3سالوں کے بقایاجات جمع کروانے کے مطالبے کے مسئلے کے حل کیلئے مسلسل رابطے میں ہیں، سراج قاسم تیلی

تاجروصنعتکار برادری کی امنگوں کے مطابق مسئلے کے حل کیلئے پُرامید ہے،چیئرمین بزنس مین گروپ

جمعہ 13 مئی 2016 22:03

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔13 مئی۔2016ء)بزنس مین گروپ کے رہنماوٴں اور کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے عہدیداران نے کہا ہے کہ کے سی سی آئی ای او بی آئی کی جانب سے نظرثانی شرح کے مطابق گزشتہ 3سالوں کے بقایاجا ت جمع کروانے کے اچانک مطالبے کے مسئلے کے حل کیلئے متعلقہ اتھارٹی سے مسلسل رابطے میں ہے اور تاجروصنعتکار برادری کی امنگوں کے مطابق اس مسئلے کے حل کیلئے پُرامید ہے۔

بزنس مین گروپ کے چیئرمین و سابق صدر کے سی سی آئی سراج قاسم تیلی، وائس چیئرمینز بی ایم جی و سابق صدور کے سی سی آئی طاہر خالق، زبیر موتی والا،ہارون فاروقی،انجم نثار، کے سی سی آئی کے صدر یونس محمد بشیر،سینئر نائب صدر ضیا احمد خان، نائب صدر محمد نعیم شریف نے کہاکہ تاجرو صنعتکاربرادری خود کو مقدموں میں الجھانے کے بجائے اپریل2016سے نظرثانی شرح کے مطابق اپنے واجبات جمع کروانا شروع کر دیں تاکہ مزید کسی پیچیدگیوں اور قانونی کارروائی سے بچا جاسکے۔

(جاری ہے)

انہوں نے امیدظاہر کرتے ہوئے کہاکہ متعلقہ اتھاڑتی سے اب تک کی بات چیت اور پیش رفت سے ظاہر ہوتا ہے کہ ای او بی آئی کے اگلے بورڈ اجلاس میں اس مسئلے کو اٹھایا جائے گا جس کے بعد وزارت اوورسیز اینڈ ہیومن ریسورس ڈیولپمنٹ اور وفاقی حکومت کو معقول سفارشات ارسال کی جائیں گی کیونکہ انہیں ہی یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ ای او بی آئی کونظرثانی شرح کے مطابق گزشتہ 3سالوں کے بقایات جمع کروانے کے غیر منصفانہ مطالبے سے باز رکھیں ۔

توقع ہے کہ مشترکہ کوششوں سے اس مسئلے کو جلد حل کرلیاجائے گا۔انہوں نے واضح کیا کراچی چیمبر نے گزشتہ ماہ چیئرمین ای او بی آئی محمد صالح فاروقی کو ایک خط ارسال کیا تھا جس میں کراچی چیمبر نے ای او بی آئی کے سوشل انشورنس میں آجروں کی شراکت کے حصے میں اچانک اضافے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا نیز صنعتوں کو 3 سالوں کے واجبات جمع کروانے کے سلسلے میں ملنے والے نوٹسزپر بھی تشویش ظاہر کی۔

ان کا یہ ماننا ہے کہ آجروں کا حصہ بڑھانے اور 3سال کے واجبات جمع کروانے کا مطالبہ درحقیقت صنعتکاروں کے لیے ناممکن ہے جن کے لیے پہلے سے ہی زائد پیدواری لاگت کے باعث اپنی بقا قائم رکھنا دشوار ہوتا جارہا ہے ۔انہوں نے ای او بی آئی کے نوٹسز کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ غیر ہنر مندورکرز ایکٹ2016 میں ترمیم کے مطابق کم سے کم اجرت13ہزار روپے ہے اور اس کے مطابق ہی آجروں اور ملازمین کے حصے کاتعین کیا جائے گا اس کا مطلب یہ ہے کہ تمام آجربشمول ملازمین کا حصہ دگنا یعنی 480روپے سے بڑھ کر780روپے ہوگیاہے۔

بی ایم جی رہنماوٴں اور کے سی سی آئی عہدیداران نے کہاکہ ای او بی آئی اگر حصہ د اری کی شرح پر نظرثانی کرنا ضروری سمجھتاہے تو اسے اپریل2016سے نافذ کیا جائے جبکہ ٹریڈ اور انڈسٹری13ہزار روپے کی شرح پراپنا حصہ دینے کے لیے تیار ہے لیکن رواں ماہ سے اس کو وصول کیا جائے کیونکہ سابقہ واجبات وصول کرنا ناقابل عمل ہے جس کے نتیجے میں انڈسٹری پر مزید بوجھ بڑھے گا جو پہلے ہی مختلف وجوہات کی بنا پر سرمائے کی قلت کا شکار ہے۔

انھوں نے ای او بی آئی کے قوانین کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ کم سے کم اجرت کا5فیصد تمام کمرشل اور صنعتی اداروں کے آجروں کو جمع کروانا ہوتا ہے جبکہ ایک فیصد انہی اداروں کے ملازمین کو دینا ہوتا ہے ۔اگرپچھلے 3سالوں کے واجبات کا نظرثانی شرح کے مطابق مطالبہ برقرار رکھا گیا تواس سے مزید مسائل پیدا ہوں گے کیونکہ ای او بی آئی کے رجسٹرڈ اداروں اور یونٹس کے کئی ملازمین یا تو ریٹائر ہوچکے ہیں یا اپنے استعفے پیش کرچکے ہیں جس کی وجہ سے ایسے ملازمین کا ایک فیصد وصول کرنا ناممکن ہے جو اب ادارے کا حصہ ہی نہیں جبکہ دوسری جانب ادارے میں موجو دملازمین پر مزید بوجھ پڑے گا۔

انہوں نے اس مسئلے کا حل پیش کرتے ہوئے کہا کہ ای اوبی آئی جبراً اقدامات سے گریز کرے جبکہ پچھلے 3سال کے بقایاجات نظرثانی شرح کے مطابق وصول کرنے کے سلسلے میں جاری کیے گئے نوٹسز بھی فی الفورواپس لے ۔انہوں یہ تجویز بھی دی کہ نظر ثانی شرح کا اطلاق اپریل2016سے کیاجائے ا ور گزشتہ 3 سالوں سے اس کا اطلاق نہ کیاجائے۔انہوں نے وزارت اوورسیز اینڈ ہیومن ریسورس ڈیولپمنٹ سے درخواست کی کہ وہ اس معاملے پرتمام اسٹیک ہولڈر زسے مشاورت کرتے ہوئے دوبارہ جائزہ لے اور معقول احکامات جلد از جلد جاری کئے جائیں تاکہ ٹریڈ اینڈ انڈسٹری میں پائی جانے والی غیر یقینی صورتحال کا خاتمہ کیاجاسکے۔