پنجاب اسمبلی نے امیر جماعت اسلامی بنگلہ دیش کی سزائے موت کیخلاف اپیل مستردکرنے ،رہنماؤں کو پھانسیاں دینے کیخلاف مذمتی قرارداد متفقہ طور پر منظور کر لی

سرکاری سکولوں میں طلبہ کی تعداد ایک کروڑ 18لاکھ تک پہنچ گئی ،فیس کے معاملے میں تجاوز کرنے پر نجی سکولوں کیخلاف سخت کارروائی کی جائیگی‘ وزیر تعلیم لاہور جیسے سرکاری سکول میں جانور بندھے ہوئے ہیں ،دیہی سکول کی گراؤنڈمیں فصلیں کاشت کی جارہی ہیں ‘ حکومتی اراکین

جمعہ 6 مئی 2016 22:19

لاہور( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔06 مئی۔2016ء) پنجاب اسمبلی نے امیر جماعت اسلامی بنگلہ دیش مطیع الرحمان نظامی کی سزائے موت کیخلاف اپیل مستردکرنے اور جماعت اسلامی کے رہنماؤں کو پھانسیاں دینے کیخلاف مذمتی قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی ، پنجاب اسمبلی کے مسلسل دوسرے سیشن میں بھی پانامہ لیکس کے چرچے رہے اور اپوزیشن نے آؤٹ آف ٹرن تحریک التوائے کار پیش کرنے کی اجازت نہ ملنے پر ایوان کی کارروائی سے احتجاجاً واک آؤٹ کیا ،پنجاب اسمبلی کے ایوان کو بتایا گیا ہے کہ حکومت کی مثبت پالیسیوں کے باعث سرکاری سکولوں میں طلبہ کی تعداد ایک کروڑ 18لاکھ تک پہنچ چکی ہے ،نجی سکولوں کو 2014ء کی فیسوں میں صرف آٹھ فیصد اضافے کی اجازت دی گئی ہے اور اس سے تجاوز کرنے والوں کیخلاف سخت کارروائی کی جائیگی،غیر رجسٹرڈ اور قواعد وضوابط کی خلاف ورزی پر 54ہزار نجی سکولوں میں سے 29625کو لاکھوں روپے جرمانے کئے گئے ہیں جبکہ اجلاس میں حکومتی اراکین نے انکشاف کیا ہے کہ لاہور جیسے سرکاری سکول میں جانور بندھے ہوئے ہیں جبکہ دیہی سکول کے گراؤنڈمیں فصلیں کاشت کی جارہی ہیں ۔

(جاری ہے)

پنجاب اسمبلی کا اجلاس گزشتہ روز تین بجے کی بجائے دو گھنٹے 33منٹ کی غیر معمولی تاخیر سے اسپیکر پنجاب اسمبلی رانا محمد اقبال کی صدارت میں شروع ہوا ۔ا جلاس میں صوبائی وزیر رانا مشہود احمد خان نے محکمہ سکولز ایجوکیشن سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ۔پی ٹی آئی کی ڈاکٹر نوشین حامد نے محکمے کو بھیجے گئے سوالات کے دو سے تین سال بعد جوابات آنے پر احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ اب تو لگتا ہے کہ مڈٹرم انتخابات ہو جائیں گی جس پر رانا مشہود نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پر دم نکلے جس پر ایوان میں قہقے بلند ہوئے ۔

ڈاکٹر نوشین حامد کے سوال کے جواب میں صوبائی وزیر نے ایوان کوبتایا کہ حکومت کی پالیسی کے مطابق تین سال کنٹریکٹ کا عرصہ پورا کرنے والے اساتذہ کو مستقل کر دیا جاتا ہے ۔ انہوں نے مزید بتایا کہ سرکاری سکولوں میں اساتذہ کی خالی آسامیاں امسال کے آخر تک پُر کر لی جائیں گی ۔ میاں اسلم اقبال نے کہا کہ آسامیاں تو پُر ہو جائیں گی حکومت کی خامیاں کب پر ہوں گی جس پر وزیر تعلیم نے کہا کہ اپوزیشن کی خامیاں پوری قوم کے سامنے ہیں اورقوم انہیں دیکھ رہی ہے ۔

پیپلز پارٹی کی رکن اسمبلی فائزہ احمد ملک نے بھی سوالات کے جوابات تین سال بعد آنے پر احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی وزیر اپنے محکمے کی سمت درست کریں ۔انہوں نے کہا کہ سرکاری سکولوں کو نجی شعبے کے حوالے کیا جارہا ہے ،اس طرح کے اقدامات کر کے پرائیویٹ مافیا کو مضبوط کیاجاہرا ہے ۔ سرکاری سکولوں میں سہولیات کی فراہمی جھوٹ ہے ۔ پڑھے لکھے پنجاب کا نعرہ لگایا جارہا ہے جبکہ سرکاری سکولوں میں انرولمنٹ کم ہونے پر سکولوں کوایک دوسرے میں ضم کیا جارہا ہے ۔

