خود کو بڑی جمہوریت قرار دینے والے ملک بھارت میں مقامی اور ملٹی نیشنل دوا ساز کمپنیاں بہت سے مجبور اور غریب مریضوں پر نئی ادویہ کے غیر قانونی تجربے کر رہی ہیں۔رپورٹ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعہ 6 مئی 2016 13:52

خود کو بڑی جمہوریت قرار دینے والے ملک بھارت میں مقامی اور ملٹی نیشنل ..

نیویارک(ا ردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔06مئی۔2016ء) خود کو بڑی جمہوریت قرار دینے والے ملک بھارت میں مقامی اور ملٹی نیشنل دوا ساز کمپنیاں بہت سے مجبور اور غریب مریضوں پر نئی ادویہ کے غیر قانونی تجربے کر رہی ہیں۔ اپنے ہی ملک میں نئی ادویہ کی غیر قانونی ٹیسٹنگ کا شکار ہوئے بہت سے مریض ان دنوں اپنے حقوق کے لیے قانونی جنگ لڑ رہے ہیں۔

بھارت میں دوا ساز کمپنیاں اپنی مصنوعات کی میڈیکل ٹیسٹنگ کا کام تیسرے فریق کے طور پر ایسے اداروں کو سونپ دیتی ہیں جن کی طرف سے طبی تحقیق کی قانونی نگرانی کر سکنے کا کوئی انتظام موجود ہی نہیں۔ بھارت میں ادویہ کی ایسی ٹیسٹنگ اب ایک بڑا کاروبار بن چکی ہے۔عالمی نشریاتی ادارے نے بھارتی صنعتوں کی ملکی تنظیم کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ ایسے اقدامات سے دوا ساز کمپنیاں نئی ادویہ کی انسانی مریضوں پر لازمی ٹیسٹنگ کے سلسلے میں طے شدہ مالی وسائل کا قریب 60 فیصد تک حصہ بچا لیتی ہیں۔

(جاری ہے)

ایسا اس طرح کیا جاتا ہے کہ یہ دوا ساز کمپنیاں اپنی مصنوعات کی میڈیکل ٹیسٹنگ کا کام تیسرے فریق کے طور پر ایسے اداروں کو سونپ دیتی ہیں جن کی طرف سے طبی تحقیق کی قانونی نگرانی کر سکنے کا کوئی انتظام موجود ہی نہیں۔وسطی بھارت کی ریاست مدھیہ پردیش کے سب سے بڑے شہر ’اندور‘ میں ادویہ ساز کمپنیوں کے اس غیر قانونی اور غیر انسانی کاروبار کی بھینٹ چڑھنے والے نرجن لال پاٹھک نامی مریض کے بھتیجے الوک پاٹھک نے بتایا کہ پانچ سال قبل اس مریض کے خاندان کو صرف یہ کہا گیا تھا کہ اس کا مفت علاج ایک خصوصی منصوبے کے تحت کیا جائے گا۔

الوک پاٹھک نے کہا، ‘ڈاکٹر نے بس یہ کہا تھا کہ مریض کو ایک پیسہ بھی خرچ نہیں کرنا پڑے گا۔ ہمارے لیے محض ایک شرط رکھی گئی تھی۔ اگر دوائی ختم ہو گئی تو کسی بھی مقامی دوا فروش سے رابطہ نہیں کیا جائے گا بلکہ دوبارہ سیدھا ڈاکٹر سے رجوع کیا جائے گا۔اب اس خاندان کی طرف سے بھارتی سپریم کورٹ میں جو اپیل دائر کی جا چکی ہے، اس میں الزام لگایا گیا ہے کہ نرجن لال پاٹھک پر جس دوائی کا تجربہ کیا گیا، وہ Atopaxar نامی ایسی دوائی تھی جو ایک جاپانی دواساز کمپنی Eisai نے بنائی تھی اور جو طبیعت میں بے چینی کی شکایت کے خلاف تیار کی گئی تھی۔

پاٹھک کی فیملی اور صحت سے متعلقہ حقوق کی ایک تنظیم ہیلتھ رائٹس پلیٹ فارم یا سواستھیا ادھیکار منچ کا کہنا ہے کہ اگر اس مریض کو پہلے بتایا جاتا تو وہ اپنا نام کبھی بھی اس طبی تجربے کے لیے درج نہ کراتا۔ وہ اس بات کو کبھی تسلیم نہ کرتا کہ اسے ایک ایسے دوائی دی جا رہی ہے، جس کا پہلے کبھی کسی مریض پر کوئی تجربہ کیا ہی نہیں گیا تھا۔پاٹھک کے اہل خانہ کا دعویٰ ہے کہ اس دوائی کے ضمنی اثرات کی وجہ سے یہ بھارتی مریض ڈیمنشیا کا شکار بھی ہو گیا تھا۔

الوک پاٹھک کا کہنا ہے، ‘اب میرا چچا ہمیں تقریبا پہچانتا ہی نہیں۔ اس کی زندگی ختم ہو گئی ہے، اور ہماری اسے دوبارہ صحت مند اور خوش دیکھنے کی ساری امیدیں بھی۔بھارت میں اس غیر قانونی رحجان کے خلاف جدوجہد کرنے والے افراد اور تنظیموں کا کہنا ہے کہ ایسا کرتے ہوئے متعلقہ دوا ساز اور ریسرچ ادارے اور ان کے کارکن بھارتی قوانین میں پائی جانے والی خامیوں اور پچھلے راستوں کو اپنے مالی فوائد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

متعلقہ عنوان :