پامانالیکس کی دوسری قسط: شریف خاندان کی مزیدکمپنیوں کے نام سامنے آگئے

مونس الہی‘شرمین عبید چنائے کی والدہ‘میرشکیل الرحمان‘علیم خان‘زلفی بخاری سمیت259 پاکستانیوں کے نام شامل ہیں‘کس کے مطابق کراچی کے 150 سے زیادہ شہریوں نے کمپنیاں بنائیں جبکہ لاہور کے 100 سے زیادہ شہری آف شور کمپنیوں کے مالک ہیں:پاناما لیکس کی دوسری قسط میں انکشافات

Mian Nadeem میاں محمد ندیم منگل 10 مئی 2016 12:33

پامانالیکس کی دوسری قسط: شریف خاندان کی مزیدکمپنیوں کے نام سامنے آگئے

واشنگٹن(اردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔10مئی۔2016ء) صحافیوں کے گروپ انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹ (آئی سی آئی جے) نے پاناما پیپرز سے متعلق مزید دستاویزات جاری کردی ہیں جن کے مطابق 259 پاکستانی آف شور کمپنیوں کے مالک ہیں۔تازہ ترین دستاویزات میں جن پاکستانیوں کے نام سامنے آئے ہیں ان میں پورٹ قاسم اتھارٹی کے سابق جنرل مینیجر عبدالستار ڈیرو‘کراچی چیمبر آف کامرس کے سابق صدر شوکت احمد ‘فلم ساز شرمین عبید چنائے کی والدہ صباءعبید‘بینکر اور اسٹاک بروکر کے بیٹے علی صدیقی‘مرحوم عنایت اسماعیل کی بیٹی مایا اسماعیل‘عرفان پوری، سلمان احمد‘گل محمد ٹبہ‘حسین داو¿د اور ان کے بیٹے عبد الصمد داو¿د اور شہزادہ داود‘جنگ گروپ کے میر شکیل الرحمٰن‘سابق وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہیٰ کے بیٹے مونس الہیٰ‘پاکستانی ریڈی میڈ گارمنٹس کمپنی سورتی انٹرپرائز کے شاہد رشید سورتی، نرگس رشید سورتی زاہد رشید سورتی‘اس کے علاوہ بھی دستاویزات میں متعدد نام شامل ہیں جنہیں offshoreleaks.icij.org ویب سائٹ پر دیکھا جاسکتا ہے۔

(جاری ہے)

لیکس کے مطابق کراچی کے 150 سے زیادہ شہریوں نے کمپنیاں بنائیں جبکہ لاہور کے 100 سے زیادہ شہری آف شور کمپنیوں کے مالک ہیں،اسلام آباد، پشاور اورگجرات کے شہری بھی آف شور کمپنیوں کے مالکان ہیں۔آف شور کمپنیوں کی مالک مشہور سیاسی شخصیات میں وزیراعظم میاں نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز،حسن نواز،صاحبزادی مریم نواز شریف، سابق وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو شامل ہیں۔

آف شور کمپنیوں کے مالکان میں پیپلز پارٹی کے سینیٹر رحمان ملک،آصف زرداری کے دوست عبدالستار ڈیرو،پاکستان تحریک انصاف کے رہنما علیم خان، سابق جج اور اٹارنی جنرل ملک قیوم، سابق وزیر انور سیف اللہ خان، پیپلز پارٹی کے راہنما سینیٹر عثمان سیف اللہ، رہنما پاکستان پیپلز پارٹی جاوید پاشا بھی شامل ہیں۔1988ءسے 2015 ءتک 250 سے زائد آف شور کمپنیاں رجسٹرڈ ہوئیں، 2007 ء میں 27 کمپنیاں رجسٹرڈ ہوئیں،برٹش ورجن آئی لینڈ میں پاکستانیوں کی 153 کمپنیاں ہیں۔

پاناما میں پاکستانیوں نے 41کمپنیاں رجسٹرڈ کیں، 1988 ءسے2015 ء تک مئی کے مہینوں میں31کمپنیاں رجسٹرڈ ہوئیں، سب سے پرانی کمپنی1988 ء میں میاں ضیاءالدین طور کے نام رجسٹر ہوئی، جبکہ اب تک آخری کمپنی 2015 ء میں ماجد صدیقی داﺅد کے نام رجسٹر ہوئی۔ان کمپنیوں کو کسی بھی دوسرے ملک میں آف شور بینک اکاونٹس اور دیگر مالیاتی لین دین کے نگران اداروں سے یا ٹیکس سے بچنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

کمپنیاں یا شخصیات اس کے لیے عموماً شیل کمپنیوں کا استعمال کرتی ہیں جس کا مقصد اصل مالکان کے ناموں اور اس میں استعمال فنڈز کو چھپانا ہوتا ہے۔ان افراد میں تاجر، سرکاری افسران اور اہم سیاسی شخصیات شامل ہیں جبکہ ان آف شور کمپنیوں کی مالیت اربوں ڈالر میں ہے۔ شرمین عبید چنائے نے تبصرہ کرتے ہوئے آئی سی آئی جے کے اقدامات کی تعریف کرتے ہوئے وضاحت پیش کی کہ ان کا پاناما لیکس میں نام موجود نہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان کی والدہ کا نام آیا ہے تاہم انہوں نے کمپنیوں کے حوالے سے تمام قانونی تقاضے پورے کیے ہیں۔آئی سی آئی جے کا کہنا ہے کہ وہ مشہور زمانہ وکی لیکس کی طرح دستاویزات کی بھرمار نہیں کرے گا، بلکہ دنیا بھر میں امیر افراد کی جانب سے قائم کی گئیں 2 لاکھ آف شور کمپنیوں کے نام اور ان کے حوالے سے دیگر معلومات سے متعلق انکشافات کرے گا۔

پاناما میں آف شور کمپنیوں سے متعلق معاملات کے لیے مشہور لاءفرم موزیک فانسیکا کی جانب سے چند ہفتوں قبل، تقریباً چار دہائیوں کے ڈیٹا پر مشتمل انتہائی خفیہ دستاویزات کے بعد کئی ممالک کی سیاست میں تہلکہ مچ گیا تھا۔شیل کمپنیوں اور دیگر اداروں کا فنڈز کے ذرائع اور ملکیت چھپانے کے لیے جرائم پیشہ عناصر اور دہشت گردوں کے ہاتھوں غلط استعمال ہوسکتا ہے، پاناما لیکس کی رپورٹ میں ایسے 12 لاکھ 14 ہزار سے زائد اداروں کی معلومات شامل ہیں، جن کا 200 ممالک میں 14 ہزار سے زائد کلائنٹس سے تعلق ہے۔

آف شور کمپنیوں کے مالکان کی فہرست میں آصف زرداری اور الطاف حسین کے دوست عرفان اقبال پوری،حسن علی جعفری،ہوٹل چین کے مالک صدر الدین ہاشوانی، ، سابق وزیر صحت نصیر خان کے صاحبزادے جبران خان، جسٹس فرخ عرفان، مہرین اکبر، شوکت احمد، سیٹھ عابد کے صاحب زادے ساجد محمود، فراز ولیانی‘ زلفی بخاری ، عرفان اقبال ، محمد جبران ، ظفر اللہ خان کے نام بھی شامل ہیں۔

زاہد رفیق ، حسین داود ، جہانگیر ایس خان ، ذوالفقار پراچہ ، پیر علی گوہر ، محمد ظفراللہ خان ۔ آفتاب لاکھانی ، جاوید لاکھانی ، شہزادہ داود ، امین لاکھانی ، ماہا عبیدی ‘ سابق ایڈمرل کے بیٹے اظفر حسین کے نام بھی شامل ہیں۔پاناما پیپرز کے منظر عام پر آنے کے بعد سے اب تک جن بڑی بڑی شخصیات کے مالی معاملات پر لے دے ہو رہی ہے ان میں برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرن، روس کے صدر ولادیمر پوتن، یوکرین کے پیٹرو پورشنکو اور فٹبال کے مشہور کھلاڑیوں کے علاوہ فلم کی دنیا کی کچھ مشہور شخصیات کے نام شامل ہیں۔

