سینیٹ میں بلوچستان میں ٹیوب ویلوں کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کے لئے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں 8 ارب روپے فراہم کرنے کی قرارداد منظور

پیر 9 مئی 2016 17:24

اسلام آباد ۔ 9 مئی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔09 مئی۔2016ء) ایوان بالا نے بلوچستان میں ٹیوب ویلوں کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کے لئے آئندہ مالی سال 2016-17ء کے بجٹ میں 8 ارب روپے فراہم کرنے کی قرارداد منظور کرلی۔ پیر کو ایوان بالا کے اجلاس کے دوران سینیٹر میر کبیر احمد محمد شاہی نے قرارداد پیش کی کہ یہ ایوان سفارش کرتا ہے کہ حکومت بلوچستان میں زرعی مقاصد کے لئے نصب کئے گئے ٹیوب ویلوں کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کے لئے آئندہ مالی سال 2016-17ء کے بجٹ میں 8 ارب روپے فراہم کرے۔

قرارداد کے حق میں دلائل دیتے ہوئے میر کبیر شاہی نے کہا کہ بلوچستان میں تمام تر دارومدار زراعت پر ہے اور زراعت کے لئے پانی بہت ضروری ہے۔ سینیٹر اعظم سواتی اور عتیق شیخ نے بھی قرارداد کی حمایت کی۔

(جاری ہے)

سینیٹر محسن لغاری نے کہا کہ میں اس قرارداد کی مخالفت کرتا ہوں، بلوچستان میں زیر زمین پانی کا ذخیرہ نیچے جا رہا ہے، مزید ٹیوب ویلوں کی تنصیب سے پانی کی سطح مزید نیچے ہو جائے گی۔

پانی کے استعمال کی ماڈرن ٹیکنالوجی استعمال کی جائے ورنہ سنگین نقصانات کا سامنا کرنا پڑے گا اور آنے والی نسلوں کے لئے پانی نہیں بچے گا۔ اس مسئلے کا جذباتی حل نہیں نکالنا چاہئے۔ عثمان کاکڑ نے کہا کہ حکومت اس قرارداد کی حمایت کرے۔ انہوں نے کہا کہ ڈرپ اری گیشن سسٹم ضروری ہے لیکن زمیندار خسارے میں جا رہے ہیں، قرضے ادا کرنے سے قاصر ہیں، 8 ارب روپے کی رقم کچھ خاص اہمیت نہیں رکھتی، یہ رقم صوبے کو دی جائے۔

سینیٹر مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ مسئلے کا مستقل حل نکالنے کے لئے شمسی توانائی پر ٹیوب ویلوں کو منتقل کرنا ضروری ہے۔ سردار اعظم موسیٰ خیل نے بھی قرارداد کی حمایت کی اور کہا کہ صوبے کے لئے زراعت کی بنیادی اہمیت ہے، 8 ارب روپے فوری فراہم کئے جائیں۔ سینیٹر کرنل (ر) سید طاہر حسین مشہدی نے کہا کہ اس قرارداد کی حمایت کرتے ہیں۔ سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ ہمیں بالآخر سولر پر منتقل ہونا ہے، دنیا کے کئی ممالک میں سولر کافی سستا ہے، حکومت، زمیندار اور بینکوں کی شمولیت سے ایک پیکیج بنانا چاہئے، تھر میں ہم ساڑھے سات سو سے آٹھ سو میٹر تک پہنچ گئے ہیں تو وہاں کافی پانی ملا ہے۔

بلوچستان میں بھی کافی نیچے جا کر پانی نکالنا پڑے گا۔ سردار فتح محمد حسنی نے کہا کہ حکومت سبسڈی کی مد میں بھی اربوں روپے دے رہی ہے۔ 8 ارب روپے کی مخالفت نہیں کرنی چاہئے۔ حکومت بلوچستان کے لئے کمیٹی بنائے اور 8 ارب روپے سے اس رقم کو مزید بڑھا دے تاکہ صوبے کی محرومی کا خاتمہ ہو۔ حافظ حمد الله نے کہا کہ میر کبیر کی قرارداد کی مکمل حمایت کرتا ہوں۔

بلوچستان کے عوام کا دارومدار زراعت اور زراعت کا دارومدار پانی پر ہے۔ صوبے میں بجلی گھروں کے لئے بھی نہیں ہے تو ٹیوب ویلوں کے لئے کہاں سے آئے گی۔ وفاقی وزیر پانی و بجلی نے اس موقع پر قرارداد کی مخالفت کرتے ہوئے دلائل دیئے۔ بعد ازاں چیئرمین نے قرارداد پر ایوان کی رائے حاصل کی۔ چیئرمین نے کہا کہ آوازوں سے اکثریتی ارکان کا اندازہ لگانا مشکل ہے اس لئے نشستوں پر ارکان کو کھڑا کر کے رائے شماری کرائی گئی۔ چیئرمین نے بتایا کہ 37 ارکان نے قرارداد کی حمایت میں اور 18 ارکان نے مخالفت میں رائے دی ہے۔ اس طرح قرارداد کثرت رائے سے منظور کرلی گئی۔