Live Updates

حکومت نے اپوزیشن کے موجودہ ٹی او آرز مسترد کر دیئے،نئے ٹرمز آف ریفرنس مل بیٹھ کر تیار کرنے کی پیشکش

حزب اختلاف کے ٹی او آرزاینٹی نواز شریف ہیں،ان کا مقصد اپنوں کو بچانا اور وزیراعظم کو پھنسانا ہے،ایسے ٹی او آرز پر مایوسی ہوئی،ثالث کے طور پر سپریم کورٹ کو قبول کیا،ٹی او آرز کا ہدف ایک شخص نہیں بلکہ کرپشن ہونا چاہیے، آئندہ اسمبلی سیشن میں پارلیمنٹیرینزکیلئے اخلاقیات کمیٹی بنانیکی تجویزپیش کرونگا ، عمران خان کا جلسوں میں خواتین سے بدتمیزی کے معاملے پر پولیس پر الزام بے بنیاد ہے،معاملے کی تحقیقات کیلئے انتظامیہ، نادرا،میڈیا اور اپوزیشن کے اراکین پر مشتمل کمیٹی بنانے کی پیشکش کرتا ہوں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی وزیر قانون زاہد حامد اور وزیر اعظم کے مشیر بیرسٹر ظفر اﷲ کے ہمراہ میڈیا کو بریفنگ

بدھ 4 مئی 2016 19:37

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔04 مئی۔2016ء) وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے پانامہ لیکس کی تحقیقات کے لئے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل بارے اپوزیشن کے ٹی او آرز کو انٹی نوازشریف قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا اور پیشکش کی کہ حزب اختلاف آئے حکومت کے ساتھ بیٹھیں ہم نئے ٹی او آرز پر بات کرنے کیلئے تیار ہیں، کچھ لو اور کچھ دو کے تحت متفقہ ٹی او آرز بنائے جائیں، موجودہ ٹی او آرز کے ذریعے اپوزیشن اپنوں کو بچانا اور وزیراعظم کو پھنسانااور ہر طرف سے گھیرنا چاہتی ہے ، یہ ٹی او آرز پو را منشور ہیں جن پر مایوسی ہوئی ،ثالث کے طور پر ہم نے سپریم کورٹ کو قبول کرلیا ہے، اپوزیشن کے ساتھ اتفاق نہ ہو اتو کیس آگے نہیں بڑھ سکتا، آئندہ اسمبلی سیشن میں پارلیمنٹیرینزکیلئے اخلاقیات کمیٹی بنانیکی تجویزپیش کرونگا ،ٹی او آرز کا ہدف کرپشن ہونا چاہیے ایک شخص نہیں،ٹی او آرز میں ایک تیر سے دو شکار کئے جا رہے ہیں، عمران خان کا جلسوں میں خواتین سے بدتمیزی کے معاملے پر پولیس پر الزام بے بنیاد ہے، انتظامیہ، نادرا،میڈیا اور اپوزیشن کے اراکین پر مشتمل کمیٹی بنانے کی پیشکش کرتا ہوں جو معاملے کی تحقیقات کرے کہ جلسوں میں خواتین سے بدتمیزی کرنے والے مسلم لیگ (ن) کے تھے یا تحریک انصاف کے،اگر کسی کو ٹھڈا بھی لگ جائے تو الزام حکومت پر لگا دیا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

وہ بدھ کو یہاں پنجاب ہاؤس میں وزیر قانون زاہد حامد اور وزیراعظم کے مشیرقانون بیرسٹر ظفر اﷲ خان کے ہمراہ اپوزیشن کے ٹی او آرز کے حوالے سے حکومت کے موقف پر میڈیا کو بریفنگ دے رہے تھے۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ پانامہ لیکس پر حکومت نے فیصلہ کیا کہ واضح موقف قوم کے سامنے رکھا جائے، پانامہ لیکس میں دنیا بھر کے حکمرانوں اور کاروباری افراد کا ذکر تھا، صرف وزیراعظم نواز شریف کے خاندان کا نام نہیں کئی بڑے لمکوں کے سربراہوں کا نام آیا، وزیراعظم نواز شریف پوری دنیا میں پہلے حکمران تھے جنہوں نے پانامہ لیکس پر ایکشن لیا اور کمیشن کے قیام کا اعلان کیا، اپوزیشن کے احتجاج اور بات کرنے سے پہلے وزیراعظم قوم سے مخاطب ہوئے، بعض وزراء کا خیال تھا کہ پانامہ لیکس میں وزیراعظم کا نام نہیں، وزیراعظم کے قوم سے خطاب سے اس معاملے کو بلا وجہ شہرت حاصل ہو گی لیکن وزیراعظم بضد تھے کہ ہمیں کچھ چھپانا نہیں ہے، ہمیں اس معاملے کی آزاد اور شفاف تحقیقات کرانی ہیں، بجائے اس کے کہ یہ مسئلہ پیچھا کرتا رہے بہتر ہے کہ اس معاملے پر قوم سے خطاب کروں اور کمیشن بنایا جائے۔