موسیک فونسیکا کا کہنا ہے کہ آج تک کسی نے ان پر کسی گھپلے یا مجرمانہ فعل کا الزام نہیں لگایا ہے اور کمپنی کے کھاتوں کے تفصیلات چرائی گئی ہیں۔آف شور کمپنیاں غیر قانونی نہیں ہوتیں لیکن ان کا مقصد اکثر سرمایہ کے حصول کے ذرائع اور اس کے مالکان کو خفیہ رکھنا اور ٹیکسوں سے بچنا ہوتا ہے۔جان ڈو نامی شخص کی طرف سے ایک جرمن اخبار کو ایک سال قبل ایک کروڑ پندرہ لاکھ دستاویزات یا 2.6 ٹیرابائٹس پر مشتمل معلومات کا ذخیرہ فراہم کیا گیا تھا۔

اس اخبار نے آئی سی آئی جے کو معلومات کے اس ذخیرے تک رسائی دی۔ آئی سی آئی جے میں شامل بی بی سی سمیت دنیا بھر کے اخبار نویسوں نے معلومات کے اس ذخیرے کا مطالعہ کر کے اس میں عوامی اہمیت کی معلومات نکالیں اور پھر گذشتہ ماہ ان کو اشاعت کے لیے جاری کیا گیا۔آئی سی آئی جے کا کہنا ہے کہ اس ڈیٹا یا معلومات میں بینک کے کھاتوں، مالی لین دین، ای میلز اور دیگر خط و کتابت، پاسپورٹ اور ٹیلی فون نمبروں کی تفصیلات شامل نہیں ہوں گی۔

منتخب شدہ اور محدود معلومات، جو مفادِ عامہ میں ہیں، صرف وہ ہی جاری کی جا رہیں ہیں۔یاد رہے کہ دنیا کے تین سو ماہرین معاشیات نے پیر کو دنیا بھر کے سیاسی قائدین کو لکھے گئے ایک مکتوب پر دستخط کیے ہیں جن میں ان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ ٹیکس چوری کے لیے بنائی ’ہیونز‘ کو ختم کیا جائے۔ انھوں نے کہا ہے کہ ان ٹیکس ہیونز سے صرف انتہائی امیر افراد اور کثیر الملکی کمپنیوں کو فائدہ ہوا ہے اور ان سے معاشی ناہمواری میں اضافہ ہوا ہے۔

اس خط میں مزید کہا گیا ہے کہ ٹیکس ہیونز سے دنیا کی مجموعی دولت اور خوشحالی میں کوئی اضافہ نہیں ہوا اور ان سے کوئی معاشی مقصد حاصل نہیں ہوا۔گذشتہ ہفتے جان ڈو نے ایک1800 الفاظ پر مشتمل بیان جاری کیا تھا جس میں انھوں نے دنیا میں بڑھتی ہوئی معاشی عدم مساوت کو ان دستاویزات کو عام کرنے کی وجہ قرار دیا تھا۔انھوں نے کہا تھا کہ بینک اور مالیاتی نگراں ادارے اور ٹیکس حکام اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے میں بری طرح ناکام ہوئے ہیں۔

انھوں نے کہا اس طرح کے فیصلے کیے جاتے رہے ہیں جس میں امیر تو صاف بچ جاتے ہیں لیکن متوسط اور کم آمدن کے لوگوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔انھوں نے انکشاف کیا کہ انھوں نے کبھی بھی کسی خفیہ ادارے یا حکومت کے لیے کام نہیں کیا۔ انھوں نے عدالتوں اور سرکاری وکلا کو مکمل مدد کرنے کی اس شرط پر پیش کش کی ہے کہ انھیں معافی دلوائی جائے گی۔ان ساری دستاویزات کا افشا کرنے والے کی شناخت جان ڈو کے نام سے کی جا رہی ہے لیکن ابھی تک یہ نہیں بتایا گیا کہ وہ مرد ہیں یا عورت۔