سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات و قومی ورثہ کے اجلاس

پی ٹی وی میں انٹر اور بی اے پاس افراد کو بھاری تنخواہوں پرکنڑیکٹ پربھرتی کئے جانے کا انکشاف قائمہ کمیٹی نے پی آئی ڈی میں پچھلے تین سالوں کے دوران کی جانے والی پریس کانفرنسس اور ان پر آنے والے اخراجات کی تفصیل طلب کرلی

پیر 9 مئی 2016 22:21

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔09 مئی۔2016ء) سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات و قومی ورثہ کے اجلاس میں انکشاف کیا گیا کہ پی ٹی وی میں انٹر اور بی اے پاس افراد کو ناصرف بھاری تنخواہوں پرکنڑیکٹ پربھرتی کیا گیا ہے بلکہ مختصر عرصہ میں تنخواہوں میں غیر معمولی اضافہ بھی کیا گیا قائمہ کمیٹی نے پی آئی ڈی میں پچھلے تین سالوں کے دوران کی جانے والی پریس کانفرنسس اور ان پر آنے والے اخراجات کی تفصیل طلب کرلی اور پاناما لیگس پر حکومت کی طرف سے دیئے گئے اشتہارات کے حوالے اختیار طریقہ کار کی رپورٹ طلب کر لی اور قائمہ کمیٹی نے لوک ورثہ ملازمین کی پینشن اور کچھ ملازمین کوملازمت سے نکالنے کا سخت نوٹس لیتے ہوئے سیکرٹری اطلاعات و نشریات کو معاملات حل کرانے کی ہدایت کردی ۔

(جاری ہے)

اراکین کمیٹی نے ایک نجی انگلش اخبار میں سینٹ قائمہ کمیٹی اطلاعات ونشریات اور سینیٹر روبینہ خالد پر لگائے جانے والے الزامات پر تشویش و افسوس کا اظہارکیا ۔ قائمہ کمیٹی کا ااجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر کامل علی آغا کی زیر صدار ت پی ٹی وی ہیڈ کوارٹر اسلام آباد میں منعقد ہوا۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سابقہ اجلاسوں میں دی گئی سفارشات پر عمل درآمد ، پانامالیکس کے حوالے سے حکومت کی طرف سے پیش کی گئی وضاحتیں ، پی آئی ڈی کا سیاسی استعمال ، پانامالیکس کے حوالے سے اشتہاریات کے اخراجات اور پچھلے تین سالوں کے دوران حکومتی اداروں کی طرف سے اشتہاریات کی مد میں آنے والے اخراجات لوک ورثہ کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔

سیکرٹری اطلاعات ونشریات عمران گردیزی نے بتایا کہ پی ٹی وی کے بورڈ آف ڈائریکٹر ز نے 184 ویں اجلاس میں پروفیشلز اور اینکر پرسن کو ہائر کرنے کی منظوری دی تھی اور ضرورت کے مطابق ملازمین ہائر کیے جاتے ہیں باقی ریگولر تقرریاں قانون کے مطابق عمل میں لائی جاتی ہیں۔ اور پچھلے دو سالوں کے دوران کوئی ریگولر تقرریاں نہیں کی گئیں انہوں نے کہا کہ 890 ملازمین کو مستقل کرنا ہے جن کا وقت پورا ہونے پر کیا جائے گا سب کو کٹھا نہیں کرسکتے جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا جو لسٹ فراہم کی گئی ہے اس میں نہ تو صوبائی کوٹہ کو مد نظر رکھا گیا ہے اور نہ ہی کہیں میرٹ پر تقرری کی گئی ہے انٹر اور بی اے پاس لوگوں کو بھاری تنخواہوں پر رکھاگیا ہے اور مختصر عرصے میں تنخواہوں میں اضافہ کیا گیا ہے من پسند افراد کو نواز کر ملک و ادارے کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچایا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ بات بھی نوٹس میں لائی گئی ہے کہ کئی ملازمین کو کئی مہینوں سے تنخواہیں نہیں دی گئی ہیں۔ادارے نے کنٹریکٹ پر بھرتی کیے گئے 60ملازمین کی جو وضاحت پیش کی وہ قابل قبول نہیں ہے ۔قانونی تقآضے بھی پورے نہیں کیے گئے ہیں سابق ایم ڈی نے چند ماہوں میں تنخواہوں میں لاکھوں روپے کا اضافہ کیوں کیا ہے اگر نوازنا ہی ہے تو پوری قوم کو موقع دیا جائے۔

