حکومت ،اقتصادی امور کے ماہرین کی توجہ مالی سال2016-17 پر مرکوز ہے،ہارون اختر خان

ہفتہ 7 مئی 2016 16:49

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔07 مئی۔2016ء)وزریراعظم کے مشیر برائے ریونیو ہارون اختر خان نے مالی سال2016-17کیلئے کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری( کے سی سی آئی) کی بجٹ تجاویز پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت اور اقتصادی امور کے ماہرین کی توجہ مالی سال2016-17 پر مرکوز ہے اور ان کا واضح مقصد یہی ہے اقتصادی ترقی کو یقینی بنانے،صنعتوں میں سرمایہ کاری کا فروغ،کاروباری سہولیات کو یقینی بنانے اور کاروبار دوست ماحول پیدا کر کے ٹیکس کا دائرہ کار وسیع کرنا ہے۔

وزیراعظم کے مشیر نے بزنس مین گروپ کے چیئرمین اور سابق صدر کے سی سی آئی سراج قاسم تیلی کی سربراہی میں ایف بی آر ہاوٴس اسلام آباد میں ایک اجلاس کے دوران کراچی چیمبر کے وفد سے تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔

(جاری ہے)

انہوں نے کے سی سی آئی کی بجٹ تجاویز پر سنجیدگی سے غور کرنے کی یقین دہانی کرواتے ہوئے کہاکہ ایف بی آر کے سی سی آئی کی تجاویز پر سنجیدگی سے غور کر رہاہے جبکہ وزارت خزانہ نے بھی جہاں تک ممکن ہوا تجاویز کو نئے وفاقی بجٹ میں شامل کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے۔

کے سی سی آئی کے وفد میں بی ایم جی کے وائس چیئرمین و سابق صدر کے سی سی آئی طاہر خالق اورہارون فاروقی،کے سی سی آئی کے صدر یونس محمد بشیر،سابق سینئر نائب صدر محمد ابراہیم کوسمبی اور کے سی سی آئی کی سب کمیٹی برائے جی ایس ٹی کے چیئرمین شعیب اے فریدی بھی شامل تھے۔ کے سی سی آئی کے وفد اور ایف بی آر حکام نے کے سی سی آئی کی ہر تجویز پر تبادلہ خیال کیا گیا اور دونوں جانب سے نقطہ نظر پیش کیا گیانیز ہر تجویز پر مختلف اقدامات کے حوالے سے اتفاق رائے کیا گیا تاکہ مالی سال 2016-17کے بجٹ کو نمو پر مبنی اورکاروبار دوست بنایا جاسکے۔

اس موقع پر فیڈرل بورڈ آف ریونیو( ایف بی آر) کے چیئرمین نثار محمد خان نے کے سی سی آئی کی تجاویز کو سراہتے ہوئے کہاکہ کراچی چیمبر نے بجٹ 2016-17کے لیے جامع اور مفصل تجاویز دی ہیں جس میں صنعت وتجارت کے تمام شعبوں کا احاطہ کیا گیاہے۔انہوں نے کے سی سی آئی کے وفد کو یقین دہانی کرواتے ہوئے کہاکہ کراچی چیمبر کی تجاویز کو اہمیت دیتے ہوئے غور کیاجائے گا کیونکہ اس میں پاکستان کی سب سے بڑے ٹیکس گزاروں کی نمائندہ باڈی کی رائے شامل ہے۔

چیئرمین ایف بی آرنے قوانین میں تبدیلی کے حوالے سے تجاویز پر غور کرنے اور بجٹ میں شامل کرنے کی یقین دہانی بھی کروائی جس میں سیکشن 8A،14،21،26،40،40B، اور45B شامل ہیں جبکہ ایسی تجاویز جن میں قانون اور طریقہ کار پر عمل درآمد نہ ہونا ، اختیارات کا غلط استعمال اورقانون کی غلط تشریح شامل ہیں ان پرکراچی چیمبر میں ایک علیحدہ اجلاس میں بجٹ کے بعد تبادلہ خیال کیاجائے گا۔

انہوں نے اس امر کو اچھی خبر قرار دیتے ہوئے کہاکہ الٹرنیٹ ڈسپیوٹ ریزولیشن کمیٹی( اے ڈی آر سی) کو ازسر نو مزید بہتری کے ساتھ دوبارہ متعارف کروایا جائے گا جس کے یقینی طور پر بہتر نتائج برآمد ہوں گے اور اس سے صنعت و تجارت کو فائدہ ہوگا۔انہوں نے بتایاکہ ایس آر او نمبر647(I)/2007بتاریخ27-7-2007 اور ایس آر او 1125(I)2011 اور سیلز ٹیکس کے خصوصی طریقہ کار(ودہولڈنگ) قوانین2007 کوبھی مزید معقول بنایا جائے گا۔

بی ایم جی کے چیئرمین اور سابق صدر کے سی سی آئی سراج قاسم تیلی نے اس موقع پر کہاکہ اگرچہ چند سالوں کے دوران مسائل پر تبادلہ خیال تو کیا گیا لیکن عمل درآمد کہیں نظر نہیں آیا۔انہوں نے ٹیکسیشن قوانین سمیت سیلز ٹیکس ایکٹ1990، انکم ٹیکس آرڈیننس 2001، کسٹم ایکٹ 1969، فیڈرل ایکسائز ایکٹ، ایس آر اوز، سی جی اوز رولنگز،خصوصی طریقہ کار اور بڑے پیمانے پر انتظامی تبدیلیوں کی وجہ سے تاجروصنعتکاروں کو پیش آنے والی مشکلات اور مسائل پر تفصیل سے روشنی ڈالی جس کی وجہ سے کاروبار کرنا انتہائی دشوار ہو گیا ہے۔

