سپریم کورٹ نے لاہور اور فیصل آباد میں قتل کے دو مقدمات میں عمر قید کی سزا پانیوالے تین ملزموں کو بری کر دیا

جمعرات 5 مئی 2016 19:22

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔05 مئی۔2016ء ) سپریم کورٹ نے لاہور اور فیصل آبا د میں قتل کے دو الگ الگ مقدمات میں عمر قید کی سزا پانے والے تین ملزمان کی اپیلیں منظور کرتے ہوئے انہیں بری کردیاہے ،جبکہ کہ مدعیوں کی جانب سے سزا میں اضافے کے لیے دائر درخواستیں خارج کر دی ہیں۔ دوران سماعت جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ انصاف کی فراہمی جج کا فرض ہے ،اللہ کہتا ہے جب حق اور سچ آ جائے تو جھوٹ مٹ جاتا ہے ، جھوٹ مٹنے کے لیے ہی ہے ، مقدمات میں جھوٹ کو شامل کر کے شک کی گنجائش پیدا ہوتی ہے ، عدالتیں جب کسی مقدمے میں شکوک میں پڑ جائیں تو اس کا فائدہ ملزم کو ہی ہوتا ہے ، مدعی کی جانب سے ایف آئی آر میں جو لکھوایا جاتا ہے ، اسے ثابت بھی کرنا پڑھتا ہے ، لیکن اکثر مقدمات میں جو لکھا جاتا اس کا سر پاؤں ہی نہیں ہوتا ۔

(جاری ہے)

دونوں مقدمات کی سماعت جمعرات کو جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس فائزعیسیٰ اور جسٹس طارق پرویز پر مشتمل بنچ نے کی ، مقدمہ کی سماعت شروع ہوئی تو فیصل آباد کے علاقے مدینہ ٹاؤن سے تعلق رکھنے والے ملزم مشتاق احمد کے وکیل احسن حمید ایڈوکیٹ پیش ہوئے اور دلائل دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ میرے موکل کو ایک لڑکی کو قتل کرنے کے الزام میں ٹرائل کورٹ سے پھانسی اور ہائی کورٹ سے عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے ، مقدمہ کا مدعی پہلے ملزم کی والدہ کے قتل میں خود ملزم رہے چکا ہے ، مقدمہ میں گواہ جو بنائے گے ان پر بھی شکوک ہیں ، انکی پوزیشن بھی کلیئر نہیں ، ہائی کورٹ نے شکوک کے باوجود سزا کو ختم کرنے کے بجائے عمر قید میں تبدیل کیا ، واقع فجر کی نماز کے بعد کا رپورٹ کیا گیا ہے ، اور جو گواہ بنایا گیا وہ ایک را ہگیر ہے جس نے بتایا کہ وہ پراپرٹی ڈیلر سے ملاقات کے لیے جا رہا تھا ، تو یہ وقوعہ ہوتے دیکھا جبکہ ایف آئی آر میں دیگر گواہوں کے بھی نام لکھے گئے جنہیں بعد میں پیش نہیں کیا گیا، دیگر گواہوں میں مقتولہ کے والد ، بھائی شامل ہیں ۔

مدعی علاقے کا سابق ناظم رہے چکا ہے اور پولیس کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں ، ایف آئی آر کے مطابق لڑکی دروازہ کھولنے گئی اور ملزم نے اس پر گولی چلا دی جبکہ باقی گھر کے مر د اس وقت قران پاک کی تلاوت کر رہے تھے ، اس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے مدعی کے وکیل سید زہد حسین بخاری سے استفسار کیا کہ گھر میں مردوں کی موجودگی کے باوجود خاتوں دروازہ کھولنے کیوں گئی ؟ اس پر وکیل نے موقف اختیار کیا کہ مر دقران پاک کی تلاوت میں مصروف تھے ، فائر کی آواز سن کر باہر آئے ہونگے ،مدعی کے بارے میں جو کہا گیا کہ وہ خود ملزم کے والدہ کے قتل کے الزام میں زیر تفتیش رہے چکاہے یہ سچ ہے مدعی کو نامزد کیا گیا تھا قتل کے مقدمے میں تاہم وہ بری ہو گئے تھے الزام سے ،جسٹس آصف سعید کھوسہ نے مدعی کے وکیل سے استفسار کیا کہ ایف آئی آ ر کے مطابق مقتولہ کے والد اور بھائیوں نے وقوعہ ہوتے دیکھا ہے ، جبکہ اس مقدمہ میں جو گواہ پیش کیا گیا وہ ایک راہ گیر ہے جو فجر کی نماز کے بعد پراپرٹی ڈیلر سے ملاقات کے لیے جا رہا تھا موقع پر موجود گواہوں کے باوجود باہر کے گواہ کو پیش کرنے کی کیا ضرورت پیش آئی ،اس پر مدعی کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ مدعی کو ملزم کا دشمن سمجھا جاتا ہے ، مدعی ملزم کی والدہ کے مقدمہ میں نامزد رہے چکا ہے ، جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ یہاں لوگ اپنے آپ کو دانشور ، عالم اور سماجی کارکن کہتے ہیں ، ملک میں ہر کوئی سماجی کارکن ہے لیکن حقیقی عالم یا دانشور اپنے آپ کو عالم اور سماجی کارکن کوئی نہیں کہتا ،لیکن ایسے لوگ بھی اپنے آپکو دانشور اور عالم کہتے ہیں جو قتل کے مقدمات میں نامزد ہو چکے ہوں ، اللہ کہتا ہے جب حق اور سچ آ جائے ، جھوٹ مٹ جاتا ہے ،جھوٹ مٹنے کے لیے ہے ،سچ میں بڑی طاقت ہے ایف آئی آر میں جو مدعی کی جانب سے لکھا جاتا ہے اس ثابت کرنا پڑتا ہے ، مقدمات میں جھو ٹ شامل ہونے سے شک پیدا ہوتا ہے اور شک کا سارا فائدہ ملزم کو ہوتا ہے۔

