سوئس بینکوں میں جمع رقوم کے حوالے سے حکومت نئی سوئس پالیسی سے معاونت حاصل کر نے کی کوشش کررہی ہے ٗوفاقی وزراء

تین سال کے دوران پٹرولیم مصنوعات پر 12 کھرب روپے سے زائد سیلز ٹیکس وصول کیا گیا ٗکسٹم سٹیشن میں سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا جارہا ہے اور اسے جلد فعال کردیا جائے گا ٗبنکوں کے ادا نہ کئے جانے والے قرضوں کی وصولی کے لئے نادہندگان کے خلاف فوجداری مقدمات دائر کئے جاسکتے ہیں ٗزاہد حامد ٗ احسن اقبال کے جوابات وزیراعظم کی قرضہ سکیم کے تحت اڑھائی سال میں 64 ہزار سے زائد درخواستیں موصول ہوئیں ٗوقفہ سوالات

جمعرات 12 مئی 2016 20:33

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔12 مئی۔2016ء) سینٹ کو بتایاگیا ہے کہ سوئس بینکوں میں جمع رقوم کے حوالے سے حکومت نئی سوئس پالیسی سے معاونت حاصل کر نے کی کوشش کررہی ہے ٗتین سال کے دوران پٹرولیم مصنوعات پر 12 کھرب روپے سے زائد سیلز ٹیکس وصول کیا گیا ٗکسٹم سٹیشن میں سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا جارہا ہے اور اسے جلد فعال کردیا جائے گا ٗبنکوں کے ادا نہ کئے جانے والے قرضوں کی وصولی کے لئے نادہندگان کے خلاف فوجداری مقدمات دائر کئے جاسکتے ہیں۔

جمعرات کو وقفہ سوالات کے دوران انہوں نے کہا کہ ٹیکس سے متعلق معلومات کا تبادلہ کرنے سے ٹیکس نہ دینے والے افراد کی معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں اور سوئس بنکوں اور دیگر ٹیکس بچانے والے ممالک میں چھپائی گئی غیر قانونی دولت کو پکڑا جاسکتا ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ 26 سے 28 اگست 2014ء میں اس معاملے کو سفارتی ذرائع سے سوئٹزرلینڈ کے ساتھ اٹھایا گیا تھا۔

پاکستان گلوبل فورم فار ٹرانسپیرنسی اینڈ ایکسچینج آف انفارمیشن و ملٹی لیٹرل کنونشن فار میوچل ایڈمنسٹریٹو اسسٹنس جیسے بین الاقوامی فورمز کی رکنیت حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ پاکستان ٹیکس فراڈ اور نادہندگی کے خلاف بین الاقوامی سطح پر اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔ مذکورہ نظام سے منسلک ہونے کے بعد پاکستان آنے والے سالوں میں اہم بنک اکاؤنٹس‘ منافع‘ سود‘ اثاثہ جات کی معلومات نہ صرف سوئٹزرلینڈ بلکہ ٹیکس چھپانے والے علاقوں سے بھی حاصل کرنے کے قابل ہو جائے گا۔

وزارت خزانہ کی طرف سے ایوان کو بتایا گیا کہ اس عرصے میں درآمدات پر 5 کھرب 62 ارب 81 کروڑ روپے اور ملک کے اندر 7 کھرب 55 ارب 18 کروڑ 20 لاکھ روپے کا سیلز ٹیکس وصول کیا گیا۔وزارت خزانہ کی طرف سے تحریری جواب میں بتایا گیا کہ 2012-13ء میں ادا شدہ ان پٹ ٹیکس کی مالیت ایک کروڑ 6 لاکھ روپے‘ 2013-14ء میں 89 لاکھ روپے اور 2014-15ء میں ایک کروڑ 12 لاکھ روپے تھی۔

وفاقی وزیر قانون و انصاف زاہد حامد نے ایوان کو بتایا کہ کولیکٹوریٹ آف کسٹمز نے متعلقہ محکموں کو ضروری سہولیات کی فراہمی کے حوالے سے آگاہ کردیا ہے۔ کسٹم سٹیشن میں سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا جارہا ہے اور اسے جلد فعال کردیا جائے گا۔ وزارت منصوبہ بندی و ترقی کی طرف سے ایوان کو بتایا گیا کہ مالی سال 2013-14ء سے وفاقی پی ایس ڈی پی میں اراکین پارلیمنٹ کی ترقیاتی سکیموں کے لئے کوئی رقم نہیں دی گئی۔

سینیٹر شاہی سید کے سوال کے تحریری جواب میں وزارت خزانہ کی طرف سے ایوان کو بتایا گیا کہ اس وقت نیشنل بنک میں کام کرنے والے ملازمین کی تعداد 15 ہزار 93 ہے۔ سینیٹر شاہی سید کے سوال کے تحریری جواب میں وزارت خزانہ کی طرف سے ایوان کو بتایا گیا کہ ان سروسز پر صوبائی سیلز ٹیکس موجود ہے جو صوبے وصول کرتے ہیں‘ سیلز ٹیکس کے طریقے پر ادا کی جانے والی مالیت کے مطابق 18.5 فیصد وفاقی ایکسائز ڈیوٹی ٹیلی کام سروسز پر لاگو ہے۔

انکم ٹیکس آرڈیننس کے تحت ودہولڈنگ ٹیکس ہفتے کی بنیاد پر خزانہ میں جمع کرایا جاتا ہے۔ ہر ماہ کے آخر میں ودہولڈنگ ٹیکس کا گوشوارہ جمع کرایا جاتا ہے۔وفاقی وزیر قانون و انصاف زاہد حامد نے ایوان کو بتایا کہ بنکوں کے ادا نہ کئے جانے والے قرضوں کی وصولی کے لئے مختلف اقدامات کئے گئے ہیں۔ قومی احتساب آرڈیننس 1999ء کے تحت بنک قرضوں کی وصولی کے لئے نادہندگان کے خلاف فوجداری مقدمات دائر کر سکتے ہیں۔

