پاکستان اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا ،18کروڑ غیورعوام کسی صورت سرزمین پاک کوامریکہ ، مغرب کی ایما پر لبرل ،سیکولر مقاصد کیلئے استعمال نہیں ہونے دینگے،مولانا سمیع الحق

پاکستان کے تمام مسائل ،بحرانوں کا حل شریعت محمدیﷺ کا نفاذ ہے ،عوام بندوق اٹھائے بغیر پرامن جمہوری ،آئینی جدوجہد کے ذریعہ ملک میں اسلامی نافذ کراکے رہیں گے،دارالعلوم جامعہ حقانیہ میں تقریب دستار بندی ،ختم بخاری شریف سے خطاب

جمعرات 5 مئی 2016 20:28

اکوڑہ خٹک (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔05 مئی۔2016ء) جمعیت علماء اسلام کے امیر اور دارالعلوم حقانیہ کے چانسلر مولانا سمیع الحق نے کہاہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا ہے اور اس کے18کروڑ غیورعوام کسی بھی صورت اس سرزمین پاک کوامریکہ اور مغرب کے ایما پر لبرل اور سیکولر مقاصد کے لئے استعمال نہیں ہونے دیں گے انہوں نے کہا کہ پاکستان کے تمام مسائل اور بحرانوں کا حل شریعت محمدی کا نفاذ ہے اورپاکستان کے18کروڑ عوام بندوق اٹھائے بغیر پرامن جمہوری اور آئینی جدوجہد کے ذریعہ اس ملک میں اسلامی نافذ کراکے رہیں گے۔

انہوں نے ان خیالات کا اظہاربین الاقوامی شہرت یافتہ دارالعلوم جامعہ حقانیہ کی تقریب دستار بندی اور تقریب ختم بخاری سے خطاب کے دوران کیا جس میں ملک بھر سے ہزاروں علماء مشائخ، طلبہ اور مسلمانوں نے شرکت کی اورتقریب میں پندرہ سو سے زائدعلماء فضلاء اور حفاظ کرام کی دستار بندی کی گئی ۔

(جاری ہے)

اس موقع پر دارالعلوم حقانیہ کے نائب مہتمم مولانا انوار الحق ،جمعیۃ علماء پاکستان کے مولانا اویس نورانی،صدر ضیاء الحق شہید کے فرزند اعجاز الحق اور اساتذہ دارالعلوم مولانا مغفو راﷲ ،مولانا عبدالحلیم دیر بابا،لبنان کے شیخ محسن ،مولانا پیر عزیزالرحمن ہزاروی، سابقہ وزیرتعلیم مولانا فضل علی حقانی ،مولانا حامد الحق حقانی، شیخ ادریس ، مولانا عبدالخالق راولپنڈی مولانا سید یوسف شاہ ،مولانا عبدالقیوم حقانی اوردیگر نے بھی خطاب کیا۔

مولانا سمیع الحق نے کہا کہ دنیا اولمپک کی شمع جلائے رکھنے اور اسے اوروں تک پہنچانے کیلئے کیا کیا جتن کر رہی ہے اسی طرح ہمیں شمع محمدی کوتمام طوفانوں سے بچا کر روشن رکھنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر حکمرانوں نے ملک کی بنیادی اساس،عوام کو درپیش مسائل اور پاکستان کے بنیاد اسلامی نظریہ اور اسلامائزیشن پر توجہ دی ہوتی تو آج ہم قتل وغارتگری ‘ تشدد اور انتہا پسندی جیسے دلدلوں میں نہ پھنسے ہوتے او رنہ ہماری افواج کو آپریشن کرنے کی نوبت آتی انہوں نے کہا کہ تشدد اور قوت کا استعمال موجودہ مشکلات کا حل نہیں۔

مولانا سمیع الحق نے کہا کہ یہ امر افسوسناک ہے کہ پاکستان کو درپیش نازک ترین چیلنجوں کے موقع پر حکمران اور تمام سیاستدان سرد مہری اور چپ سادھ کر بیرون ممالک کے سیر سپاٹوں میں مصروف ہیں، مولانا نے کہاکہ یہ وقت پوری قوم کو سد سکندری بن جانے کا ہے اور ایسے وقت میں گروہی اور فرقہ ورانہ لڑائیوں اور باہمی جنگ و جدال کا ملک متحمل نہیں ہو سکتا ۔

