سینیٹ ، بلوچستان میں زرعی مقاصد کیلئے نصب ٹیوب ویل شمسی توانائی پر منتقل کرنے کیلئے آئندہ بجٹ میں 8 ارب روپے مختص کرنے کی قرارداد کثرت رائے سے منظور ،حکومت کی مخالفت ، قرارداد کے حق میں 37 ، مخالفت میں18 ووٹ پڑے

بلوچستان حکومت کو 2014-15 میں 20 ارب روپے دیئے گئے تھے جو خرچ نہیں ہوئے ، وفاقی حکومت 60 فیصد سبسڈی بلوچستان کے کاشتکاروں کودیتی ہے ، صوبائی حکومت اپنے حصے کی سبسڈی بھی نہیں دیتی ، ہم سے سولر ٹیوب ویل کے پیسوں کا مطالبہ کرنے والے اپنی صوبائی حکومت سے پوچھیں کہ 20 ارب کے فنڈز کیوں ضائع کئے ،2018 میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہو گا ، وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف کا ایوان بالا میں اظہار خیال

پیر 9 مئی 2016 19:49

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔09 مئی۔2016ء ) ایوان بالا(سینیٹ) میں بلوچستان میں زرعی مقاصد کے لئے نصب کیے گئے ٹیوب ویلوں کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کے لئے مالی سال 2015-16 کے بجٹ میں 8 ارب روپے مختص کرنے کے حوالے سے قرارداد کثرت رائے سے منظورکرلی گئی ،حکومت کی مخالفت ، قرارداد کے حق میں 37 جب کہ مخالفت میں18 ووٹ پڑے ، وزیر پانی و بجلی خواجہ محمد آصف نے کہا کہ بلوچستان حکومت کو 2014-15 میں 20 ارب روپے دیئے گئے تھے جو صوبائی حکومت نے خرچ نہیں کیے ، وفاقی حکومت 60 فیصد سبسڈی بلوچستان کے کاشتکاروں کودیتی ہے ، صوبائی حکومت اپنے حصے کی سبسڈی بھی نہیں دیتی ، بجلی کے بقایا جات بھی وفاقی حکومت دیتی ہے ۔

ہم سے سولر ٹیوب ویل کے پیسوں کا مطالبہ کرنے والے اپنی صوبائی حکومت سے پوچھیں کہ انہوں نے 20 ارب کے فنڈز کیوں ضائع کئے ،2018 میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہو گا ۔

(جاری ہے)

پیر کو سینٹ کا اجلاس چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی کی صدارت میں ہوا ۔ اجلاس میں سینیٹرمیر کبیر کی جانب سے بلوچستان میں زرعی مقاصد کے لئے ٹیوب ویلوں کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کے لئے مالی سال 2015-16 کے بجٹ میں 8 ارب روپے مختص کرنے کے حوالے سے قرارداد پیش کی ۔

قرارداد پر بحث میں سینیٹر میر کبیر سمیت سینیٹر میاں عتیق، ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مولانا عبدالغفور حیدری ، سینیٹر محسن لغاری ، سینیٹرڈاکٹر جہانزیب جمالدینی، کرنل طاہر حسین مشہدی ، اعظم سواتی ، فتح محمد حسنی و دیگر نے حصہ لیا ۔ سینیٹر میرکبیر احمد نے بلوچستان میں 32 ہزار ٹیوب ویلز بجلی پر چل رہے ہیں اور انہی کی بدولت 80 فیصد عوام پانی حاصل کرتے ہیں اور 650 میگا واٹ بجلی اس میں استعمال ہوتی ہے اور سالانہ 22 ارب روپے سبسڈی دی جاتی ہے اگر ان 32 ہزار ٹیوب ویلز کو اگر شمسی توانائی پر منتقل کیا جائے تو 650 میگا واٹ بجلی کی بچت سمیت سالانہ 22 ارب روپے کی بھی بچت ہو گی ۔

ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی نے قرارداد پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ آہستہ آہستہ اگر ٹیوب ویلز کو شمسی توانائی پر منتقل کیا جاتا ہے تو وہیں سے بلوچستان کی صنعتیں ترقی کریں گی ۔ بلوچستان کے عوام کی تشنگی دور کرنے کے لئے حکومت کو اقدامات کرے ۔ سینیٹر اعظم سواتی نے کہا کہ بلوچستان کا زرعی سیکٹر مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے اور اگر وہاں کے عوام کا طرز زندگی بدلتا ہے تو ان کے معاملات کو حل کرنا ہو گا ۔