ہو سکتا ہے اس مقدمے میں ملزم کو صرف اس لیے نامزد کیا گیا ہو کہ مجھے جھوٹے مقدمے میں ملوث کیا تھا اس کو بھی کر لوں قتل کسی اور نے کیا ہو ، اس پر مدعی کے وکیل نے کہا کہ ملزم کا صرف ایک ہی مقصد تھا کہ اس گھر کے کسی فر د کو نشانہ بناؤں ،لڑکی اس کے سامنے آگئی اس لیے اس نے قتل کردیا ، اس پر جسٹس آصف سعید نے ریمارکس دیئے کہ جب کسی مقدمے میں سقم چھوڑ دیئے جاتے ہیں تو عدالتیں احتیات سے کام لیتی ہیں ، جج کو معلوم ہوجاتا ہے کہ اس مقدمے میں سب اچھا نہیں ہے ،اسلامی ملک میں رہتے ہیں ،اپنے آپکو مسلمان بھی کہا جاتا ہے ، لیکن سچ بولنے کی کسی میں جرات نہیں ، اس مقدمہ میں بھی سچ کو چھپایا گیا یا بولا نہیں گیا ، دریں اثناء ایڈیشنل پراسکیوٹر جنرل پنجاب چوہدری عبدالرحمان کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے ملزم کی اپیل منظور کرتے ہوئے ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے کر بری کرنے کا حکم دیدیا جبکہ مدعی کی جانب سے سزا میں اضافے کی درخواست کو خارج کر دیا گیا ۔

علاوہ ازیں بہارہ کہو کے رہائشی عبدالحفیظ کو لاہور میں قتل کرنے کے الزام میں عمر قید کی سزا پانے والے تین ملزمان نصراللہ؛سخی سلطان اور رانا محمد ثروت ایوب کی سزا میں اضافے کی درخواست پر سماعت ہوئی ملزمان کی جانب سے صدیق بلوچ ایڈکیٹ پیش ہوئے اور دلائل دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ مدعی جن ملزمان کی سزا بڑانے کی استدعا کر رہا ہے اس مقدمہ کا مرکزی ملزم رانا محمد ثروت ایوب عمر قید پوری کر چکا ہے ااور جیل میں انتقال بھی کر گیا ہے ، جبکہ دیگر ملزمان عمر قید پوری کر کے بری ہو چکے ہیں ،جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ اب ملزم ہمارے پاس نہیں رہا اس لیے سزا نہیں دے سکتے ، عدالت نے مرکزی ملزم کی ہلاکت کے باعث ملزمان کی سزا میں اضافے کی درخواست خارج کر دی جبکہ ملزمان کو ہائی کورٹ سے سنائی گئی عمر قید کی سزا کو برقرار رکھا ہے ، لاہور ہائی کورٹ نے 2009میں ناقص تفتیش اورثبوت نہ ہونے پرملزمان کو بری کردیا تھا،ملزم،نصراللہ؛سخی سلطان اور رانا محمدثروت ایوب نے زاہد حفیظ کوبہارہ کہو سے اغواکرکے لاہور میں قتل کیا ،واضح رہے کہ امریکی نژاد پاکستانی ملزم رانا محمد ثروت نے بہارہ کہو میں اپنے میزبان کو اغواء کیا تاہم تاوان کی رقم نہ دینے پر میزبان عبدالحفیظ کو قتل کر دیا تھا ، جبکہ ملزم اپیل سپریم کورٹ میں پینڈنگ ہونے کی وجہ سے جیل میں انتقال کرگیاتھا۔