مولانا سمیع الحق نے کہاکہ اسوقت عالم کفر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف متحد ہوچکا ہے۔ اس کا مقابلہ صرف دینی قوتوں اور پوری امت مسلمہ کے اتحاد سے کیا جاسکتا ہے علماء کرام اور دین کے طلباء ‘ دینی قوتیں ملت کی بقاء ‘امت کی سلامتی مذہب کی حفاظت ‘ پاکستان اور عالم اسلام کی آزادی کی جنگ لڑ رہی ہیں ۔مولانا سمیع الحق نے فارغ التحصیل ہونے والے فضلاء اور ہزاروں علماء کو درپیش چیلنجوں سے متعارف کرایا اور کہا کہ اسلام کے بارے میں مغرب کے منفی اور جھوٹے پروپیگنڈہ کا توڑ کرنے کیلئے اسلام کی اصل عادلانہ تصویر پیش کرنی چاہیے ‘ اسلام دہشت گردی کا نہیں بلکہ امن کا ضامن اور انسانیت کی نجات کا پیغام ہے ۔

مولانا سمیع الحق نے کہا کہ امریکہ نہ افغانستان سے اسلام اور بنیاد پرست ختم کرسکا ہے نہ وہ عراق شام اور پاکستان میں کامیاب ہوگا ‘ پاکستان دنیا میں اسلام کا قلعہ ہے ‘ سیکولر عناصر کے عزائم خاک میں ملا دئیے جائیں گے مولانا سمیع الحق نے پوری امت کے اسلامی تشخص اور آزادی و سا لمیت کیلئے دنیا بھرکے علما اور دینی قوتوں کے وحدت اور یکجہتی پرزور دیا اور کہا کہ اس فیصلہ کن معرکہ میں اصل کردار حکمران اور سیاستدان نے نہیں رسول اکرم کے وارثین اور علم نبوت کے حاملین نے ادا کرنا ہے ۔

مولانا سمیع الحق نے کہا کہ مدارس کے خلاف عالم کفر کا اتحاد بے معنی نہیں وہ مسلمانوں کو ان کی اصل تعلیمات سے محروم کرنا چاہتے ہیں۔ اگر حکمرانوں نے ان کے سامنے گھٹنے ٹیک دئیے تو خدانخواستہ یہ ملک تاشقند اور سمرقند بن جائے گایاپھر یہاں شام او رعراق کی طرح خانہ جنگی پیدا ہوجائے گی۔انہوں نے کہا کہ مدارس اپنے طور پر تمام اصلاحات کررہے ہیں،تمام جدید تقاضوں کے مضامین ہمارے نصاب میں شامل ہیں۔

حکومت کو اس صورتحال میں زور اور جبر کی بجائے ارباب مدارس سے مذاکرات اور افہام و تفہیم کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ مولانا سمیع الحق نے کہا کہ اس وقت پاکستان میں تعلیم کا بھرم صرف دینی مدارس سے قائم ہے‘ حکمرانوں سے 65 سال میں اپنے تعلیمی نظام اور نصاب کی اصلاح نہ ہوسکی‘ اور اسے بالاخر اسلام دشمن بورڈوں کو ٹھیکے پر دے دیا جو ہمارے تعلیمی نظام سے اسلامی اثرات اور تعلیمات کو چن چن کر نکال رہے ہیں مگر پاکستان میں یہ کوششیں ہرگز کامیاب نہیں ہوسکیں گی۔

اس تقریب میں مہتمم جامعہ حقانیہ مولانا سمیع الحق نے فارغ التحصیل ہونے والے فضلاء سے حلف اٹھوایا جس میں انہیں زندگی اسلام کی خدمت اور عالم اسلام کی سربلندی کے لئے وقف کرنے کا عہد کیا۔ مولانا سمیع الحق نے کہاکہ امریکہ افغانستان سے جاتے جاتے پاکستان کو میدان جنگ بنانا چاہتا ہے۔ اس لئے سب کو چوکنا رہنا ہوگا۔ انہوں نے کہاکہ انقلاب اورتبدیلی کے نعروں میں حقیقت نہیں،انقلاب محمدی کے سوا کوئی انقلاب دیرپا اور کامیاب نہیں ہوسکتا۔

