سمگلنگ کی روک تھام کیلئے اقدامات کئے جائیں، سمگلنگ سے ملکی معیشت کو بے تحاشا نقصان ہو رہا ہے، سمگلنگ کی روک تھام کیلئے اس کی

بنیادی وجوہات کا جائزہ لینا بہت ضروری ہے ایوان بالا میں مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان کا اظہار خیال

پیر 9 مئی 2016 18:20

اسلام آباد ۔ 9 مئی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔09 مئی۔2016ء) ایوان بالا میں مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان نے کہا ہے کہ سمگلنگ کی روک تھام کیلئے اقدامات کئے جائیں، سمگلنگ سے ملکی معیشت کو بے تحاشا نقصان ہو رہا ہے، سمگلنگ کی روک تھام کیلئے اس کی بنیادی وجوہات کا جائزہ لینا بہت ضروری ہے۔ پیر کو ایوان بالا کے اجلاس کے دوران سینیٹر چوہدری تنویر خان نے تحریک پیش کی کہ یہ ایوان سمگلنگ کے طریقوں اور ذرائع کی روک تھام اور ملکی معیشت پر اس کے منفی اثرات کو زیر بحث لائے۔

تحریک پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے سینیٹر چوہدری تنویر خان نے کہا کہ ہماری مارکیٹس موبائل فونز، چائے، سگریٹ اور دیگر اشیاء سے بھری پڑی ہیں، سمگلنگ کی وجہ سے ٹیکس ٹو جی ڈی پی بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ایک خبر کے مطابق 4 ارب مالیت سے زائد سمگل شدہ موبائل فون آتے ہیں، اسی طرح آٹو پارٹس کی سمگلنگ سے ملک میں معیشت اور قومی خزانے کو بے تحاشا نقصان ہو رہا ہے۔

غیر قانونی طور پر 19 ارب سے زائد مالیت کا سگریٹ بھی منگوایا جاتا ہے جس سے ملکی خزانے کو 24 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ سمگلنگ کو روکنے کے لئے سپیشل کسٹم فورس قائم کی جائے اور اس سلسلے میں سیٹلائٹ سے بھی مدد لی جا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغان ٹریڈ کے غائب ہونے والے نیٹو کنٹینرز کا آج تک سراغ نہیں مل سکا، اس مسئلے سے دہشت گردی پر بھی اثرات مرتب ہوئے ہیں، اگر نہ روک سکے تو ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔

لیفٹیننٹ جنرل (ر) سینیٹر عبدالقیوم نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ سمگلنگ کی وجہ سے پاکستان بری طرح متاثر ہو رہا ہے، اس میں سب سے بڑا حصہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کا ہے۔ حکومت کو ٹیکس نہیں ملتا۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق 2001ء سے 2009ء تک پاکستان کے ریونیو کا 35 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے، ہماری معیشت کو سمگلنگ کی وجہ سے بہت نقصان پہنچ رہا ہے۔

ایف بی آر سمگلنگ روکنے کے لئے قوانین بنائے اور ان پر عمل درآمد بھی یقینی بنائے۔ انہوں نے کہا کہ سوئٹزرلینڈ منتقل ہونے والے کالے دھن کو واپس لانے کے لئے اقدامات اٹھائے جائیں۔ اگر ہم نے واہگہ بارڈر بھی کھولا تو پاکستان میں کھلنے والے کنٹینرز کی تعدد میں مزید اضافہ ہوگا۔ جہانزیب جمالدینی نے کہا کہ ہمیں سمگلنگ کی وجوہات پر غور کرنا چاہئے۔

بارڈر فورسز اس کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہوئی ہیں۔ بلوچستان میں ایران سے سستی اشیائے ضروریہ سمگل ہو کر پہنچ جاتی ہیں، اس کی بڑی وجہ ہماری اپنی اشیاء کی قیمتوں کا زیادہ ہونا ہے۔ جس علاقے میں اشیائے ضروریہ کی قیمتیں زیادہ ہوں گی وہاں سمگلنگ کا رجحان بڑھے گا۔ انہوں نے کہا کہ بارڈر ٹریڈ کے ذریعے باہمی تجارت کو فروغ دیا جائے، اس سے بھی سمگلنگ کا راستہ روکا جا سکتا ہے۔

سینیٹر الیاس بلور نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ دو نمبر معیشت قانونی معیشت سے دو گنا ہے۔ سینیٹر بیرسٹر سیف نے کہا کہ پسماندہ علاقوں میں ترقی کے لئے اقدامات کئے جاتے تو آج سمگلنگ کے مسئلے کا سامنا نہ ہوتا۔ پسماندہ علاقوں میں ترقی کے لئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ سینیٹر اے رحمان ملک نے کہا کہ دہشت گردی کے پیچھے سمگلنگ کا بھی ہاتھ ہے، بہت سے ادارے سمگلنگ کے خلاف کام کر رہے ہیں لیکن وہ محرکات ختم نہیں ہو رہے جن سے سمگلنگ جنم لیتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان دنیا بھر میں منشیات کے حوالے سے بدنام ہے اور پاکستان کے راستے سمگلنگ ہو رہی ہے جبکہ ہم منشیات پیدا نہیں کرتے۔ انہوں نے کہا کہ منشیات اور اسلحہ سمگلنگ میں بڑا چارم ہے۔ سینیٹر طاہر مشہدی نے کہا کہ سمگلنگ پاکستان کی معیشت کی ترقی کے راستے میں رکاوٹ ہے۔ ایک زمانے میں اسے برا خیال کیا جاتا تھا اور لوگ نفرت کرتے تھے۔

انہوں نے الزام لگایا کہ اینٹی سمگلنگ ادارے از خود سمگلنگ میں ملوث ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بارڈر پر غربت کے باعث لوگ سمگلنگ میں ملوث ہیں۔ کرپشن ختم ہونے تک سمگلنگ ختم نہیں ہوگی۔ سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ سینیٹر چوہدری تنویر خان کی یہ تحریک نیک نیتی پر مبنی نہیں، اس لئے حمایت نہیں کرتا۔ سینیٹر ایم حمزہ نے کہا کہ سمگلنگ کی بیماری نے ہمیں جکڑ رکھا ہے، اس سے چھٹکارا پانا ہوگا۔

سینیٹر نہال ہاشمی نے کہا کہ چوہدری تنویر خان نے ایک اہم مسئلے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ وزیراعظم نے 90ء میں اس مسئلے کا ادراک کیا اور بیرون ملک پاکستانیوں کے لئے گرین چینل ایئر پورٹس پر قائم کئے۔ بعد ازاں کوئی حکومت اس حوالے سے جامع پالیسی نہیں بنا سکی۔ سینیٹر ستارہ ایاز نے کہا کہ سمگلنگ کے خلاف اقدامات نہیں کئے جاتے، قبائلی علاقے سمگلنگ کے حوالے سے خواہ مخواہ بدنام ہیں، سرپرستی کوئی اور کر رہا ہے۔

متعلقہ عنوان :