پانامہ لیکس تحقیقات ، اپوزیشن کے ٹی اوآر ز کی نسبت حکومتی ٹی او آرز میں تحقیقات کا دائرہ کار زیادہ وسیع

حکومتی ٹی او آرز میں تحقیقاتی کمیشن قانون توڑنے والوں کا تعین کریگا، اپنی سفارشات دے گا، اپوزیشن کے ٹی او آرز میں تحقیقاتی کمیشن کو قانون توڑنے والوں کا تعین کرنے اور اپنی سفارشات دینے کا پابند نہیں کیا گیا

بدھ 4 مئی 2016 22:01

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔04 مئی۔2016ء) پانامہ لیکس کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل میں اپوزیشن کے ٹی اوار ز کی نسبت حکومتی ٹی او آرزمیں تحقیقات کا دائرہ کار زیادہ وسیع رکھا گیا ہے،اپوزیشن کے ٹی او آرزمیں تحقیقات صر ف پانامہ کی آف شور کمپنیوں تک محدود ہے جبکہ حکومتی ٹی او آرزمیں تحقیقات کا دائر ہ کار پانامہ سمیت دنیا بھر میں آف شور کمپنیوں تک ہے ،اسی طرح اپوزیشن نے تحقیقات کا دائرہ کار صرف پاکستانیوں تک محدود رکھا ہے جبکہ حکومتی ٹی او آرزمیں پاکستانیوں سمیت پاکستان سے منسلک دیگرلوگوں اور کمپنیوں بارے تحقیقات کا کہا گیا ہے، اسی طرح حکومتی ٹی او ارز میں تحقیقاتی کمیشن کے ممبران کی تعداد کا فیصلہ چیف جسٹس آف پاکستان کریں گے،یعنی کہ کمیشن کے ارکان کی تعداد ایک، دو،تین،پانچ یا اس سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے جبکہ اپوزیشن کے ٹی او ارز میں تحقیقاتی کمیشن کے ممبران کی تعداد صرف تین ہوگی۔

(جاری ہے)

حکومتی ٹی او ارز میں پانامہ اور دیگر ممالک میں رجسٹرڈ آف شور کمپنیاں شامل ہیں،سیاسی اثرورسوخ سے بنکوں کے قرضہ جات کی معافی اور حکومتی کاموں میں بدعنوانی (کمیشن،رشوت) وغیرہ شامل ہیں،اور اپوزیشن کے ٹی او ارز میں صرف پانامہ میں رجسٹرڈ کمپنیاں شامل ہیں۔دیگر ممالک کی کمپنیاں اور قرضہ جات کی معافی اور بدعنوانی وغیرہ کو نکال دیا گیاہے،اسی طرح حکومتی ٹی او ارز میں تحقیقاتی کمیشن الزامات کی تحقیق کرے گا اور پھر انصاف کے مطابق فیصلہ کرے گا،جبکہ اپو زیشن کے ٹی او ارز میں ابتدائیہ میں الزام کو جرم بنادیا گیا ہے( متعلقہ فرد نے جرم کرلیاہے،قانون توڑ لیا ہے ٹیکس چوری کر لیا ہے،یہ انصاف کے تمام مسلمہ اصولوں کے خلاف ہے۔

حکومتی ٹی او ارز میں تحقیقاتی کمیشن قانون توڑنے والوں کا تعین کرے گا اور اپنی سفارشات دے گا جبکہ اپوزیشن کے ٹی او ارز میں تحقیقاتی کمیشن کو قانون توڑنے والوں کا تعین کرنے اور اپنی سفارشات دینے کا پابند نہیں کیا گیا،حکومتی ٹی او ارز میں تحقیقاتی کمیشن دنیا کے تسلیم شدہ قانون شہادت پر کام کرے گا ار ہر ملزم کے خلاف شواہد کی بنیاد پر فیصلہ کرے گا،اور اپوزیشن کے ٹی او ارز میں 6تحقیق سے پہلے بار ثبوت مجرم قرار دینا اور اپنی بے گناہ ثابت کرنا صرف آئین پاکستان کے خلاف بلکہ بین الاقوامی مودہ انسانی حقوق سے بھی مطابقت نہیں رکھتا۔

تحقیقات 1985سے شروع کی جائیں گی،یہ صرف وزیراعظم صاحب کو نشانہ بنانے کیلئے کیا گیا ہے۔یہ طے کردیا گیا ہے کہ کمیشن کا کیا اختیار ہوگا،کمیشن کے صوابدید پر منحصر ہے کہ وہ کس سے کیا سوال کرے،سپریم کورٹ کے ججز کویہ بتانا کہ وہ کس سے کیا سوال کریں نہایت غیر مناسب ہوگا۔قانون کی کچھ شقیں انسانی حقوق کے خلاف ہے خاص طور پر یہ قانون آئین کی دفعات 4(a)10,13.23.25کے خلاف ہیں۔

حکومتی ٹی او ارز میں تحقیقاتی کمیشن پر منحصر ہوگا کہ تحقیقات کا دائرہ کتنے عرصہ پر محیط ہوگا،کمیشن اپنی تحقیقات 1970یا1980یا1990وغیرہ سے شروع کر سکتی ہے۔ تحقیقاتی کمیشن اپنا طریقہ کار خود طے کرے گا اور یہ کمیشن کا صوابدیدی اختیار ہوگا کہ کیا سوال کرنے ہیں اور کس سے کرنے ہیں،اس طرح کمیشن کے اختیارات لامحدود ہیں، کمیشن کے اختیارات پاکستان کے آئین میں متعین انسانی حقوق کے مطابق ہیں۔