سینیٹر سسئی پلیجو نے اسے صوبوں کے ساتھ غیر امتیازی سلوک قرار دیا ۔سینیٹر اشوک کمار نے کہا کہ پی ٹی وی کوئٹہ نے مجھے ملازمین کی تعداد 380بتائی تھی اور یہاں 850بتائی گئی ہیں بعض ملازمین فرضی ہیں ڈپٹی چیئرمین سینٹ مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ اصل حقائق سامنے لائے جائیں اور ملوث لوگوں کے خلاف ایکشن لیا جائے۔قائمہ کمٹی نے فیصلہ کیا کہ آئند ہ اجلاس میں پچھلے تین سالوں کے دوران کی گئی تقرریوں کی تمام تفصیلات جن میں سی وی ڈیٹ آف برتھ ، ولدیت شامل ہوگا ۔

سیکرٹری عمران گردیزی نے کہا کہ لسٹ کی چھانٹی کرکے 15 دن کے اندر رپورٹ پیش کی جائے ۔ وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے کہا کہ یہ احتساب کا عمل ہے مشرف ، پی پی پی پی اور ن لیگ کے دوران بھی بھرتی کی گئی ان کا بھی جائزہ لیا جائے۔ ڈی جی پی آئی ڈی راؤ تحسین علی خان نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ آئی سی آئی جے نے غلطی سے وزیر اعظم نواز شریف کا نام پانامالیکس میں دیا میڈیا نے شور مچاتے ہوئے وزیر اعظم کی شخصیت کی منفی کوریج کی جس کی وضاحت وزارت نے ضروری سمجھی اور وزارت ہی نے فیصلہ کیا کہ اشتہار دیا جائے اور صورتحال واضع کی جائے۔

اور پی آئی ڈی کی پالیسی کے مطابق اشتہار دیا گیا ۔ جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ یہ کام یکا یک نہیں ہوسکتا اس کا ایک طریقہ کار ہوتا ہے کہاں سے فیصلہ ہوا اور کہا ں سمری چلی اور کیا طریقہ اختیا ر کیا یہ سرکاری پیسہ ہے جو عوام کے ٹیکسوں سے اکٹھا ہوتا ہے ایک طرف بتایا جاتا ہے کہ وزیراعظم کا نام نہیں ہے اور دوسری طرف اشتہار دیے جارہے ہیں آئیندہ اجلا س میں اس حوالے سے تمام ریکارڈ پیش کیا جائے۔

راؤ تحسین علی خان نے کہا کہ پی آئی ڈی کا کام حکومت کی پالیسیوں کو عوام تک پہنچانا ہیں۔پی آئی ڈی میں اعلیٰ افسران سے میٹنگ کی گئی تھی کہ حکومت کی پالیسوں کا دفاع کیا جائے۔چیئرمیں کمیٹی نے کہا کہ پی آئی ڈی کو سیاسی مقاصد کے لیے نہیں استعمال کیا جاسکتا ۔ انہوں نے پچھلے تین ماہ کے دوران پی آئی ڈی میں کی گئی میٹنگس اور اخراجات کی تفصیل طلب کر لی ۔

وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے کہا کہ سابقہ حکومتوں میں پی آئی ڈی میں کی گئی میٹنگس کے اخراجات کو بھی سامنے لایا جائے حکومت سیکریٹ فنڈز کو ختم کرچکی ہیں جس پر سینیٹر سسئی پلیجو نے کہا کہ ہر اچھے کام کا کریڈٹ حکومت اپنے سر نہ لے یہ سپریم کورٹ نے ختم کرایا تھا۔ سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ وہ رولز بتائیں جن کے تحت یہ اختیار دیا گیا ہے اور سیاسی جماعتوں کو پی آئی ڈی میں پریس کانفرنس کی اجازت دی جائے ۔