قرضوں کی وصولی کے لئے ایک بل بھی تیار کیا گیا ہے جو قومی اسمبلی سے منظور ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قرضوں کی وصولی کے حوالے سے متعلقہ فریقین کے خدشات کا ازالہ کیا جائے گا۔ وفاقی وزیر قانون و انصاف زاہد حامد نے بتایا کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا سروے 2012ء میں ہوا جس کے تحت دو کروڑ 73 لاکھ 50 ہزار افراد کا انتخاب ہوا سکور کارڈ کی بنیاد پر 52 لاکھ افراد اس پروگرام کے تحت مالی امداد حاصل کر رہے ہیں۔

نیا سروے اس وقت ہو رہا ہے۔ پہلا مرحلہ جون سے دسمبر تک ہوگا۔ دوسرا سروے مارچ 2018ء میں مکمل ہوگا۔ جو مستحق لوگ ہیں انہیں امداد ملتی رہے گی۔ غیر مستحق افراد کو فہرست سے نکال دیا جائے گا۔ پہلے مرحلے میں 16 اضلاع میں سروے کیا جائے گا۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام جاری رہے گا۔ موجودہ حکومت نے اس کے لئے رقم میں 102 ارب روپے کا اضافہ کیا ہے اور اس وقت 1566 روپے ماہانہ غریب اور مستحق افراد کو مالی امداد دی جارہی ہے۔

وفاقی وزیر قانون و انصاف زاہد حامد نے بتایا کہ مینوئل ذرائع سے گوشوارے جمع کرانے والے صرف ان ٹیکس دہندگان کا نام اے ٹی ایل میں شامل نہیں کیا جاتا جن کے گوشوارے قانون کے مطابق درست نہیں ہوتے۔ ٹیکس سال 2015ء میں مینوئل ذرائع سے 3 لاکھ 11 ہزار 495 افراد نے اپنے گوشوارے جمع کرائے ہیں۔وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال نے بتایا کہ وزارت منصوبہ بندی و ترقی نے 2013-14ء میں ینگ ڈویلپمنٹ فیلو شپ پروگرام کے عنوان سے منصوبے کا آغاز کیا ہے‘ اس پروگرام کا مقصد نمایاں تعلیمی کارکردگی اور قیادت کرنے کی خصوصیات کے حامل نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو تربیت فراہم کرنا ہے جو 21ویں صدی میں پاکستان کی قیادت کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ فیلو شپ کے لئے انتخاب کرنے والے تمام صوبوں کو مواقع دیئے جاتے ہیں۔ کوشش کی جاتی ہے کہ اس عارضی فیلو شپ میں تمام علاقوں کے بچوں کو آگے لایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ نوجوان نسل میں بہت جذبہ ہے‘ آنے والے سالوں میں اس کا دائرہ کار بڑھایا جائے گا۔ وفاقی وزیر قانون و انصاف زاہد حامد نے بتایا کہ موبائل فون سے ایزی پیسہ کے ذریعے رقوم کی منتقلی کے حوالے سے بنکاری سرگرمیوں کے لئے بنک لائسنس کی ضرورت نہیں ہے تاہم برانچ لیس بنکاری کے لئے سٹیٹ بنک سے پیشگی منظوری کی ضرورت ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت 9 بنک ایزی پیسہ کے تحت پاکستان میں اپنی خدمات فراہم کر رہے ہیں۔ ان میں تعمیر مائیکرو فنانس بنک بھی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اپریل 2015ء سے مارچ 2016ء تک ایک سال میں 35 کروڑ 61 لاکھ 40 ہزار روپے کی ترسیلات ہوئیں۔ انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم کی قرضہ سکیم کے تحت اڑھائی سال میں 64 ہزار 114 درخواستیں موصول ہوئیں جن میں سے 16 ہزار 420 منظور کی گئیں۔

مارک اپ کی شرح چھ فیصد ہے اور قرضے کی رقم آٹھ سال میں واپس کرنا ہوتی ہے اب تک آٹھ ارب روپے فراہم کئے جاچکے ہیں۔ صرف چھ ہزار درخواستیں مسترد کی گئیں۔ 42 ہزار درخواستیں زیر التواء ہیں۔ وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے بتایا کہ تمام بین الاقوامی بنک اور مقامی بنک سروس چارجز کے حوالے سے اپنے صارفین سے معاوضے کا تعین کرنے میں آزاد ہیں۔ سٹیٹ بنک نے سروس چارجز کی مناسب شرح سے وصولی کے لئے ہدایات جاری کر رکھی ہیں۔

تجارتی بنک اپنے صارفین کو فراہم کی گئی خدمات کے لحاظ سے سروس چارجز وصول کرتے ہیں۔سینٹ کوبتایاگیا کہ سماجی تحفظ کے پروگرام کو 50 لاکھ لوگوں تک بڑھایا گیا ہے جو آبادی کا 16 فیصد ہیں۔ اس کے علاوہ بالواسطہ ٹیکسوں کی شرح کم کی گئی ہے اور انکم ٹیکس کی بنیاد وسیع کی گئی ہے۔ معیاری خدمات تک رسائی کو وسیع کردیا گیا ہے۔ وزیراعظم ہیلتھ انشورنس سکیم سے صحت کے شعبے کی خدمات میں اضافہ کیا جائے گا۔