھر جس فورم پر چاہیں تحقیقات کرالی جائیں ٗنواز شریف کی پیشکش میرے نام کا پاناما پیپرز میں ذکر تک نہیں ٗ اپوزیشن کے ٹی او آرز میں فرد جرم عائد کر دی گئی ٗ میرا دامن صاف ہے، کسی قانونی وآئینی استثنیٰ کی ضرورت نہیں ٗماضی میں بھی کڑے احتساب سے گزرے ہیں اب بھی ہر طرح کے احتسابی عمل سے گزرنے کیلئے تیار ہیں ٗچاہتے ہیں ٹیکس چوری کر نے اور قرضے معاف کر انے والوں کی اصل کہانی بھی سامنے آجائے ٗمیرے والد نے دبئی جا کر گلف اسٹیل نامی فیکٹری لگائی ٗ لندن کے فلیٹوں کیلئے پاکستان سے ایک روپیہ بھی نہیں بھیجا ٗ23سال کے دور ان ہمارے خاندان نے 10ارب روپے کے ٹیکس اور محصولات ادا کئے ٗ ذاتی طورپر تین کروڑ روپے ٹیکس ادا کیا ٗ 1999ء میں ہمارے کاروباری اداروں کو مفلوج کیا گیا ٗتمام کاروباری اداروں کو چھانا گیا ٗریکارڈ قبضے میں لیا گیا ٗ حکومت وقت سر توڑ کوشش کرنے کے باوجود رتی برابر بدعنوانی ثابت نہ کرسکی، ہم ظالمانہ اور یکطرفہ احتساب میں بھی سرخرو ہوکر نکلے ٗکاروبار سے سیاست میں داخل ہوا ہوں سیاست سے کاروبار میں نہیں آیا ٗہیلی کاپٹروں ٗ جہاز وں میں گھومنے والے بھی بتائیں پہلے وہ کیا تھے ؟معاملہ محض میرے استعفیٰ سے ختم نہیں ہوسکتا ٗ بات چل ہی نکلی ہے تو دوددھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہونا چاہئے ٗنواز شریف کا قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب

پیر 16 مئی 2016 21:30

پانا ما لیکس معاملہ ٗوزیر اعظم کی جوڈیشل کمیشن کے ٹی او آر ز کیلئے اپوزیشن ..

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔16 مئی۔2016ء) وزیراعظم محمد نواز شریف نے پاناما لیکس کے معاملے پر جوڈیشل کمیشن کے ٹی او آر بنانے کیلئے اپوزیشن کی مشاورت سے پارلیمانی کمیٹی بنانے کی تجویز دیتے ہوئے کہا ہے کہ کمیٹی باہمی مشاورت کے بعد تحقیقات کیلئے ٹی او آرز بنائے پھر جس فورم پر چاہیں تحقیقات کرالی جائیں ٗ میرے نام کا پاناما پیپرز میں ذکر تک نہیں ٗ اپوزیشن کے ٹی او آرز میں فرد جرم عائد کر دی گئی ٗ میرا دامن صاف ہے، کسی قانونی وآئینی استثنیٰ کی ضرورت نہیں ٗ ماضی میں بھی کڑے احتساب سے گزرے ہیں اب بھی ہر طرح کے احتسابی عمل سے گزرنے کیلئے تیار ہیں ٗچاہتے ہیں ٹیکس چوری کر نے اور قرضے معاف کر انے والوں کی اصل کہانی بھی سامنے آجائے ٗمیرے والد نے دبئی جا کر گلف اسٹیل نامی فیکٹری لگائی ٗ لندن کے فلیٹوں کیلئے پاکستان سے ایک روپیہ بھی نہیں بھیجا ٗ23سال کے دور ان ہمارے خاندان نے 10ارب روپے کے ٹیکس اور محصولات ادا کئے ٗ ذاتی طورپر تین کروڑ روپے ٹیکس ادا کیا ٗ 1999ء میں ہمارے کاروباری اداروں کو مفلوج کیا گیا ٗتمام کاروباری اداروں کو چھانا گیا ٗریکارڈ قبضے میں لیا گیا ٗ حکومت وقت سر توڑ کوشش کرنے کے باوجود رتی برابر بدعنوانی ثابت نہ کرسکی، ہم ظالمانہ اور یکطرفہ احتساب میں بھی سرخرو ہوکر نکلے ٗکاروبار سے سیاست میں داخل ہوا ہوں سیاست سے کاروبار میں نہیں آیا ٗہیلی کاپٹروں ٗ جہاز وں میں گھومنے والے بھی بتائیں پہلے وہ کیا تھے ؟معاملہ محض میرے استعفیٰ سے ختم نہیں ہوسکتا ٗ بات چل ہی نکلی ہے تو دوددھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہونا چاہئے۔

