پاک افغانستان طورخم بارڈر پر باڑ لگانے کا تنازع جاری

جمعرات 12 مئی 2016 12:08

لنڈی کوتل(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔12 مئی۔2016ء) پاکستان اور افغانستان کے درمیان طورخم بارڈر کراسنگ پر باڑ لگانے کا تنازع جاری ہے جس کے باعث کراسنگ دوسرے روز بھی بند رہی، جبکہ دونوں ممالک نے اپنے اپنے سرحدی علاقوں میں اضافی فوج اور بکتر بند گاڑیاں تعینات کردی ہیں۔تنازع کے باعث سرحد پار معمول کی نقل و حرکت معطل رہی، تاہم چند میتوں اور ان کے ساتھ سوگواران کو پاکستان سے افغانستان جانے کی اجازت دی گئی۔

نقل و حرکت معطل ہونے کے باعث ہزاروں پاکستانی اور افغانی شہری سرحدی علاقوں میں پھنسے رہے، اور سرحد کھلنے کی امید ختم ہونے کے بعد اپنے آبائی علاقوں کو لوٹ گئے۔سرحدی بندش کے باعث مارکیٹیں، ریسٹورینٹس اور کسٹم کلیئرنگ ایجنٹس کے دفاتر بند ہیں، کسٹم اور مقامی انتظامیہ کے دفاتر میں بہت کم حاضری دیکھی جارہی ہے، جبکہ سرحدی گزرگاہ کے ساتھ واقع ٹیکسی اسٹینڈ بھی ویران پڑا ہے۔

(جاری ہے)

سرحد پر باخبر ذرائع نے بتایا کہ سرحد دوبارہ کھولے جانے کے حوالے سے دونوں ممالک کے حکام کے درمیان اب تک کوئی رابطہ نہیں ہوا۔دوسری جانب پاکستانی حکام نے اس بات پر زور دیا ہے کہ جب تک افغان حکومت، پاکستانی علاقے میں خاردار تاڑ لگانے کے حوالے سے اپنے اعتراضات واپس نہیں لیتی، اور افغان شہریوں کی سرحد پار غیر قانونی نقل و حرکت روکنے کے لیے پاکستان کی مدد کی یقین دہانی نہیں کراتی، تب تک سرحد بند رہے گی۔

پاکستانی سرحدی انتظامیہ کے ایک عہدیدار نے، خاردار تاڑ لگانے پر اعتراض اٹھانے والے افغان بارڈرگارڈز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہم اپنے علاقے میں خاردار تاڑ لگانے میں مکمل طور پر آزاد ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ سرحد پر باڑ لگانے کا مقصد غیر قانونی اور خفیہ سرحدی گزرگاہوں کو بند کرنا ہے۔انہوں نے دونوں ممالک کے بارڈر گارڈز کے درمیان کسی جھڑپ کے امکانات کے تاثر کو زائل کرتے ہوئے کہا کہ اضافی فوج اس لیے تعینات کی گئی ہے تاکہ سرحد کھلنے کے بعد مسافروں کے اچانک بڑھنے والے رَش کو کنٹرول کیا جاسکے۔

تاہم اب یہ افغان حکومت کا فرض ہے کہ وہ سرحد پر باڑ لگانے کے حوالے سے اپنے اعتراضات اٹھائے اور دونوں ممالک کے درمیان متفقہ بارڈر منیجمنٹ پالیسی کے نفاذ کو یقینی بنائے۔سرحد پر خاردار تاڑ لگانے کے حوالے سے یہ صورتحال چند ہفتے قبل بھی پیش آئی تھی۔

متعلقہ عنوان :