انہوں نے کہاکہ فیلڈ فارمیشنز اور ان لینڈ ریونیو کے افسران اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے ٹیکس دہندگان کو ہراساں کرتے ہیں جو بدعنوانی اور بھتہ خوری کا باعث ہیں۔یہ قوانین ہراساں کرنے اور خوف کی وجہ سے ٹیکس کا دائرہ کار وسیع کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔انہوں نے اِن قوانین کو ختم کرنے یا ترامیم کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہاکہ اس ضمن میں یہ خیال رکھاجائے کہ فیلڈ فارمیشنز کی جانب سے کوئی زیادتی نہ ہو اوردونوں طرف متوازن احتساب کیا جائے۔

سراج قاسم تیلی نے ایف بی آر ٹیم کو یادہانی کرواتے ہوئے کہاکہ دو سال قبل حکومت نے ٹیکس ریفارمز کمیشن قائم کیا جس کا مقصد مجموعی ٹیکس نظام کا جائزہ لینا، رکاوٹوں کو دورکرنا،بے جااختیارات کے خاتمہ اور ملکی اقتصادی اہداف حاصل کرنے کے لیے طویل المیعاد ٹیکس نظام وضع کرنا تھا۔تمام اسٹیک ہولڈرز کو اصلاحات کے عمل میں شامل کرنے کے لیے مدعو کیا گیا اور ایک سال سے زائد کی محنت کے بعدکمیشن نے حکومت کو عمل درآمد کے لیے تجاویز پیش کیں تاہم بدقسمتی سے ان تجاویز کو نظر انداز کردیا گیا یہی وجہ تھی کہ گزشتہ بجٹ ناقابل فہم تھا۔

انہوں نے زور دیا کہ ٹی آر سی کی تجاویزآنے والے بجٹ میں شامل کی جائیں۔انہوں نے مزید کہاکہ کے سی سی آئی نے22ہزار سے زائد ممبران کی تجاویز اور رائے کو شامل کرتے ہوئے بجٹ تجاویز تیار کی ہیں جس کا مقصد اقتصادی ترقی کو تیز تر اور ٹیکس کے دائرہ کار کو وسیع کرنے میں کردار ادا کرناہے۔اس موقع پر بی ایم جی کے وائس چیئرمین وسابق صدر ہارون فاروقی نے انڈینٹرز پر عائد کئے گئے14فیصد سیلز ٹیکس کے باعث پیش آنے والے مسائل کے حل کے لیے وفاقی حکومت سے تعاون طلب کرتے ہوئے کہاکہ انڈینٹرز کی کاروباری سرگرمیوں کو بطور خدمات تصور کیا گیاجو سراسر غلط ہے لہٰذا انڈینٹنگ کے کاروبار پر سیلز ٹیکس کا نفاذ غیر منصفانہ ہے۔

چیئرمین ایف بی آر نے وفد کو اس حوالے سے یقین دلایا کہ ایف بی آر جلد ہی اس ضمن میں وضاحت جاری کرے گا۔انہوں نے12 سروسز سیکٹر زپر گزشتہ سال 8 فیصد ودہولڈنگ ٹیکس کے نفاذ کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ اس اقدام پر فوری رابطہ کرتے ہوئے حکومت کو اس بات پر قائل کیا گیا کہ اس میں کمی کی جائے اور حکومت نے ودہولڈنگ ٹیکس کم کر کے 2فیصد کر تودیا تاہم آنے والے بجٹ میں اس میں مزید کمی لاتے ہوئے ایک فیصد کی سطح پر لایا جائے اور اسے ٹرن اوور ٹیکس کا درجہ دیا جائے۔

انہوں نے کہاکہ ریفنڈ کی مد میں خطیر کاروباری سرمایہ پھنس کررہ گیاہے جس کی وجہ سے عالمی معیشت میں برآمدی شعبہ شدید متاثر ہوا ہے۔اس تناظر میں آنے والے بجٹ میں عام اور برآمدی شعبے کی صنعتوں کو لازماً ریلیف فراہم کیا جائے۔کے سی سی آئی کے صدر یونس محمد بشیر نے اس موقع پر کراچی کی تاجر برادری کے کردار کو اجاگر کیا جو کراچی کے غیرمحفوظ اور کاروبار مخالف ماحول کے باوجود کاروباری سرگرمیاں جاری رکھ کر ٹیکس ریونیو میں سب سے بڑے حصہ دار ہیں۔

انہوں نے کہاکہ صنعتوں کو پیداواری لاگت میں نمایاں اضافے کا سامنا ہے جس کی وجوہات بجلی، گیس و پانی کے زائد نرخ اور نامناسب ٹیکس پالیسیاں ہیں۔اجلاس کے اختتام پر مثبت نتیجہ اخذ کیا گیاکہ ہر طرف سے اپنے خیالات پیش کرنے کے مواقع دیے جائیں گے اور بجٹ پیش کرنے سے پہلے خیالات کے تبادلے کو جاری رکھنے اور پوسٹ بجٹ بحث پر بھی اتفاق کیا گیا۔