نیئر بخاری کے خلاف مقدمہ افسوسناک ہے ، 3 دنوں میں ایف آئی آر واپس نہ لی گئی تو وکلا راست اقدام اٹھائینگے

اسلام آباد بار کونسل کے وائس چیئرمین قاضی رفیع الدین بابر ،اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے صدر طارق جہانگیر ی ،صدر ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن طیب شاہ اور دیگر کا مشترکہ بیان

بدھ 4 مئی 2016 22:07

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔04 مئی۔2016ء) اسلام آباد بار کونسل کے وائس چیئرمین قاضی رفیع الدین بابر ،ممبر بار کونسل ہارون الرشید ،اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے صدر طارق محمود جہانگیر ی ،سابق صدر علیم عباسی صدر ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر سید طیب شاہ ایڈوکیٹ نے سابق چیئرمین سینیٹ سید نیئر حسین بخاری کے خلاف مقدمے کے اندراج کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے کہاہے کہ پولیس نے مقدمہ درج کر کے قانون کا ناجائز استعمال کیا ہے ،تین دنوں میں ایف آئی آر واپس نہ لی گئی تو وکلاء برادری راست اقدام اٹھانے پر مجبور ہو جائے گی ۔

بدھ کو اپنے مشترکہ بیان میں ڈسٹرکٹ بار کے صدر سید محمد طیب شاہ ایڈوکیٹ و دیگر وکلاء رہنماؤں نے سابق چیئرمین سینٹ سید نیئر حسین بخاری کے خلاف مقدمہ کے اندراج کے واقع کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ نیئر بخاری بار کے سینئر ممبر ہیں پولیس نے مقدمہ درج کر کے قانون کی خلاف ورزی کی ہے ۔

(جاری ہے)

وکلاء رہنماوں نے کہا کہ سید نیئر بخاری کے ایک ملازم اور ایک سادہ پار چاتی پولیس ملازم کے درمیان ہونے والے واقعہ سے بار کے ممبر کا براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے واقعہ غلط فہمی اور نادانستگی میں ہوا تھا جس کو کی کابینہ نے رفعہ دفعہ کروا دیا تھا ۔

وکلاء رہنماوں نے کہا کہ اس معاملے کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنا افسوس ناک ہے ۔انہوں نے کہا کہ وکلاء قانون کا احترام کرتے ہیں اور قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں سے ناانصافی کا سوچ بھی نہیں سکتے ۔وکلاء رہنماوں نے کہا کہ عجلت میں ایف آئی آر کا اندراج اس بات کا غمازی ہے کہ کوئی شخص اس معاملے کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کر رہا ہے ۔

وکلاء نے وزیر اعظم سے معاملے کا نوٹس لینے کا بھی مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ درج ایف آئی آر واپس لی جائے اور ذمہ داروں کے خلاف کاروائی کی جائے انہوں نے کہا کہ اگر ایف آئی آر دو دنوں میں واپس نہ لی گئی تو وکلاء راست اقدام پر مجبور ہو جائیں گے انہوں نے کہا کہ سینکٹروں سائیلن ایف آئی آر کے اندراج کے لئے تھانوں کے چکر لگاتے ہیں اور آخر کار ان کو عدالت سے رجوع کرنا پڑتا ہے ۔وکلاء نے کہا کہ اس واقعہ کو اچھال کر سیاسی مقاصد حاصل کرنے کی کوشیش کی جا رہی ہے جس کی وکلاء برادری مذمت کرتی ہے ۔

متعلقہ عنوان :