(جاری ہے)

پیر کو قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی جانب سے لگائے گئے الزامات کا جواب دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ رواں سال اپریل کے پہلے ہفتے میں پانامہ پیپرز کے حوالے سے ایک رپورٹ میڈیا میں آئی‘ اس میں ایسی آف شور کمپنیوں کی نشاندہی کی گئی جس میں پاکستانیوں کا تعلق بھی بتایا گیا۔ اس میں یہ واضح کردیا گیا تھا کہ ضروری نہیں کہ یہ آف شور کمپنیاں غیر قانونی ہوں۔

نواز شریف نے کہاکہ میرے دو بیٹوں کے نام بھی اس میں آئے جو گزشتہ کافی عرصہ سے بیرون ملک مقیم ہیں اور دیگر لاکھوں پاکستانیوں کی طرح وہاں پر رزق حلال کما رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مجھے میرے ساتھیوں نے مشورہ دیا کہ چونکہ میرا نام اس میں شامل نہیں ہے اس لئے مجھے اپنے آپ کو احتساب کے لئے پیش نہیں کرنا چاہیے تاہم میں نے ضروری سمجھا کہ میرے خاندان کا نام اس میں شامل ہے اس لئے قوم سے خطاب میں اپوزیشن کے مطالبہ سے قبل ہی سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں کمیشن قائم کرنے کا اعلان کیا۔

انصاف کے اعلیٰ ترین اداروں میں تعینات یہ جج ریٹائرڈ ہونے کے باوجود بھی انصاف کے بے لاگ تقاضے پورے کر سکتے ہیں۔ تاہم ایسا ماحول پیدا کردیا گیا کہ نہایت اچھی ساکھ کے حامل سابق چیف جسٹس نے بھی کمیشن کی سربراہی سے انکار کردیا۔ اس کے بعد پارلیمانی کمیٹی کی تجویز سامنے آئی جس پر ہم نے مثبت ردعمل ظاہر کیا تاہم اس پر بھی اپوزیشن پیچھے ہٹ گئی۔

اس کے بعد ایف آئی اے سے تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا تو اس پر بھی ہم نے انھیں اپنی پسند کے آفیسر نامزد کرنے کی پیشکش کی ۔ پھر حاضر سروس چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیشن قائم کرنے کا مطالبہ کیا گیا تو اس پر بھی 22 اپریل کو قوم سے اپنے خطاب میں یہ مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے کمیشن بنانے کا اعلان کیا تاہم اس کو بھی مسترد کردیا گیا اور حکومتی ٹی او آرز مسترد کرتے ہوئے ٹی او آرز کے 15 نئے نکات دیئے گئے۔

اس میں شاید ہی کسی سنجیدگی کا عنصر شامل ہو۔ اپوزیشن کے ٹی او آرز بدعنوانی اور کرپشن کی بجائے ایک فرد کے گرد گھومتے ہیں۔ اس میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم سے مراد نواز شریف ہوں گے جس کا پانامہ پیپرز میں ذکر ہی نہیں اس پر فرد جرم عائد کردی گئی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ہم نہیں چاہتے کہ ملک کسی کشمکش کا باعث بنے ٗملک کی تعمیر و ترقی پر توجہ مرکوز کرنے کے لئے اس معاملے کی بے لاگ چھان بین ضروری ہے۔

کسی مسئلے کو ہم نے انا کا مسئلہ نہیں بنایا صرف پاکستان کی اناء ہی ہماری اناء ہے نواز شریف نے کہاکہ ہمارا دامن صاف ہے‘ کسی آئینی یا قانونی استثنیٰ کی ضرورت نہیں ہے ٗ ہم ماضی میں بھی یکطرفہ اور کڑے احتساب میں سرخرو نکلے اور اب بھی احتساب کے لئے تیار ہیں۔ ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ بدعنوانی‘ اختیارات کے ناجائز استعمال‘ ٹیکس چوری‘ غیر قانونی طور پر پیسے باہر بھجوانے‘ اربوں روپے کے قرضے معاف کرانے والے کی کہانی بھی عوام کے سامنے آنی چاہیے۔

اگر ایک اخباری کہانی پر اتنا شور ہے تو پھر دستاویزی ثبوت کے حامل کیسوں کی بھی تحقیقات ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایوان احتساب کے جامع موثر اور بے لاگ کردار پر غور کرے۔ میثاق جمہوریت کی بھی یہ ایک اہم شق تھی۔ ایک ایسا جامع نظام وضع ہونا چاہیے جس پر پوری قوم کو اعتماد ہو اور جس سے یہ بہتان اور الزام تراشی کا کلچر ختم ہو۔ نواز شریف نے کہاکہ بے بنیاد الزامات سے سیاستدان ہی نہیں سیاست بھی بے وقار ہو جاتی ہے جبکہ اس سے جمہوریت بھی بے توقیر ہو جاتی ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ یہ بھی کہا گیا کہ میں پارلیمنٹ میں آکر اٹھائے گئے سوالوں کا جواب دوں تو معاملہ ختم ہو جائے گا تاہم یہ معاملہ اب یوں ختم نہیں ہو سکتا اور نہ ہی اس کو ختم ہونے دیں گے۔ اب دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ضرور ہونا چاہیے۔ وزیراعظم نے کہا کہ شاہراہ دستور پر دھرنے کے دوران اس ایوان کا کردار انتہائی مثبت رہا ٗوزیراعظم نے کہا کہ میرے پاس چھپانے کو نہ پہلے کچھ تھا نہ آج ہے۔

میرا سب کچھ کھلی کتاب کی طرح ہے۔ میرا خاندان کھلی کتاب کی طرح ہے۔ میں نے سیاست میں کچھ کمایا یا بنایا نہیں البتہ گمایا ضرور ہے۔ میں سیاست سے کاروبار میں نہیں بلکہ کاروبار سے سیاست میں آیا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے بطور وزیراعلیٰ یا وزیراعظم رفاعی اداروں اور ٹرسٹ کو مفت سرکاری زمینیں دی ہونگی‘ مالی گرانٹس دی ہونگی‘ مشینری کی درآمد پر ٹیکسوں میں چھوٹ دی ہوگی‘ شریف میڈیکل کمپلیکس ایک بڑے رفاعی ادارے کے طور پر کام کر رہا ہے تاہم اس کے لئے ایک انچ اراضی یا مالی گرانٹ نہیں لی گئی۔

انہوں نے سوال کیا کہ کیا کرپشن کرنے اور سرکاری تجوریاں بھرنے والوں کا طرز عمل ایسا ہی ہوتا ہے۔ ہماری کہانی رزق حلال ‘ محنت‘ وقار اور جدوجہد کی کہانی ہے جس میں قبضہ‘ چوری‘ خیانت‘ پرمٹ‘ قرضے معاف کرانے کا شائبہ تک نہیں۔ ہم نے قرضے لئے تو پائی پائی ادا کی۔ وزیراعظم نے کہا کہ قیام پاکستان سے گیارہ سال قبل ہم نے اتفاق فاؤنڈری سے اپنے کاروبار کا آغاز کیا۔

میرے والد محترم کا پختہ ایمان‘ دیانت اور امانت پر بھرپور یقین تھا۔ وقت کے ساتھ اس کاروبار نے ترقی کی۔ 1970ء میں سٹیل اور انجینئرنگ میں اس کا سب سے بڑا مقام تھا۔ 1972ء میں اسے قومیایہ گیا اور ہمیں ایک پائی نہیں دی گئی۔ اس سے قبل یہ ادارہ کروڑوں روپے منافع میں تھا۔ 1971ء میں اس کا سالانہ ٹرن اوور چار کروڑ روپے سے زائد تھا۔ 700 کنال پر محیط یہ فیکٹری تھی۔

اس وقت ڈالر چار روپے ‘ سی ایس پی آفیسر کی تنخواہ 500 روپے اور سونا 155 روپے فی تولہ تھا۔ اس وقت ہمارے ایک کروڑ 80 لاکھ روپے کے سٹاک تھے۔ یہ اس وقت کے ہیں جب ہمارا ابھی تک سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ یہ ادارہ 8 سال بعد ہمیں واپس کیا گیا تو اس وقت اس کی مشینری کھنڈر بن چکی تھی۔ خسارے میں گئی اس فیکٹری کو ہمارے والد نے پھر آباد کیا۔ وزیراعظم نے بتایا کہ ایک سال میں اس کے بے جان ڈھانچے کو پھر سے فعال اور متحرک کیا گیا۔

1983ء میں اس کا منافع 7 کروڑ 57 لاکھ روپے تک پہنچ گیا۔ یہ تفصیل ان لوگوں کے لئے ہے جو حقائق کو جان بوجھ کر جھٹلا رہے ہیں۔ مجھے وراثت میں ایک ترقی کرتا ہوا پھلتا پھولتا کاروبار ملا اور خوف خدا کا درس بھی ساتھ میں ملا۔ آج عالیشان گاڑیوں میں پھرنے والوں ‘ بڑے بڑے عالیشان محلات میں رہنے والوں ‘ ہیلی کاپٹروں میں دنیا بھر میں سیر و سیاحت کرنے والوں سے بھی یہی تقاضہ ہے کہ وہ مناسب سمجھیں تو قوم کو اپنے ذرائع آمدن سے آگاہ کریں۔