وزیرداخلہ نے کہا کہ وزیراعظم کے اعلان کے بعد کمیشن کی سربراہی کیلئے سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ناصر الملک ،تصدیق جیلانی، جسٹس(ر)سائر علی سمیت کئی معزز (ر)ججز سے رابطے کئے ، اگر حکومت کا یہ معاملہ چھپانے کا ارادہ ہوتا تو اتنے سینئرججز سے رابطے نہ کئے جاتے، ان ریٹائرڈ ججز پر پوری قوم کو اعتماد تھا لیکن اس کے بعد اپوزیشن کی طرف سے اتنا شور و غل کیا گیا کہ معاملہ انجام کو نہ پہنچ سکا، کچھ ججز نے سوچنے کیلئے وقت مانگا لیکن میڈیا پر چلنے والے شور کے باعث انہوں نے ایک ایک کر کے معذرت کرلی، اس کے بعد اپوزیشن نے طوفان بدتمیزی برپا کر دیا۔

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کی طرف سے کہا گیا کہ ایف آئی اے معاملے کی کیوں تحقیقات نہیں کرتی، جس پر میں نے اعلان کیا کہ ایف آئی اے تحقیقات کیلئے تیار ہے، میں نے عمران خان کو دعوت دی کہ ان کے من پسند ایف آئی اے افسر سے تحقیقات کرالیتے ہیں جو ہماری نیک نیتی کا ثبوت ہے، لیکن میرے اعلان کے بعد اپوزیشن اس معاملے سے پیچھے ہٹ گئی اور پانامہ لیکس کی تحقیقات کیلئے پارلیمانی کمیٹی کے قیام کا اعلان کیا، حکومت اس پر بھی راضی ہو گئی تو اپوزیشن اس مطالبے سے بھی پیچھے ہٹ گئی، بعد میں ہر طرف سے آواز آنے لگی کہ پانامہ لیکس کی تحقیقات کیلئے چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم کمیشن کے علاوہ کوئی آپشن قبول نہیں اور حکومت چیف جسٹس کو پانامہ لیکس کے معاملے پر کمیشن کے قیام کیلئے خط لکھ، بالآخر حکومت اس پر بھی راضی ہو گئی، حکومت نے چیف جسٹس کو خط لکھ دیا ، وزیراعظم کے خاندان سمیت احتساب کیلئے سپریم کورٹ کے سامنے پیش کئے جانے پر امید تھی کہ اب الزام تراشی، بہتان اور میڈیا ٹرائل کا سلسلہ بند ہو جائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا، ہمارا موقف تھا کہ اس کیس کو بہتان تراشی اور میڈیا ٹرائل کی نظر نہیں ہونا چاہیے، اس ملک کی عدلیہ آزاد ہے، حکومت اور عوام کو عدالتوں پر اعتماد ہے لیکن کچھ لوگ ہیں جنہیں وہی عدالت قبول ہے جو ان کے حق میں فیصلہ دے۔

وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ اپوزیشن روز ایک نیا الزام لگا دیتی ہے، ایک اپوزیشن رہنماء نے کہا کہ جن کی کرپشن کے ثبوت پوری دنیا میں عیاں ہو گئے ان سے کہتا ہوں کہ کون سے ثبوت بھائی، پانامہ لیکس کی تشہیر کرنے والوں نے واضح کہا کہ اس کے ثبوت نہیں ہیں اور پیسے کے ناجائز ہونے کے بھی کوئی ثبوت نہیں، ان کے اپنے دور میں ہر روز کوئی نہ کوئی کرپشن کیس میڈیا پر آتا تھا۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے واضح کہا کہ اگر ایک پائی کی بھی کرپشن ثابت ہو جائے تو گھر چلا جاؤں گا، اس سے بڑی نیک نیتی کیا ہو سکتی ہے، حقیقت یہ ہے کہ اس معاملے کو سیاست کی نظر کیا جا رہا ہے، اپوزیشن کے ایک مخصوص طبقے کا نشانہ کرپشن نہیں ہے بلکہ وزیراعظم نواز شریف ہیں، جلسے،جلوسوں اور بیانات دے کر وزیراعظم کو متنازع بنا کر اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ سپریم کورٹ پر کوئی پابندی نہیں ہوتی، وہ جیسے مرضی تحقیقات کرے لیکن اپوزیشن کی طرف سے ٹی او آرز کے نام پر نیا ڈرامہ کیا گیا، سپریم کورٹ کے پاس لامحدود اختیارات ہیں ،ٹی او آرز تو علیحدہ کمیشن کیلئے ضروری ہوتے ہیں، وزیراعظم کی پالیسی تو واضح تھی کہ ایک پائی کی کرپشن ثابت ہو جائے تو گھر چلا جاؤں گا، اپوزیشن سے درخواست ہے کہ خدا را قوم کے سامنے حقیقت آنے دیں اور سچ کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی نہ کریں، لوگوں کو بے وقوف بنانا اور جھوٹ بولنا چھوڑ دیں، اس کے ذریعے پاکستان میں افراتفری کا خدشہ ہے۔

چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ اگر کسی کو ٹھڈا بھی لگتا ہے تو اس کا بھی الزام حکومت پر ڈال دیا جاتا ہے، جب وزیراعظم اور حکومت کی طرف سے پانامہ لیکس کی تحقیقات میں کوئی رکاوٹ نہیں تو اپوزیشن کیوں رکاوٹ بنتی ہے، کیا ان کو اپنے ملک کی عدلیہ اور سپریم کورٹ پر اعتماد نہیں ہے، وزیراعظم نے اعلان کیا تھا کہ ان کے بچے کمیشن کے سامنے پیش ہوں گے، پھر رکاوٹ کیا ہے، ہمیں بھی سپریم کورٹ کے سامنے اپنا موقف رکھنے دیں، خود بھی اپنا کیس رکھیں، یا پھر کھل کر بتائیں کہ کیا انہیں سپریم کورٹ پر اعتماد نہیں۔

وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ لندن جاتے ہوئے عمران خان سے ملاقات ہوئی، اور ان سے بہت اچھی بات چیت ہوئی، بات چیت کا مثبت نتیجہ نکلا، ہم نے اسلام آباد میں جلسے کے معاملے کو بخوی حل کرلیا، یہ جمہوریت اور سنجیدگی کی خوبی اور ثبوت ہے، لیکن آج عمران خان کا بیان پڑھ کر بہت افسوس ہوا کہ انہوں نے اپنا جلسہ منسوخ کر دیا اور الزام لگایا کہ پنجاب پولیس جلسوں میں خواتین کو تنگ کرنے میں مدد کرتی ہے، عمران خان الزامات کی بجائے ثبوت دیں، میں اس معاملے پر مشترکہ کمیٹی بنانے کی پیشکش کرتا ہوں، جس میں انتظامی نادرا اور میڈیا کے افراد شامل ہوں، متاثرہ خواتین سے بھی مدد لی جائے، میڈیا فوٹیج شیئر کرے،نادرا ان کی شناخت کرے گی، میڈیا اور دیگر ہمیں نشاندہی کریں ہم چن چن کر ان لوگوں کو شناخت کریں گے پھر میڈیا اور اپوزیشن فیصلہ کرے کہ وہ تحریک انصاف سے ہیں یا (ن)لیگ سے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ خواتین سے بے حرمتی کے واقعات صرف تحریک انصاف کے جلسوں میں ہی کیوں ہوتے ہیں، کبھی مسلم لیگ(ن) ، پیپلز پارٹی، جے یو آئی(ف) کے جلسوں میں بھی ایسا ہوا ہے؟بنا اپنا جائزہ لینے کے مخالفین پر الزام لگا دیا جاتا ہے، اس طرف پانامہ لیکس میں بھی کیا جا رہا ہے، جن کی اپنی آف شور کمپنیاں ہیں وہ وزیراعظم پر الزام لگا رہے ہیں، جو خود ٹیکس نہیں دیتے تھے اب حکومت پر ٹیکس چوری کا الزام لگا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دھرنوں کے 4ماہ میں ملک کو جو نقصان ہوا وہ آج تک پورا نہیں ہو سکا، کیا یہ درست نہیں ہے کہ جس ملک میں افراتفری ہو اس میں ترقی رک جاتی ہے؟کیا ملک صرف وزیراعظم اور مسلم لیگ(ن) کا ہے؟ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کا نہیں ہے؟ کیا یہ موقع نہیں ہے کہ اب قوم کے سامنے سچ بولا جائے؟، کہا جاتا ہے کہ وزیراعظم اپنے اثاثے ظاہر کریں، قوم کو سچ کیوں نہیں بتایا جاتا کہ میرے اعتزاز احسن اور دیگر کی طرح وزیراعظم کے اثاثے بھی باہر ہیں، وہ بھی اسمبلی کے ممبر ہیں، لاکھوں میں ٹیکس دیتے ہیں، لیکس میں اس کا ذکر نہیں کیا جاتا۔