صوبائی وزیر نے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ حکومت نے ایک جامع پالیسی کے تحت جیو ٹیگنگ کی ہے اور سروے کیا گیا ہے اور آبادیوں میں بچوں کا ریکارد مرتب کیا گیا ہے ۔ اسی کے تحت 54ہزار سکولوں میں سہولیات مکمل کرنے کیلئے اربوں روپے خرچ کئے گئے ہیں۔ پانچ ہزار آف گرڈ سکولوں کو سولر انرجی پر لے کر جارہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ 2008ء میں جب ہم نے اقتدار سنبھالا تو سکولوں کی تعداد زیادہ اور بچوں کی تعداد کم تھی ،کئی سکولوں ں میں بچوں کی سات ،آٹھ اور کہیں سولہ تھی جبکہ انفراسٹر اکچر مکمل تھا ۔

ہم نے اس سلسلہ میں باقاعدہ منصوبہ بندی کر کے سکولوں کو ضم کیا ہے ۔ 2008ء میں جب ہم نے کام شروع کیا تو اس وقت طلبہ کی تعداد90لاکھ تعداد تھی جبکہ آج سرکاری سکولوں میں طلبہ کی تعداد بڑھ کر ایک کروڑ 18لاکھ تک پہنچ چکی ہے ۔ پی ٹی آئی کے رکن اسمبلی میاں اسلم اقبال نے کہا کہ سر سید احمد خان سکول سڑک پر لگتا ہے او ریہ اسپیکر قومی اسمبلی کا حلقہ ہے ۔

جنوبی پنجاب میں تو چھوٹو گینگ کا خاتمہ ہو گیا ،محکمہ تعلیم، نندی پور، قائد اعظم سولر پارک ، سستی روٹی سکیم سے کب چھوٹو گینگ کا خاتمہ ہوگا ۔حکمران جماعت کے رکن اسمبلی ملک محمد احمد خان نے ضمنی سوال میں کہا کہ وزیر اعظم او روزیر اعلیٰ کی سطح پر فیس سٹرکچر میں کمی کا فیصلہ ہوا لیکن اس پر صرف ایک سال عملدرآمد ہو سکا اور نجی سکول آج پھر پرانی شرح سے فیسیں وصول کر رہے ہیں ،حکومت اس ڈکیتی کو روکے ۔

صوبائی وزیر نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی پہلی حکومت ہے جس نے پرائیویٹ سکولوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا اور فیسوں کو کنٹرول کرنے کے لئے آرڈیننس جاری کیا گیا ۔ نجی سکولوں کی فیس کو 2014ء کی سطح پر فریز کی اور انہیں 2015اور2016ء میں بھی 2014ء کی شرح کے مطابق فیس لینے کا پابند کیا گیا ۔ اسکے بعد پرائیویٹ سکولز نے احتجاج کیا اور والدین کی اور نجی سکولز کی ایسوسی ایشن کی کمیٹی بنی جس میں پانچ فیصد اضافے کی اجازت دی گی لیکن پرائیویٹ سکولز کی کمیٹی کا کہنا تھاکہ اس سے اخراجات پورے نہیں ہوتے جس کے بعد انہیں آٹھ فیصد اضافے کی اجازت دی گئی ہے اور اس سلسلہ میں وزیر اعلیٰ کو سمری ارسال کر دی گئی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ چند سکولوں کے حوالے سے شکایات موجود ہیں لیکن جو تجاوز کریں گے ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی ۔ حکومتی جماعت کی رکن اسمبلی نگہت شیخ نے کہا کہ بعض نجی سکولوں میں پرائمری کی تعلیم کیلئے انڈر پاس اساتذہ رکھے گئے ہیں جبکہ انہیں صرف چار سے چھ ہزار روپے تنخواہ دی جارہی ہے ایسے میں تعلیم کا معیار کیا ہو گا۔ جس پر صوبائی وزیر نے کہا کہ اس سلسلہ میں پنجاب ایجوکیشن بل کابینہ میں لے کر جارہے ہیں جہاں سکولوں کو رقبے اور دیگر سہولیات کے لحاظ سے کیٹگریز میں تقسیم کیا جائے گا اور اسی طرح ٹیچرز کی کوالفیکیشن اور تنخواہ کا احاطہ کیا جائے گا ۔

سکولوں میں فیکلٹی کی تعلیم اور تجربے کے حوالے سے ڈیٹا اکٹھا کرنے کیلئے پرفارما تقسیم کیا گیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پہلی دفعہ فزیکل ایجوکیشن کو لازمی قرار دیا گیا ہے اور اس کے لئے یو کے یونیورسٹی کے ساتھ معاہدہ کیا گیا ہے ۔ حکمران جماعت کی رکن اسمبلی نگہت شیخ نے کہا کہ آج بھی لاہور میں ایسا سکول ہے جہاں جانور بندھے ہوئے ہیں ۔ جس پر صوبائی وزیر نے کہا کہ تصاویر دکھا دیں ۔