ہم نے ہمیشہ شریعت کی جنگ لڑی ہے اور شریعت کے ذریعے اس ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے۔مولانا سمیع الحق نے کہاکہ اس وقت سب سے اہم مسئلہ پاکستان کے اسلامی تشخص اور نظریاتی حیثیت کا تحفظ اورا س کو غیروں کے تسلط سے نکالنا ہے،لبرل اور سیکولر بنانے کی کوششوں اور سازشوں کے سامنے بند باندھنا پوری پاکستانی قوم کا فریضہ ہے۔اصل مسئلہ حکمرانوں کا رسوائے زمانہ کرپشن اور عالمی سکینڈل ہیں، بے ضرر اور بے بس علماء طلبا ائمہ مساجد پر ظلم اور بے جا قید وبند کے نتیجہ میں حکمرانوں پر پاناما لیکس جیسی آفتیں نازل ہورہی ہیں،پوری قوم کو رسوائے زمانہ کرپشن سیکنڈلوں کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا چاہیے ۔

مولاناسمیع الحق نے کہاکہ تحفظ خواتین بل جیسے تمام لادینی اقدامات پرحکومت سے مذاکرات اور کمیٹیوں کے چکر میں پڑنے والے احمقوں کی جنت میں سو رہے ہیں ، ان حالات میں دینی اور محب وطن قوتوں کو ۷۷ء جیسے تحریک نظام مصطفی کے لئے تیار ہونا پڑے گا ۔مولانا سمیع الحق نے بخاری شریف کی آخری حدیث کی تشریح کرتے ہوئے کہاکہ اﷲ تعالیٰ نے اس کائنات کا سارا نظم میزان اور وزن سے وابستہ کیا ہے کوئی بھی انسانی نظام مادہ پرستی ،شوشلزم ،کمیونزم ،کیپٹل ازم، لبرل ازم کے فرسودہ نظام پر پورا نہیں اترتا ۔

جمعیت علماء اسلام کے مرکزی نائب صدر مولانا حامد الحق حقانی نے متفقہ قرارداد کے نکات سناتے ہوئے کہاکہ (۱) ہم شام میں ہزاروں مسلمانوں کی ظالمانہ قتل عام کی بھرپور مذمت کرتے ہیں (۲) شام میں فوری طور پر جنگ بندی کا اعلان کیا جائے اور مسئلے کا مذاکراتی حل نکالا جائے (۳) انسانی حقوق کی تنظمیں اپنے دوغلے معیار کو ترک کرکے شام، فلسطین ،کشمیر اور افغانستان برما میں معصوم مسلمان بچوں اور عورتوں کے قتل عام کو روک دیں۔

(۴) یہ اجتماع افغانستان کے سربراہ اشرف غنی کے پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کو مسترد کرتا ہے۔ (۵) حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ افغانستان کی آزادی کے لئے پاکستان نے تاریخی کردار ادا کیا ہے ،افغانستان کے طالبان آزادی کی اس جدوجہد کو منزل تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ پاکستان اپنی سابقہ پالیسی پر کاربند رہ کر ان کے بارہ میں بیرونی دباؤ کو نظرانداز کرتے ہوئے طالبان سے اپنے اعتماد کے رشتوں کو مجروح نہ کرے۔

(۶) یہ اجتماع پاکستان کے بارہ میں غیر اسلامی اقدامات اور بیرونی ایجنڈا پر اسے لبرل اور سیکولر جمہوریہ بنانے کے ارادوں کی شدید مذمت کرتا ہے ، اور لاکھوں کا یہ مجمع عہد کرتا ہے کہ اس ملک کے اسلامی تشخص کو ہرحال میں برقرار رکھا جائے گا۔(۷) یہ عظیم اجتماع دینی مدارس کے بارہ میں حکمرانوں کی اسلام دشمن پالیسیوں اور علماء وطلبا مدارس کے پکڑ دھکڑ کی شدید مذمت کرتا ہے ، مدارس امن و سلامتی کے گہوارے ہیں، مدارس کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں۔(۸) یہ اجتماع وفاق المدارس العربیہ سے حکومت کے مذاکرات کے نتیجہ میں طے شدہ فیصلوں کو فوری عملی شکل دی جائے اور مدارس پر چھاپوں اور طرح طرح کے پریشان کرنے کا سلسلہ فوری روک دیا جائے۔