قائمی کمیٹی کو بتایا گیا کہ پاناما لیکس کے حوالے سے حکومت کی طرف وضاحت کے اشتہارات کے لیے 11.6ملین روپے خرچ ہوئے۔اور حکومتی اداروں کی طرف سے پچھلے تین سالوں کے دوران 5.6 ارب کے اشتہاریات پرنٹ میڈیا جبکہ 2 ارب کے اشتہاریات الیکٹرانک میڈیا سے نشر کیا گیا قائمہ کمیٹی کو بتا گیا کہ لوک ورثہ کے قیام 1994 میں عمل لایا گیا تاکہ قومی ورثے کو مقبول اور محفوظ بتایا جاسکے اور ملک کے روایات اور کلچر ل کو ایک جگہ اکٹھا کیا جاسکے لوک ورثہ کے انتظامات ایک بورڈ کے ذریعے عمل میں لائے جاتے ہیں۔

جس کے دس ممبران ہیں اور بورڈ کی سال میں دو دفع میٹنگ ہوتی ہے قائمی کمیٹی نے لوک ورثہ کے رولز کی کاپی آئندہ اجلاس میں طلب کرلی ۔ سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ لوک ورثہ کے ملازمین کو پینشن اور ملازمت سے ہٹایا گیا تو قائمہ کمیٹی اور اراکین کمیٹی پر ایک نجی اخبار نے الزا م تراشی کی گئی ہے کہ ہم عوامی نمائندے ہیں اور عوام کے مسائل حل کرناہماری ذمہ داری ہے ۔

ادارے میں من پسند افراد کو بھاری تنخواہ پر بھرتی کیا گیا ہے عام ملازمین کو تنخواہ تک نہیں ملتی ڈاکٹر اشوک کمار نے کہا کہ ادارے کی آمدنی اور اخراجات کا آڈٹ کرایا جائے ادارے میں بہت زیادہ گھپلے کیے گئے ہیں جس پرایگزیکٹو ڈائریکٹر لوک ورثہ نے کہا کہ ادارے میں آخری ریگولر بھرتی 17 سال پہلے کی گئی تھی جب میں ایک سال پہلے چارج لیا تو بے شمار مسائل تھے چھوٹا سا پنشن فنڈ ہے 43 پینشنرز نے 35 فیصد ایڈوانس پینشن لے لی اور کچھ افسران کی آخری چھ ماہ میں غیر ضروری پروموشن کی گئی جس کی وجہ یہ فنڈ صفر ہو گیا ۔

جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ پینشن جاری تھی تو کس قانون کے تحت اس کو روکا گیا اور کچھ ملازمین کی تصویریں لگا کر انہیں ادارے میں آنے سے روکا دیا گیا سیکرٹری اس معاملے کی تحقیقات کریں حکومت کا کام عوام کی فلاح کرنا اور اچھی رویت قائم رکھنا ہے ڈاکٹر اشوک کمار کہا کہ ایک ذیلی کمیٹی تشکیل دی جائے جو ان معاملات کا جائزہ لے تو چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ پہلے وزارت اعتراضات کے جواب فراہم کردے تو پھر ذیلی کمیٹی بنا کر باقی معاملات کا جائزہ لیا جائے گا۔

چیئرمین کمیٹی نے لوک ورثہ کے معاملات کے پر مکمل انکوائری رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت بھی کر دی اور قائمہ کمیٹی اور سینیٹر روبینہ خالد کے خلاف آرٹیکل کے حوالے سے استحقاق کمیٹی میں معاملات لے جانے کا فیصلہ بھی کیا ۔سینیٹر روبینہ خالد نے کہا کہ میرے والد اور میرے خاوند کے خلاف جو الزاما ت لگائے ہیں وہ کسی صورت برداشت نہیں کیے جائیں گے میں نے وکیل سے بات کر لی ہے ۔

قائمہ کمیٹی کے آج کے اجلاس میں ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مولانا عبدالغفور حیدری سینیٹرز اشکوک کمار ، مشاہد اﷲ خان، نہال ہاشمی ، غوث محمد خان نیازی ، مس سسی پلیجو، سعید غنی ، یعقوب ناصر، مسز روبینہ خان اور وفاقی وزیر برائے اطلاعات ونشریات پرویز رشید کے علاوہ ، سیکرٹری اطلاعات نشریات ، ڈائریکٹر جنرل پی آئی ڈی ، چیئرمین پیمرا کے علاوہ دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی ۔

متعلقہ عنوان :