اسمگلنگ ناسور ہے ، اس کی روک تھام نہ کی گئی تو معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے، افغانستان اور ایران سے ہونے والی سمگلنگ میں بیورو کریسی ملوث ہے، جب تک استحصالی نظام کا خاتمہ نہیں ہو گا لوگ ناجائز ذرائع سے دولت کمانے کا سلسلہ جاری رکھیں گے، بڑے بڑے کاروباری مراکز میں غیر ملکی اشیاء ملنا ایف بی آر کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے، دہشتگردی میں سمگلنگ کی وجہ سے بڑھتی ہے

سینیٹ اجلاس میں سینیٹر عبدالقیوم ، الیاس بلور، محمد علی سیف، طاہر مشہدی، عثمان کاکڑ اور ایم حمزہ کا چوہدری تنویر کی سمگلنگ کی روک تھام بارے پیش کی گئی تحریک پر بحث میں اظہار خیال

پیر 9 مئی 2016 20:02

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔09 مئی۔2016ء) ایوان بالا (سینیٹ ) میں ارکان نے اسمگلنگ کو ناسور قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر سمگلنگ کی روک تھام نہ کی گئی تو معیشت پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے، افغانستان اور ایران سے ہونے والی سمگلنگ میں بیورو کریسی ملوث ہے، جب تک استحصالی نظام کا خاتمہ نہیں ہو گا تب تک لوگ دولت کمانے کے ناجائز ذرائع استعمال کرتے رہیں گے، بڑے بڑے کاروباری مراکز میں غیر ملکی اشیاء ملنا ایف بی آر کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے، دہشت گردی میں اضافہ سمگلنگ کی وجہ سے ہوتا ہے۔

پیر کو سینیٹ کے اجلاس میں چوہدری تنویر احمد خان کی جانب سے پیش کردہ اسمگلنگ کی روک تھام کے حوالے سے تحریک پر بحث میں سینیٹر چوہدری تنویر کے علاوہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم ، سینیٹر الیاس بلور، بیرسٹر محمد علی سیف، سینیٹر طاہر حسین مشہدی، سینیٹر عثمان کاکڑ، سینیٹر ایم حمزہ نے حصہ لیا۔

(جاری ہے)

اس موقع پر تحریک پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے سینیٹر چوہدری تنویر نے سمگلنگ کے طریوقں اور ذرائع کی روک تھام اور ملکی معیشت پر منفی اثرات پر تحریک پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کی 2340کلو میٹر اور ایران کی 900 کلو میٹر سرحد سے بڑے پیمانے پر سمگلنگ ہوتی ہے، نیٹو کے کنٹینرز کا آج تک پتہ ہی نہیں چل سکا، سمگلنگ کو نہ روکا گیا تو ملک کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان ہو گا۔

لیفٹیننٹ جنرل(ر) عبدالقیوم نے کہا کہ سوئیٹزر لینڈ کے بینکوں میں سماگلنگ کا 200ملین ڈالر پڑے ہیں، ہمیں ان پیسوں کو ملک میں واپس لانا ہے اور ملکی قوانین سخت کرنا ہوں گے۔ سینیٹر جہانزیب جمالدینی نے کہا کہ ہمارے ملک سے اشیاء دور دراز کے علاقوں میں نہیں پہنچتی مگر ایران سے اسمگل شدہ اشیاء پہنچ جاتی ہیں ۔ سینیٹر الیاس بلور نے کہا کہ افغانستان جتنی برآمدات پاکستان سے حاصل کرتا ہے اس سے زیادہ ایران کے چابہار سے کرتا ہے، وہاں ایک روپیہ کی بھی کرپشن نہیں ہوتی مگر پاکستان میں بیورو کریسی اس کرپشن میں ملوث ہے، ایک بیورو کریٹ کو بچانے کیلئے ساری بیورو کریسی اکٹھی ہو جاتی ہے، معیشت کے 10نمبری لوگوں کی وجہ سے اسمگل شدہ اشیاء موجود ہیں ملک کے بڑے بڑے کاروباری مراکز میں یہ چیزیں ملتی ہیں، ایف بی آر کیا کر رہا ہے۔

بیرسٹر محمد علی سیف نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 18 جو کہ تجارت کے بنیادی حقوق کی نشاندہی کرتا ہے، جب تمام معاملات میں استحصال ہو تو بہتری کی امید ممکن نہیں ہے جب نظام میں استحصال ہو تو عوام نے غیر قانونی ہتھکنڈوں سے پیسے کمانے کو ترجیح دی، ترقی یافتہ ملکوں میں عوام کو سہولیات دی جاتی ہیں جس کی وجہ سے وہاں یہ برائی نہیں ہوتی۔ سینیٹر رحمان ملک نے کہا کہ پاکستان میں دہشت گردی اسمگلنگ کی وجہ سے بڑھی ہے، قانون کی عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے جرائم بڑھتے ہیں، اسمگلنگ بڑے مضبوط نظام کے تتح ہوتی ہے اور اسلحے کی اسمگلنگ بڑے مضبوط نظام کے تحت ہوتی ہے اور اسلحے کی اسمگلنگ میں افغان انٹیلی جنس ملوث ہے، یہاں کچھ لوگ ان کی مدد کر رہے ہیں، اس پر کمیٹی قائم کی جائے۔

سینیٹر طاہر حسین مشہدی نے کہا کہ اسمگلنگ اب ہماری ثقافت بن چکی ہے اور اسمگلر کی عزت کی جاتی ہے، اب ادارہ جاتی بدعنوانی شروع ہو چکی ہے، عوام یک ضروریات اور قیمتوں پر کنٹرول سمیت مہنگائی کا خاتمہ نہیں کریں گے تو مسائل اس سے بھی بڑھیں گے۔ سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ تحریک نیک نیتی کی بنیاد پر نہیں بدنیتی پر مبنی ہے، ،فاٹا میں غربت اور بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں بھی غربت ہے اور وہاں کے لوگوں کو مزید کرتے جا رہے ہیں، پاکستان سے سب سے بڑی انسانی اسمگلنگ ہوتی ہے، شوکت عزیز کے وزارت عظمیٰ کے دور میں اسلحے اور منشیات کے علاوہ باقی کوئی چیز اسمگلنگ کے زمرے میں نہیں آئی، آٹا، تیل اور اشیاء خوردونوش اسمگلنگ میں نہیں آئیں مگر پھر انہیں بارڈر پر روک دیا جاتا تھا۔

سینیٹر ایم حمزہ نے کہا کہ ایک دور تھا اسمگلنگ کو جرم تصور کیا جاتا تھا، مگر اب اسمگلنگ کو برا نہیں جانا جاتا، اب بھی ہمیں بھی اس سے نفرت کرنی چاہیے اور اس کو بیماری سمجھنا چاہیے اور روک تھام کیلئے موثر اقدامات کرنے چاہئیں۔ سینیٹر نہال ہاشمی نے کہا کہ اسمگلنگ معاشرتی سرطان ہے جو ہمارے معاشرے میں رچ بس گیا ہے، ایف بی آر برآمدکنندگان سے بات تک نہیں کرتے اور کسٹم حکام اپنے قوانین خود طے کرتے ہیں۔ سینیٹر ستارہ ایاز نے کہا کہ بحث کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا، اسلام آباد سے لے کر صوبائی حکومتیں بھی اس میں ملوث ہیں حکومت میں بیٹھے ہوئے لوگ اور محکموں کے لوگ ملوث ہیں۔