ہم رکن اسمبلی کے ساتھ جانے کو تیار ہیں جس پر رکن اسمبلی نے کہا کہ بغیر اطلاع کے جائیں اور صورتحال دیکھیں ۔ حکمران جماعت کے اقلیتی رکن اسمبلی شہزاد منشی نے کہا کہ یوحنا آباد کی ڈیڑھ لاکھ کی آبادی ہے لیکن وہاں ایک بھی گرلز سکول نہیں جو سکول بن رہا ہے وہ آبادی سے باہر آصف ٹاؤن میں ہے جس پر صوبائی وزیر نے کہا کہ وفاقی وزیر کامران مائیکل اور دیگر سے کہا گیا کہ تھا وہ یوحنا آباد میں جگہ ڈھونڈ کر دیں لیکن جگہ نہیں ملی ۔

حکمران جماعت کے رکن اسمبلی محمد ارشد ملک ایڈووکیٹ نے کہا کہ ایک سرکاری سکول کی گراؤنڈز میں فصلیں اگائی جارہی ہیں ان کی بات جاری تھی کہ اسپیکر نے وقفہ سوالات کا وقت پورا ہونے پر اسے ختم کردیا ۔وقفہ سوالات کے بعد اسپیکر نے ڈاکٹر وسیم اختر کو قواعد و ضوابط معطل کر کے قرارداد پیش کرنے کی اجازت دی تاہم مغرب کی اذان ہونے پر اسپیکر نے اجلاس کی کارروائی بیس منٹ کے لئے ملتوی کر دی ۔

دوبارہ اجلاس شروع ہونے پر قواعد کی معطلی کی تحریک کی منظوری کے بعد ڈاکٹر وسیم اختر نے قرارداد پیش کی جس کے متن میں کہا گیا کہ ’’پنجاب اسمبلی کا یہ ایوان بنگلہ دیش میں امیر جماعت اسلامی بنگلہ دیش جناب مطیع الرحمان نظامی کونام نہاد ٹربیونل کی جانب سے دفاع پاکستان کے جرم میں دی جانے والی موت کی سزا پر انتہائی تشویش کا اظہار کرتا ہے۔

بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے ایک طے شدہ منصوبے کے مطابق مطیع الرحمان نظامی کی سزائے موت کے خلاف اپیل مسترد کی ہے۔اس سے قبل بھی حسینہ واجد حکومت جماعت اسلامی کے متعدد رہنماؤں کو پاکستان کے ساتھ وفاکے جرم میں پھانسی کے پھندے پر لٹکا چکی ہے۔یہ ایوان وفاقی حکومت سے مطالبہ کرتاہے کہ اس سے پہلے کہ حسینہ واجد کی ظالم حکومت سزائے موت کے فیصلے پر عمل درآمد کرائے معاملے کو فوری طور پر او آئی سی اور اقوام متحدہ میں اٹھایاجائے۔

نیز حکومت پاکستان جراتمندانہ سفارتکاری کرتے ہوئے اس ظلم کو رکوائے۔مذکورہ قرار داد متفقہ طور پر منظور کر لی گئی ۔اجلاس میں قائد حزب اختلاف میاں محمود الرشید نے پانامہ لیکس کے معاملے پر آؤٹ آف ٹرن تحریک التوائے کار جمع کرانے کی اجاز ت طلب کی تاہم اسپیکر کی طرف سے اجازت نہ دی گئی ۔ صوبائی وزیر قانون رانا ثنا اﷲ خان نے کہا کہ اپوزیشن ڈرامے بازی کرتی ہے او رپھر باہر چلی جاتی ہے ۔

آئیں یہ پانامہ لیکس کے معاملے پر جتنے دیر مرضی بحث کریں لیکن پھر ہمارا جواب بھی سنیں ۔ ان کے اپنے لوگوں کے نام پانامہ لیکس میں آئے ہیں۔ وہ وقت آ رہا ہے کہ پانامہ لیکس پر شور مچانے والے خود لوگوں سے منہ چھپاتے پھریں گے ۔اپوزیشن نے آؤٹ آف ٹرین تحریک التوائے کار پیش کرنے کی اجازت نہ ملنے پر ایوان کی کارروائی سے واک آؤٹ کیا اور اسی دوران پی ٹی آئی کی خاتون رکن اسمبلی نبیلہ حاکم نے کورم کی نشاندہی کردی ۔ پانچ منٹ کے لئے گھنٹیاں بجانے پر کورم پورا نہ ہو سکا جس کے بعد اسپیکر نے اجلاس پیر کی سہ پہر 3بجے تک کے لئے ملتوی کر دیا ۔