اپوزیشن کے واک آؤٹ سے مایوسی ہوئی ہے یہ طے ہوا تھا اپوزیشن کو بھی وزیراعظم کے خطاب کے بعد بات کرنے کا وقت دیا جائیگا ،سینیٹر اسحاق ڈار

سمجھتا ہوں کہ اپوزیشن کے پاس کوئی بات کرنے کو نہیں تھی اس لئے وہ میں نہ مانوں کی رٹ لگاتے ہوئے ایوان سے چلے گئے، وزیر خزانہ کا اسمبلی میں خطاب

پیر 16 مئی 2016 21:11

اپوزیشن کے واک آؤٹ سے مایوسی ہوئی ہے یہ طے ہوا تھا اپوزیشن کو بھی وزیراعظم ..

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔16 مئی۔2016ء ) وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ اپوزیشن کے واک آؤٹ سے مایوسی ہوئی ہے یہ طے ہوا تھا کہ اپوزیشن کو بھی وزیراعظم کے خطاب کے بعد بات کرنے کا وقت دیا جائیگا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اپوزیشن کے پاس کوئی بات کرنے کو نہیں تھی اس لئے وہ میں نہ مانوں کی رٹ لگاتے ہوئے ایوان سے چلے گئے ہیں۔

پیر کو قومی اسمبلی میں اپوزیشن کے واک آؤٹ کے بعد انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے فیصلہ کیا کہ ہم ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں کمیشن بناتے ہیں 18 اپریل کو انتخابی اصلاحات کمیٹی کی میٹنگ تھی جب یہ میٹنگ ختم ہو گئی اور اسمبلی کے عملے سمیت سب لوگ چلے گئے تو اپوزیشن نے کہا کہ ہمیں ریٹائرڈ جج نہیں چاہئے اس وقت وزیراعظم بھی لندن گئے ہوئے تھے بعد ازاں کمیٹی بنانے کی بات کی گئی وہ بھی مانی گئی پھر چیف جسٹس کو خط لکھنے اور حاضر سروس جج پر مشتمل کمیشن بنانے کی بات کی گئی جس پر وزیراعظم نے فیصلہ کیا کہ ہم چیف جسٹس کو خط لکھ دیتے ہیں اور 22 اپریل کو یہ خط لکھ دیا گیا ہم نے ٹی او آرز بھی ڈسکس کئے وزیراعظم کے خطاب کے بعد اپوزیشن کے اس واک آؤٹ کا کوئی جواز نہیں تھا اپوزیشن کا مطالبہ تھا کہ وزیراعظم ایوان میں آئیں ، وزیراعظم ایوان میں آئے ہیں جو چاہئے تھا وہ دے دیا گیا ایک پارلیمانی کمیٹی بنا لے وزیراعظم نے پہلے کہہ دیا ہے پہلے کوئی چیز پوشیدہ نہیں تھی نہ اب ہے وزیراعظم کا پانامہ پیپرز میں نام نہیں کہ ان لوگوں کے اپنے نام ہیں جو شور مچا رہے ہیں انہوں نے سپیکر سے کہا کہ اجلاس کے بعد قائد حزب اختلاف اور دیگر پارلیمانی لیڈروں کو اپنے چیمبر میں بلا کر پارلیمانی کمیٹی کے حوالے سے بات کریں ۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو ہمیں آگے لے کر چلنا ہے سب کا فرق ہے کہ وہ پاکستان کی ترقی و خوشحالی کیلئے مل کر کام کریں سب اپنے آپ کو کلیئر کریں گے کسی کو رعایت نہیں ملے گی انہوں نے کہا کہ پاکستان جب بھی ٹیک آف کرنے لگتا ہے اس بھنور میں پھنسا دیا جاتا ہے اور جتنی محنت کی ہوتی ہے سب ضائع ہو جاتی ہے ماضی میں ایک ٹرانزیکشن میں پاکستان کو 100 ارب روپے کا نقصان ہوا تھا ہم نہیں چاہتے کہ ماضی کی باتیں ہوں ہر چھ ماہ بعد سیاستدانوں کو برا بھلا کہا جاتا ہے ملکی کی معاشی ترقی ، ترقیاتی منصوبوں اور سیکیورٹی منصوبوں پر کوئی منفی رد عمل نہیں آنا چاہئے ۔