امریکہ میں پہلا ماہ رمضان:روزہ رکھیں، نماز پڑھیں، کھانا بنائیں: امریکی باورچی خانے میں ماہِ رمضان

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعہ 6 مئی 2016 16:14

نیوجرسی(ا ردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔06مئی۔2016ء) جی۔ ولو ولسن ایک نو مسلمہ ہیں۔ وہ اپنے تصویری ناول "تتلی مسجد، قاہرہ اور کامک کتاب کے سلسلے " ایئر" کی مصنفہ ہیں اور آیزنر ایوارڈ کے لئے نامزد ہوچکی ہیں۔ ان کا 2012 میں چھپنے والا ناول " ان دیکھا الف" ہے۔ وہ مارویل کومکس کے سلسلوں کے لئے مسودے تحریر کرتی ہیں جس میں ایک نو عمر مسلمان پاکستانی نڑاد امریکی لڑکی کمالہ خان کو جرسی سٹی میں سپر ہیرو کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

وہ امریکہ میں اپنے پہلے ماہ رمضان کے بارے میں لکھتی ہیں کہ رمضان سے ایک ہفتہ قبل میں نے 65 ڈالر کا مجول کھجوروں کا ایک بڑا ڈبہ منگوایا۔اشتہار میں لکھا تھا، اللہ کے فضل سے سو فیصد نامیاتی۔ بہترین قسم۔

(جاری ہے)

میرے ذہن میں آیا، اتنی قیمت پر تو انہیں ایسا ہونا ہی چاہیے۔ اس طرح میری فہرست میں سے ایک اور چیز کی خریداری مکمل ہوئی۔ اس کے علاوہ میری فہرست میں قدرتی ماحول میں رکھی گئی مرغیاں، جنہیں "آمیش" کہلانے والے قدامت پسند کسانوں کی کمیونٹی پالتی ہے اور مسلمان حلال کرتے ہیں، خشک خوبانیاں، مٹھائیوں کے لئے آٹے سے بنی ہوئی پٹیاں اور ان گنت دوسری چیزیں شامل ہوتی ہیں۔

ایسا اس لئے ہے کہ کسی مسلم گھرانے میں باورچی خانے کے ذمہ دار فرد کے لئے ضروری ہے کہ وہ رمضان کے مبارک مہینے میں کھانے کی اشیاءکا ذخیرہ کرے۔جب آپ دن میں صرف ایک ہی وقت بڑا کھانا کھاتے ہیں تو آپ کو اس کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ دن کے وقت، ممکن ہے کہ رمضان ذاتی نظم و ضبط اور تحمل کا مہینہ ہو، لیکن رات کو یہ ضیافت کا وقت بن جاتا ہے۔ اپنے اہلِ خانہ اور دوستوں کے ساتھ موسمی کھانوں سے لطف اندوز ہونا اس مہینے کی تقریبات کا امریکہ میں اتنا ہی بڑا حصہ ہے جتنا کہ کسی اور جگہ پر جہاں روزے رکھے جاتے ہیں۔

سی ایٹل میں ہماری مقامی کمیو نٹی بہت متنوع ہے۔ لہذا ہماری محفلیں مختلف ثقافتی روایات کا مرکب ہوتی ہیں۔ گھر میں پکائی گئی روزمرہ استعمال کی امریکی من پسند اشیاءجیسے بھنی ہوئی مرغی اور بسکٹوں کے ساتھ ساتھ تیونسی دوستوں کی پودینے والی چائے کے تھرموسں اور مصریوں کی تہہ در تہہ میٹھی پیسٹریوں کی پلیٹیں رکھی جاتی ہیں۔ اس بہترین لمحے میں اس وقت ایک خاص چیز واقع ہوتی ہے جب قریب ترین پڑے ہوئے آئی فون سے اذان کی آواز آتی ہے اور آپ پیار سے بنائے ہوئے روایتی کھانوں کی میز پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔

میرے لئے شام کا کھانا تیار کرنا ایک عبادت کی شکل اختیار کرگیا ہے یعنی عبادت کا ایک کام اور خدا کو پا لینے کے لئے جدوجہد۔ ایک ایسا کھانا پکانا جو پہلے آپ سینکڑوں مرتبہ پکا چکے ہوں، مشکل ہوجاتا ہے جب آپ اس کے اجزاءکو متوازن بنانے کے لئے پکاتے وقت اسے چکھ نہیں سکتے۔ کیا اس میں بہت زیادہ نمک ہے؟ لہسن کافی نہیں ہے؟ آپ کو غروبِ آفتاب تک پتہ نہیں چلے گا۔

اور پھر آپ کو اور آپ کے مہمانوں کو آپ کی جبلیات کی درست کارکردگی کا بیک وقت علم غروب آفتاب کے وقت ہوگا۔روزہ رکھ کے کھانا پکانا ایک منفرد تجربہ ہے۔ ایسا اس وجہ سے نہیں ہے کہ ماحول میں اس کھانے کی خوشبو رچی ہوئی ہے جو آپ کھا نہیں سکتے۔ ابتدا ہی سے میں نے جان لیا تھا کہ مجھے چپکے سے کسی چیز کا ایک لقمہ لینے کی لالچ نہیں کرنا۔ سب سے بڑھکر شام کا کھانا تیار کرنے سے میرا روزہ رکھنے کے مقصد کی پر زور تائید ہوتی ہے جس سے میری خدا کی عبادت اور ان لوگوں کی خدمت کرنے کی وضاحت ہوتی ہے جو میرے تیار کیے گئے کھانے سے روزہ افطار کریں گے۔

اپنے پیاروں کے ہمراہ اچھا کھانا کھاتے ہوئے ہم مذہبی روایت کےایک اہم عنصر کو اکثر نظرانداز کردیتے ہیں اور وہ ہے "خوشی"۔ آپ خدا کی شکرگزاری سے اس پر سرشار ہو تے ہیں کہ آپ اپنے خاص دوستوں کے ہمراہ ایک میز پر پر بیٹھے ہوئے ہیں اور دن بھر کے شدید اجتناب کے بعد، اکٹھے مل کر کھانے سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ دنیا میں بہت سے لوگ اتنے خوش قسمت نہیں ہیں۔

ماہِ رمضان کے مقاصد میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ یاد رکھیں کہ آپ کتنے خوش نصیب ہیں اورکم مایہ لوگوں کی زندگی کو تھوڑا سا بہتر بنانے کی بھی آپ کوشش کر رہے ہیں۔ جب ہم شام کے کھانے سے لطف اندوز ہورہے ہوتے ہیں تو ہماری دعاوَں اور خیرات نے ان لوگوں کااحاطہ کیا ہوتا ہے جن کی شامیں، جنگ، قحط، اور دل شکنی میں ڈھلتی ہیں۔ جیسے ہم اپنے گھروں کے دروازے اور دسترخوان اپنے دوستوں کے لئے کھولتے ہیں ایسے ہی ہم ان کے لئے اپنے دل کشادہ کرتے ہیں۔

متعلقہ عنوان :