اراکین سینٹ کا امریکہ کی جانب سے پاکستان کو ایف سولہ طیاروں پر دی جانے والی سبسڈی کی واپسی کی خبروں پر سخت تشویش

امریکی کانگریس کی ایف سولہ طیارے فروخت کرنے کی منظوری سے بھارتی کوشش ناکام ہو چکی،قومی ترجیحات پر سمجھوتہ نہیں کرینگے ٗ سرتاج عزیز شکیل آفریدی کی حوالگی ٗ حقانی نیٹ بارے الزامات ،نیوکلیئر پروگرام پر تحفظات سے پاک امریکہ تعلقات میں کچھ سرد مہری آئی ہے ،افغان مفاہمتی عمل میں پاکستان اہم کردار ادا کر رہا ہے ٗپاک ایران گیس پائپ لائن ،تاپی منصوبے پر کام جاری ہے ٗ سینٹ میں خطاب

جمعرات 12 مئی 2016 22:14

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔12 مئی۔2016ء) اراکین سینٹ نے امریکہ کی جانب سے پاکستان کو ایف سولہ طیاروں پر دی جانے والی سبسڈی کی واپسی کی خبروں پر سخت تشویش کرتے ہوئے کہا ہے کہ عالمی برادری دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی قربانیوں کا اعتراف کرے ٗ امریکہ کی غلامی سے نجات حاصل کرکے آزاد خارجہ پالیسی بنانا ہوگی‘ امریکہ میں انڈین لابی بہت مضبوط ہے ٗ جذباتی تقریروں سے مسائل حل نہیں ہونگے جبکہ وزیر اعظم کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کہاہے کہ امریکی کانگریس کی طرف سے ایف سولہ طیارے فروخت کرنے کی منظوری دینے سے بھارتی کوشش ناکام ہو چکی ہے ٗمذاکرات جاری ہیں ٗمسئلہ جلد حل ہو جائیگا ٗامریکہ کی جانب سے شکیل آفریدی کی حوالگی ٗ حقانی نیٹ کے حوالے سے الزامات اور نیوکلیئر پروگرام پر تحفظات کی وجہ سے پاک امریکہ تعلقات میں کچھ سرد مہری آئی ہے ٗقومی سلامتی اور قومی ترجیحات پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرینگے ٗافغانستان میں مفاہمتی عمل میں پاکستان اہم کردار ادا کر رہا ہے ٗپاک ایران گیس پائپ لائن اور تاپی منصوبے پر کام جاری ہے۔

(جاری ہے)

جمعرات کو سینٹ میں امریکہ کی طرف سے پاکستان کو ایف سولہ طیاروں کی فروخت پر مجوزہ سبسڈی کی واپسی کے حوالے سے تحریک التواء پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے سینیٹر محسن لغاری نے کہا کہ پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف بے مثال قربانیاں ہیں امریکہ کی طرف سے پاکستان کو ایف 16 طیاروں کی فراہمی کا مسلسل گریز ناقابل قبول ہے ٗامریکہ کی جانب سے پاکستان کو ایف سولہ طیاروں کی فروخت پر مجوزہ سبسڈی کی واپسی کے حوالے سے خبریں ہمارے لئے تشویش کا باعث ہیں۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ دور میں تعلق کی نوعیت اب مفادات تک محدود ہو کر رہ گئی ہے‘ ہمیں اپنے معاملات کو بہتر بنانا ہوگا ٗدہشتگردی کے خلاف پاکستان کی قربانیوں کو پوری دنیا سراہ رہی ہے ٗامریکہ کا اس حوالے سے دہرا معیار ہمیں سمجھ نہیں آرہا۔ سینیٹر حافظ حمد اﷲ نے کہا کہ امریکہ بھارت کی حمایت کرتا ہے۔ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ہمارا دوست کون ہے اور دشمن کون ہے۔

امریکہ کا پاکستان کے ساتھ منافقانہ رویہ ہے۔ خارجہ پالیسی پارلیمنٹ میں بنانا ہوگی اور امریکی غلامی سے نجات حاصل کرنا ہوگی۔ سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ امریکہ کی غلامی اختیار کرنے کی پالیسی کی وجہ سے آج نتائج بھگت رہے ہیں۔ نائن الیون کے بعد ایک فون کال پر ہماری قیادت ڈھیر ہوگئی۔ انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی عوام‘ فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بڑی قربانیاں دی ہیں ٗیہ جنگ ہماری نہیں تھی اس میں ہمیں دھکیل دیا گیا۔

