جماعت اسلامی کے امیر کو پھانسی کے بعد بنگلہ دیش میں مظاہرے،جھڑپوں میں 47زخمی

جمعرات 12 مئی 2016 12:40

ڈھاکہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔12 مئی۔2016ء) بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے امیر مطیع الرحمن کی پھانسی کے خلاف مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ دوسرے روزبھی جاری رہا جبکہ مظاہرین اورپولیس کے درمیان جھڑپوں میں 47افرادزخمی ہوگئے،میڈیارپورٹس کے مطابق جماعت اسلامی نے اپنے لیڈر کی پھانسی پر ملک گیر احتجاج اور ہڑتال کا اعلان کیا ہے،گزشتہ روز بھی بنگلہ دیش کے مختلف شہروں میں مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا اور کئی مقامات پر احتجاجی مظاہرین کی پولیس کے ساتھ مڈ بھیڑ بھی ہوئی پولیس نے آسوگیس کے شیل پھینکے جس کے نتیجے میں درجنوں افرادزخمی ہوگئے۔

اس پھانسی کے ردعمل میں ممکنہ مظاہروں کے تناظر میں ڈھاکا حکومت نے دارالحکومت سمیت تمام بڑے شہروں میں سکیورٹی کو انتہائی چوکس کر رکھا ہے۔

(جاری ہے)

خاص طور پر دارالحکومت میں ہزاروں پولیس اہلکار تعینات ہیں اور موبائل گشت بھی جاری ہے۔پھانسی کے عدالتی حکم پر عمل درآمد سے قبل جماعت اسلامی کے کئی لیڈروں کو بھی سکیورٹی کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے گرفتار کر لیا گیا تھا۔

مطیع الرحمان نظامی کے آبائی علاقے پبنا میں اس مذہبی سیاسی پارٹی کے کم از کم سولہ اہم کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔پولیس کے مطابق شمال مغربی شہر راجشاہی میں مشتعل مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پولیس کو ربڑ کی گولیاں چلانا پڑیں۔ پولیس کے مطابق راجشاہی میں جماعت اسلامی کے قریب پانچ سو کارکن جذباتی ہو کر پولیس پر حملہ آور ہوئے اور انہوں نے پتھراوٴ بھی شروع کر دیا۔

خیال رہے کہ گزشتہ ماہ اسی شہر میں ایک لبرل پروفیسر کو مذہبی انتہا پسندوں کے ایک حملے میں قتل کر دیا گیا تھا۔اسی طرح ایک اور شہر چٹاگانگ میں جماعت اسلامی کے قریب ڈھائی ہزار کارکنوں نے جمع ہو کر اپنے لیڈر کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی اور پھر احتجاجی مظاہرہ شروع کر دیا۔ اس مظاہرے کے دوران جماعت اسلامی کے کارکنوں اور وزیراعظم شیخ حسینہ کی سیاسی جماعت کے ورکروں کے درمیان مخالفانہ نعرے بازی کے علاوہ ہاتھا پائی بھی ہوئی۔ جہاں جہاں مظاہرے کیے گئے وہاں پر جماعت اسلامی کے ورکر شیخ حسینہ کی حکومت کے خلاف نعرے بازی کے علاوہ اپنے لیڈر کی پھانسی کو غیر قانونی اور ناجائز قرار دے رہے تھے۔

متعلقہ عنوان :