70 کی دہائی میں وہ کہاں کھڑے تھے آج ان کے شاہانہ اخراجات کے ذرائع آمدن کیا ہیں؟۔ وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ کچھ لوگ یہ الزام لگاتے ہیں کہ ہم ٹیکس نہیں دیتے‘ 23 سال میں ہم نے 10 ارب روپے کے ٹیکس ادا کئے اس موقع پر پوری تفصیل انہوں نے سپیکر کو دی ٗ انہوں نے 3 کروڑ 60 لاکھ روپے کے ذاتی ٹیکس کی تفصیلات بھی پیش کیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ 1972ء میں جب اتفاق فاؤنڈری کو ایک پیسہ معاوضہ دیئے بغیر قومیا گیا تو وہ اسے دیگر کاروباری حضرات کے ساتھ ہمارے والد کے سامنے بھی یہ سوال آیا کہ اب کیا کیا جائے؟بہت سے لوگ ہجرت کر گئے تو ہمارے والد نے بھی دبئی میں جاکر گلف سٹیل ملز کے نام سے کاروبار شروع کیا۔

شیخ راشد المکتوم نے اس کا افتتاح کیا۔ اس موقع پر وزیر اعظم نے اس کی یادگار تصویر بھی انہوں نے پیش کی۔ اپریل 1983ء میں یہ فیکٹری 33.37 ملین درہم میں فروخت ہوئی۔ اس وقت تک ہمارا سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھا ٗہمارے والد نے عدم تحفظ کے تحت دبئی میں جو سرمایہ کاری کی وہ 1999ء میں اس وقت درست ثابت ہوئی جب ہمیں بے دخل کردیا گیا تو ہمارے تمام کاروبار کا ریکارڈ قبضے میں لے کر باریک بینی سے اس کا جائزہ لیا گیا۔

ہمارے بنکوں کے کھاتے کھنگالے گئے۔ حکومت وقت نے سر توڑ کوشش کی لیکن رتی برابر بدعنوانی ثابت نہ ہو سکی۔ ہم اس ظالمانہ اور یکطرفہ احتساب سے بھی سرخرو ہو کر نکلے جس کے بعد ایک خودساختہ طیارہ اغواء کے مضحکہ خیز ڈرامے کا سہارا بنا کر ہمیں سزا دی گئی اور جلا وطن کیا گیا تو ہمارے والد نے جدہ میں سٹیل ملز لگائی‘ جون 2005ء میں یہ سٹیل ملز 17 ملین ڈالر میں فروخت ہوئی۔

اس کی تمام دستاویزات موجود ہیں۔ انہی وسائل اور ذرائع سے لندن میں فلیٹس خریدے گئے‘ جدہ سٹیل ملز یا لندن کے فلیٹ کی خریداری کے لئے پاکستان سے ایک روپیہ باہر نہیں گیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ کمیشن کے قیام کے حوالے سے چیف جسٹس کا خط مل گیا ہے‘ قانونی ماہرین اس کا جائزہ لے رہے ہیں۔ وزیراعظم نے قائد حزب اختلاف اور پارلیمانی لیڈروں کی مشاورت سے پارلیمانی کمیٹی تشکیل دینے کی پیشکش کی جس میں جامع ٹرمز آف ریفرنس اور دیگر معاملات کو حتمی شکل دی جائے تاکہ بدعنوانی کا ارتکاب کرنے والوں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جاسکے اور اس حوالے سے کمیٹی جو تجویز کرے گی تمام تر شواہد کی تفصیل اس کے سامنے ہماری طرف سے رکھ دی جائے گی۔

وزیراعظم نے کہا کہ یہ تاثر نہ دیا جائے کہ کچھ تو گناہوں میں لت پت ہیں اور کچھ کے لباس سے فرشتوں کی خوشبو آتی ہے۔ اصولوں کی بات کرنی ہے تو اس کے لئے الگ الگ پیمانے نہیں چلیں گے‘ تلنا ہے تو سب کو ایک ہی پیمانے میں ترازو میں تلنا ہوگا۔ وزیراعظم نے کہا کہ 70 برسوں سے قوم کو ایسے ہی تماشوں کی بھینٹ چڑھایا گیا ہے۔ خدا خدا کرکے سنبھلے ہیں اور واضح منزلوں کا تعین ہوا ہے۔

نوجوانوں کی مایوس آنکھوں میں امید کے چراغ روشن کئے ہیں۔ معیشت‘ مستحکم‘ شہروں کا امن واپس‘ قومی اور عالمی سطح پر ہمارے وقار میں اضافہ ہوا ہے۔ آج ہر پاکستانی تسلیم کرتا ہے کہ گزشتہ تین سال کے مقابلے میں موجودہ پاکستان زیادہ روشن‘ توانا اور مستحکم ہے اور 2018ء کا پاکستان آج کے پاکستان سے کہیں زیادہ روشن ‘ توانا اور مستحکم ہوگا۔