اب جنگ میں فتح بھی ہماری ہوگی۔ سینیٹر نہال ہاشمی نے کہا کہ موجودہ حکومت نے خارجہ پالیسی میں تبدیلی لائی ہے اور درست سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں ٗ خطے میں تعلقات اور تجارت کو فروغ دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر خارجہ پالیسی مرتب کرنی ہے تو اس کے لئے آگے پیچھے جانے کی بجائے آئین کی پیروی کرنا ہوگی ۔ سینیٹر لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم نے کہا کہ بھارت کہہ رہا ہے کہ ایف 16 طیارے ہمارے خلاف استعمال ہونگے اس لئے مخالفت کر رہا ہے یہ حقیقت ہے یہ طیارے دہشتگردوں کے خلاف استعمال ہونگے اور بھارت کے خلاف بھی استعمال ہونگے کیونکہ دہشتگردی کے پیچھے بھارت کا ہاتھ ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزارت دفاع نے قائمہ کمیٹی میں بتایا ہے 31 مئی کو واشنگٹن میں ایف سولہ طیاروں کے معاملے پر امریکی حکومت سے بات چیت ہوگی۔ طیاروں کے حصول میں جو مشکلات پیش آرہی ہیں اس میں ہندو اور یہودی لابی بنیادی وجہ ہے۔ سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ امریکہ اپنے مفادات پر ہر چیز کو ترجیح دیتا ہے‘ ماضی میں امریکہ نے ہمیں استعمال کیا انہوں نے کہا کہ اگر پاک چین اقتصادی راہداری کو محفوظ بنانا ہے تو اس کے لئے افغانستان میں بھی امن ضروری ہے ٗ جمہوری نظام کا تسلسل خارجہ پالیسی کی کامیابی کیلئے ضروری ہے۔

سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ خارجہ پالیسی پارلیمنٹ کے اختیار میں نہیں جب تک حکومت پارلیمنٹ کی بالادستی کو تسلیم نہیں کریگی خارجہ پالیسی ٹھیک نہیں ہوگی۔ سینیٹر میر حاصل خان بزنجو نے کہا کہ جذباتی تقریروں سے مسائل حل نہیں ہونگے‘ امریکہ میں انڈین لابی بہت مضبوط ہے۔ اپنے معاشرے میں امریکہ مخالف جذبات ابھارنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

خارجہ پالیسی ٹھیک کرنا پڑے گی بعد ازاں سینٹ میں امریکہ کی جانب سے پاکستان کو ایف سولہ طیاروں کی فروخت پر مجوزہ سبسڈی کی واپسی کے حوالے سے تحریک التواء پر بحث سمیٹتے ہوئے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کہا کہ ایف سولہ طیاروں کے معاملے پر گزشتہ چند ہفتوں میں کامیابی ملی ہے‘ امریکی حکومت نے کانگریس کو طیارے پاکستان کو فروخت کرنے پر قائل کیا اور کانگریس نے طیاروں کی فروخت کی منظوری دیدی ہے ٗ آٹھ طیاروں کی قیمت 800 ملین ڈالر ہے ٗاب طیاروں کی فنانسنگ کا طریقہ کار طے کرنا باقی ہے۔

انہوں نے کہا کہ امریکہ کے محکمہ دفاع کے ساتھ بات چیت جاری ہے ٗامریکی حکام بھی یہ کہتے ہیں کہ دہشتگردی کے خلاف جاری جنگ میں یہ طیارے پاکستان کو دینے ضروری ہیں ٗزیادہ تر لوگ ایف سولہ طیارے پاکستان کو دینے کے حامی ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 19 اپریل کو ہمارے وزیر دفاع نے امریکی سیکرٹری دفاع کو طیاروں کے معاملے پر خط بھی لکھا ہے ٗ30 مئی سے 3 جون تک واشنگٹن میں پاک امریکہ دفاعی گروپ کی میٹنگ ہونی ہے اس میں بھی طیاروں کا معاملہ زیر بحث آئے گا۔

