وزیراعظم نواز شریف وقت ضائع نہ کریں، آئیں مل بیٹھ کر اس مسئلے کا حل نکالیں، خورشید احمد شاہ

ضمانت دیتا ہوں کہ وزیراعظم کی پارلیمنٹ آمد پر ان کی شان میں کوئی گستاخی نہیں کریں گے اور نہ ہی کوئی احتجاج ہوگا،اپوزیشن لیڈر پارلیمنٹ ایک بڑا فورم ہے اور وزیراعظم کے لئے یہی آسان راستہ ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں آکر وضاحت کریں کوئی گو نواز گو کا نعرہ نہیں لگے گا۔ ہم گو بابا گو کی تاریخ نہیں دہرائیں گے،ہم جمہوریت کو ڈی ریل نہیں ہونے دیں گے ہم ہر بات پارلیمنٹ کے اندر کرنا چاہتے ہیں۔ بلاول بھٹو نے جو وزیراعظم کے استعفےٰ کا مطالبہ کیا ہے وہ عوام کی سوچ کی بناء پر کیا ہے ہماری وزیراعظم نواز شریف سے کوئی دشمنی نہیں ،تمام جماعتوں یہی خواہش ہے کہ پانامہ لیکس پر شفاف تحقیقات ہونی چاہئیں، پریس کانفرنس سے خطاب

جمعہ 13 مئی 2016 22:39

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔13 مئی۔2016ء) قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید احمد شاہ میں نے میاں محمد نواز شریف کو پیشکش کی ہے کہ آئیں مل بیٹھ کر اس مسئلے کا حل نکال لیں۔ وقت ضائع نہ کریں۔ گو بابا گو نعرہ لگانے کا زمانہ گزر چکا ہے۔ میں بحیثیت اپوزیشن لیڈر اس بات کی ضمانت دیتا ہوں کہ وزیراعظم پیر کو پارلیمنٹ میں آکر پانامہ لیکس میں آنے والی اپنے خاندان کی آف شور کمپنیوں، اثاثوں سے متعلق اپوزیشن کے سوالوں کے جوابات دیں۔

ان کی شان میں کوئی گستاخی نہیں کی جائے گی او رنہ ہی کوئی احتجاج ہوگا اور نہ گو نواز گو کا نعرہ لگایا جائے گا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعہ کو اپنی رہائش گاہ پر پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر پیپلز پارٹی کے رہنما سعید غنی اور دیگر بھی موجود تھے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے چیف جسٹس آف پاکستان کو پانامہ لیکس کی تحقیقات کے لئے عدالتی کمیشن کے قیام کے لئے جو خط بھیجا تھا اس کمیشن کے لئے جو ٹی او آرز مرتب کئے گئے تھے۔

اگر ان ٹی او آرز کی بنیاد پر کمیشن بنتا تو پھر 1947ء کے بعد سے اب تک کی ہونے والی تحقیقات کرنا پڑتیں اور یہ تحقیقات اس وقت تک جاری رہتیں کہ 10 چیف جسٹس تبدیل ہوجاتے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں خدشہ تھا کہ سپریم کورٹ ان ٹی او آرز کی بنیاد پر کمیشن تشکیل نہیں دے گی۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے بھی حکومت کو یہ کہا ہے کہ کمیشن کے قیام کے لئے قانون سازی کی جائے۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن میں دھاندلی کے حوالے سے بھی جو کمیشن تشکیل دیا گیا تھا اس حوالے سے بھی قانون سازی کی گئی تھی۔ میں یہ نہیں کہتا کہ کسی کی ہار ہوئی ہے یا جیت۔ ہم وزیراعظم سے کہتے ہیں کہ وہ آئیں اور ہمارے ساتھ مل بیٹھ کر اس مسئلے کا حل نکالیں۔ پانامہ لیکس اسکینڈل نے پاکستانی سیاست میں طوفان برپا کردیا ہے۔ یہ انکشافات پاکستان کے کسی میڈیا ہاؤس یا ادارے نے نہیں کئے بلکہ عالمی سطح پر یہ اسکینڈل منظر عام پر آیا ہے۔

اس میں بڑی بڑی عالمی شخصیات کے نام سامنے آئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پانامہ لیکس پر دو ملک کے وزیراعظم گھرجاچکے ہیں۔ تیسرے نے پارلیمنٹ میں اپنے اثاثوں کے بارے میں ڈھائی گھنٹے تک وضاحت دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ ایک بڑا فورم ہے اور وزیراعظم کے لئے یہی آسان راستہ ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں آکر وضاحت کریں۔ انہوں نے کہا کہ جب ایک جماعت اسلام آبادمیں دھرنا دے رہی تھی اس وقت وزیراعظم نے کہا تھا کہ دھرنے دینے والے پارلیمنٹ میں آئیں۔

پارلیمنٹ ہی ان کا مسئلہ حل کرسکتی ہے۔ اگر وہ پارلیمنٹ میں نہیں آئیں گے تو ان دھرنا دینے والوں کو کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے اس وقت کی سیاسی صورت حال میں وزیراعظم کا نہیں بلکہ پارلیمنٹ کا ساتھ دیا۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت بھی میری ذات پر تنقید کی گئی، انگلیاں اٹھائی گئیں لیکن میں نے اس کی پرواہ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی یا اپوزیشن سمیت کوئی بھی جماعت یہ نہیں چاہتی کہ جمہوریت ڈی ریل ہو۔