سبسڈی کے بجائے اگر 66 ارب روپے دیئے جائیں تو وہاں کسانوں کا ذریعہ معاش متاثر نہیں ہو گا ۔ سینیٹر میاں عتیق نے کہا کہ ہمارے ملک کے کاشتکار بدحالی کا شکار ہیں کاشتکاروں کی فلاح و بہبود کے لئے ہمیں کوشش کرنی ہو گی ۔ پنجاب میں اس طرح کے منصوبے چل رہے ہیں ۔ سینیٹر محسن لغاری نے کہا کہ میں اس قرارداد کی مخالفت کروں گا کیونکہ بڑی بڑی سولرز کے ذریعے پانی نکال لیا جاتا ہے اور نیچے پانی کی مقدار ایک ہزار فٹ تک پہنچ گئی ہے سینیٹر عثمان خان کاکڑ نے کہا کہ بلوچستان میں ڈراؤٹ کی وجہ ڈیڑھ سو ملین کا کسانوں کو نقصان ہوا ۔

بلوچستان میں ڈیما نہیں بجلی کے نہ ہونے کی وجہ سے زمینداروں کو نقصان ہوا ۔ وہ ابھی زرعی بنک کے قرض نہیں اتار سکے ۔ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ صوبائی اور وفاقی حکومت سالانہ خطیر رقم سبسڈی کی مد میں ہوتی ہے اور کوئی حکومت اس کو جاری کرتی ہے اور کوئی روک لیتی ہے ۔ سردار اعظم موسیٰ خیل نے کہا کہ حکومت سے گزارش ہے کہ اس قرارداد کو منظور کیا جائے ۔

سینیٹر طاہر حسین مشہدی نے کہا کہ ایم کیو ایم میر کبیر کی قرارداد کی مکمل حمایت کرتی ہے ۔ ٹیوب ویلز کے ذریعے وہاں کے کسان اپنی زرعی ضروریات پوری کرتے ہیں اور عوام کی فلاح و بہبود اور پانی کی فراہمی کے لئے حکومت کو اقدامات کرنا ہو نگے ۔ سینیٹر تاج حیدرنے کہا کہ ہمارے آبی خیرے بہت گہرائی میں پائے جاتے ہیں اور پانی کے حصول کے لئے ہمیں گہرائی میں جانا ہو گا اس حوالے سے تحقیقکی ضرورت ہے ۔

اس قرارداد کے ذریعے ایک پیکج بنانا ہو گا جس میں حکومتوں کے ساتھ ساتھ کسانوں کو بھی اپنا حصہ ڈالنا ہو گا ۔ سینیٹر سردار فتح محمد حسنی نے کہا کہ موجودہ دور حکومت میں سفارشات کی کوئی اہمیت نہیں حکومت پارلیمان کی سفارشات کو مانتی ہی نہیں ۔ بلوچستان کو ہمیشہ نظر انداز کیا جاتا ہے ۔ اقتصادی راہداری کے 46 بلین ڈالر سے ایک ارب ڈالر اگر بلوچستان میں شمسی توانائی کے منصوبے لگائے تاکہ بلوچستان میں احساس محرومی کا خاتمہ ہو جائے ۔

سینیٹر حافظ حمد اﷲ نے کہا کہ اب وقت داؤں کا نہیں بلکہ دواؤں کی ضرورت ہے ۔ 20 گھنٹے بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے ۔ وزیر زراعت اور وزیر اعظم نے اس پر وعدہ کیا تھا کہ بلوچستان کی معاشی بد حالی کو دور کیا جائے گا ۔ وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف نے کہا کہ 2014-15 میں بلوچستان حکومت کو پی ایس ڈی پی سے 20 ارب رپوے دیا گیا تھا اور وہاں کی حکومت کام نہیں کر سکی اور فنڈز ضائع کر گئے ۔

شمسی توانائی 3 سیٹ پر نہیں بلکہ 10-11 سینٹ کی لاگت ہے ۔ شمسی توانائی کے مخالف ہر گز نہیں ہیں اب لہت سے نجی اور سرکاری ادارے شمسی توانائی پر چل رہے ہیں اس وقت 106 ارب روپے کا بلوچستان مقروض ہے اور نہ ہی 10 ہزار روپے کسان دیتے ہیں اور نہ ہی 40 فیصد صوبائی حکومت دیتی ہے سولر ٹیوب ویلوں سے پانی کی غیر منصفانہ تقسیم شروع ہو جائے گی ۔ وزیر اعظم نے بھی حامی بھری تھی اس پر تحقیق کی جائے ہم اپنے وعدے پورے کرینگے ۔سندھ ، پنجاب اور خیبرپختونخوا کی حکومتیں اپنے بجٹ سے شمسی توانائی سے استفادہ کر رہے ہیں ۔ ایران سے ہوئے معاہدہ میں 35 سے 74 اور اب 104 میگا واٹ ہو گیا ہے بلو چستان کے سینیٹرز کو صوبائی حکومت سے 20 ارب روپے کا حساب لینا ہو گا۔