انہوں نے کہا کہ امریکی سیکرٹری دفاع نے طیاروں کے معاملے پر ہمارے موقف کی حمایت کی ہے اور وہ بھی کہتے ہیں کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں یہ طیارے پاکستان کے لئے ضروری ہیں۔ ۔ امریکہ کی جانب سے پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام پر تحفظات ظاہر کئے گئے جو ہم نے مسترد کئے۔ شکیل آفریدی کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا جس کو پاکستان نے مسترد کیا ٗ پاکستان پر حقانی نیٹ ورک کو سپورٹ کرنے کا الزام بھی لگایا گیا ہے تاہم اس حوالے سے کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کئے گئے۔

انہوں نے کہا کہ امریکہ میں اس وقت انتخابات کا بخار بھی سر چڑھ کر بول رہا ہے ٗ اس وجہ سے بھی ایسے معاملات اٹھائے جارہے ہیں اس کے علاوہ حقانی نیٹ ورک کے حوالے سے بھارتی لابی بھی پاکستان کے خلاف متحرک ہے۔ بھارت کی جانب سے ایف سولہ ان کے خلاف استعمال کئے جانے کا پروپیگنڈہ بھی کیا جارہا ہے ٗ پاکستان نے بھارت اور امریکہ کے درمیان نیوکلیئر معاہدے سمیت خطے میں طاقت کے توازن کی جانب توجہ دلائی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ مسئلہ مشکلات کا سبب ہے تاہم توقع ہے کہ ایک مسئلے کو لے کر دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں تعطل نہیں آئے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان سٹریٹجک ڈائیلاگ چل رہا ہے جس کا چھٹا سیشن دو ماہ قبل واشنگٹن میں ہوا۔ دونوں ملکوں کے ورکنگ گروپ میں توانائی شراکت داری‘ ماحولیاتی تبدیلی‘ دیامر بھاشا ڈیم کی فزیبلٹی سٹڈی‘ افغانستان میں تعمیر نو میں حصہ لینے کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔

اس کے علاوہ پاکستان کی دفاعی ضروریات کے حوالے سے پیش رفت ہوئی ہے۔انہوں نے کہا کہ انڈین لابی طیاروں کے ایشو پر بہت متحرک تھی اور اس کی کوشش تھی کہ طیاروں کی فروخت کو بلاک کرایا جائے مگر وہ اس کوشش میں ناکام ہوگئے ہیں ٗمشیر خارجہ نے کہا کہ امریکہ کے ساتھ گزشتہ تین ماہ میں تعلقات میں کچھ سرد مہری آئی ہے ٗ امریکی کانگریس کی جانب سے ایف سولہ کے معاملے پر پاکستان کی فنڈنگ نہ کرنے میں بھی اس کی جھلک نظر آرہی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ جون میں امریکہ میں بزنس کانفرنس ٗ دیامر بھاشا ڈیم کے لئے وسائل کے حوالے سے بھی کانفرنس کا انعقاد ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں مفاہمتی عمل میں پاکستان اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ 19 اپریل کو کابل پر ہونے والے حملے کے بعد افغان مذاکراتی عمل میں تعطل پیدا ہوا اور اتحادی فورسز کی جانب سے طاقت کا استعمال دوبارہ شروع کیا گیا جس کی پاکستان نے مخالفت کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ فوجی آپریشن سے 14 سال کوئی نتیجہ نہیں نکلا ہے۔

مذاکراتی عمل کو جاری رکھا جانا چاہیے۔ 18 اور 19 مئی کو چار ملکی مذاکرات ہونے جارہے ہیں۔ مشیر خارجہ نے کہا کہ ہماری خارجہ پالیسی کا بنیادی مقصد ملکی ترقی کو فروغ دینا اور خودمختاری کو یقینی بنانا ہے۔ پاکستان جغرافیائی اعتبار سے انتہائی اہم مقام رکھتا ہے۔ پاک چین تعلقات میں اہم پیشرفت ہوئی ہے۔ پاک ایران گیس پائپ لائن اور تاپی منصوبے پر کام جاری ہے۔ دہشتگردی کیخلاف جنگ میں ہم نے بڑی کامیابی حاصل کی ہے اور یہ کامیابی ہماری سلامتی کے لئے ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنے قومی مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے تعلقات قائم کر رہے ہیں اور خطے میں تعلقات بہتر ہو گئے ہیں ٗہمارا مستقبل ایشیا میں ہے ٗ اپنی قومی سلامتی اور قومی ترجیحات پر کبھی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