ہم جمہوریت کو ڈی ریل نہیں ہونے دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے پانامہ لیکس کے معاملے پربھی وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ تعاون کیا ہے۔ اپوزیشن نے 7 سوالوں کا پرچہ بنا کر انہیں دیا ہے اور وقت سے پہلے ہی ہم نے پرچہ آؤٹ کردیا ہے۔ نواز شریف پاکستان کے وزیراعظم ہیں۔ ہم وزیراعظم کی کرسی کا احترام کرتے ہیں۔ وزیراعظم پیر کو جب پارلیمنٹ آئیں گے تو ہم انہیں وزیراعظم کی حیثیت سے ہی خوش آمدید کہیں گے۔

اپوزیشن کوئی طوفان برپا نہیں کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہم پارلیمنٹ کی بالادستی چاہتے ہیں۔ وزیراعظم جب آئیں گے تو کوئی گو نواز گو کا نعرہ نہیں لگے گا۔ ہم گو بابا گو کی تاریخ نہیں دہرائیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ ہی تمام مسائل کا حل نکال سکتی ہے۔ میں حکومت کو کہتا ہوں کہ وہ پیر کو پارلیمنٹ میں ہونے والا اجلاس براہ راست نشر کرے۔

انہوں نے کہا کہ ہم پرانی تاریخ بھول چکے ہیں۔ حکومتی مذاکراتی ٹیم ہمارے پاس آئی تھی۔ ہم نے ان پر واضح کیا ہے کہ کمیشن کی تشکیل اور ٹی او آرز کا معاملہ قانون کے مطابق باہمی مشاورت سے طے کیا جائے اور کمیشن کی تشکیل کے لئے قانون سازی کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری وزیراعظم نواز شریف سے کوئی دشمنی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی، اے این پی یا کوئی بھی اپوزیشن جماعت سب کی یہ خواہش ہے کہ پانامہ لیکس پر شفاف تحقیقات ہونی چاہئیں۔

انہوں نے کہا کہ سب جماعتیں جمہوریت کی بالادستی پر یقین رکھتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے وزیراعظم سے صرف اتنا کہا ہے کہ وہ پیر کو پارلیمنٹ میں آئیں اور اپنے اور اپنے خاندان کی جائیدادوں اور ٹیکس گوشواروں کی تحقیقات کریں۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کے فرزند ارجمندوں نے خود اپنی جائیدادوں سے متعلق میڈیا کو بتایا ہے کہ ان کی آف شور کمپنیاں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم وزیراعظم سے یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ پانامہ پیپرز میں ان کے خاندان کی جن آف شور کمپنیوں کا انکشاف ہوا ہے، وہ اس کی وضاحت کریں کہ ان آف شور کمپنیوں کے لئے پیسہ کہاں سے آیا ہے۔ یہ پیسہ پاکستان، امریکہ، سعودی عرب یا جس ممالک سے بھی منتقل ہوا ہے اس کے بارے میں وضاحت کی جائے۔ اس پیسے سے جو جائیداد خریدی گئی ہے اس بارے میں بھی پارلیمنٹ کو آگاہ کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کے ٹیکس گوشوارے سب کے سامنے ہیں۔ وزیراعظم اس بارے میں مکمل وضاحت کریں۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں حکمران امیر سے امیر تر اور غریب غریب تر ہورہا ہے۔ میں یہ واضح کرتا ہوں کہ ایک سیاسی برادری ہو یا کوئی بھی جس پر پانامہ پیپرز میں کوئی الزام ہو یا اس کا نام آیا ہے ان سے پوچھ گچھ ہونی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ کرپشن کے حوالے سے سب کا احتساب ہونا چاہئے۔

جن لوگوں نے قرضے معاف کرائے، کرپشن کی ہے، قرضے معاف کراکے بیرون ملک گئے ہیں ان سب کا احتساب ہونا چاہئے۔ اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ ہم تنقید برائے تنقید کی سیاست نہیں کرنا چاہتے۔ سب کو ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہئے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم ہر بات پارلیمنٹ کے اندر کرنا چاہتے ہیں۔ بلاول بھٹو نے جو وزیراعظم کے استعفےٰ کا مطالبہ کیا ہے وہ عوام کی سوچ کی بناء پر کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سیاست دانوں کو کرپٹ آمروں نے بنایا ہے۔ ملک میں 1958 کے بعد کرپشن شروع ہوئی ہے۔ آمر اپنا اقتدار بچانے کے لئے کرپشن کرتے رہے۔ خورشید شاہ نے کہا کہ حکومت کو چاہئے کہ وہ پیر سے قبل سپریم کورٹ کو خط لکھے جس میں سپریم کورٹ کو آگاہ کیا جائے کہ حکومت عدالتی کمیشن کی تشکیل کے لئے قانون سازی کرنے پر تیار ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اگر وزیراعظم پارلیمنٹ میں نہیں آئیں گے اور حکومت اس معاملے کا سنجیدگی سے حل نہیں نکالے گی تو سیاسی معاملات گھمبیر ہوسکتے ہیں۔