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کی ہر بات نہیں مانی جاتی لیکن حکومت نے پھر بھی اپوزیشن کا ہر مطالبہ مانا، اپوزیشن کے ٹی او آرز سامنے آئے تو لگا کہ ہم کسی اور ملک میں رہتے ہیں اور ٹی او آرز بنانے والے کسی اور ملک میں۔ انہوں نے کہا کہ ٹی اوآرز میں صرف ایک چیز نہیں تھی کہ سپریم کورٹ بھی نئی بنائیں، باقی اس میں سب کچھ ہے، ہمیں امید تھی کہ اس معاملے پر پیش رفت ہو گی اور کچھ لو کچھ دو کے تحت ٹی او آرز پر اتفاق کر کے سپریم کورٹ کو بھیجے جائیں گے لیکن آج یہ ایک ایک کر کے ٹی او آرز پڑھتے تو سوائے افسوس کرنے کہ اور کچھ نہ کر سکے۔

اس موقع پر وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے ٹی او آرز کے حوالے سے میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ٹی او آرز کے معاملے پر اپوزیشن کی بدنیتی سب کے سامنے ہے، حکومت نے پانامہ لیکس کی تحقیقات کیلئے جامع ٹی او آرز بنائے لیکن اپوزیشن کے ٹی او آرز دیکھ کر سخت مایوسی ہوئی، حکومت نے چیف جسٹس کو اختیار دیا کہ جتنے ججز کا چاہیں کمیشن بنائیں، کمیشن کو ٹیکس چوروں، قرضہ معاف کرانے والوں کی تحقیقات کا بھی اختیار دیا لیکن اپوزیشن کے ٹی او آرز بدنیتی پر مبنی ہیں، اپوزیشن تجاویز کی بجائے پہلے دن سے ہی ٹی او آرز پر تنقید کر رہی ہے ، اپوزیشن کے ٹی او آرز ظاہر کرتے ہیں کہ صرف وزیراعظم نواز شریف کی ذات کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے، جب وزیراعظم کا پانامہ لیکس میں نام ہی نہیں تو انہیں کیسے ذمہ دار بنایا جا رہا ہے، اپوزیشن نے اپنے ٹی او آرز میں خود ہی فیصلہ سنا دیا، سپریم کورٹ کو تمام اختیارات حاصل ہیں۔

انہوں نیکہا کہ آئی سی آئی جے نے بھی وضاحت کر دی کہ دستاویزات میں وزیراعظم کا نام نہیں، سپریم کورٹ کا کمیشن مکمل با اختیار ہو گا، کمیشن حکومت کو بھی ہدایات جاری کرنے کا مجاز ہو گا، اپوزیشن کی دی گئی تجاویز غیر آئینی اور غیر مناسب ہیں، ماضی کی طرح وزیراعظم اس بار بھی سرخرو ہوں گے، اپوزیشن کے ٹی او آرز نے کمیشن کو صرف پانامہ دستاویزات تک محدود کر دیا، اپوزیشن نے ٹی او آرز میں ٹیکس چوروں اور قرضہ خوروں کو چھوڑ دیا ہے۔

Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات