سرکاری ملازمین کی جیبوں پر ڈاکہ :

فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہاؤسنگ فاؤنڈیشن و ضلعی انتظامیہ اسلام آباد نے سیکٹر F-14 اور F-15 میں اراضی کی خرید و فروخت کا منافع بخش کاروبار شروع کر دیا

بدھ 4 مئی 2016 13:52

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔04 مئی۔2016ء) فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہاؤسنگ فاؤنڈیشن اور ضلعی انتظامیہ اسلام آباد نے سیکٹر F-14 اور F-15 میں اراضی کی خرید و فروخت کا منافع بخش کاروبار شروع کر دیا ہے اور سرکاری ملازمین کی جیبوں پر ڈاکہ ڈال کر ان سے رقوم بٹورنا شروع کر دیں ۔ وزارت ہاؤسنگ کے ماتحت اور ڈی جی وقاص علی کی سربراہی میں کام کرنے والی مذکورہ ہاؤسنگ فاؤنڈیشن وزیر اعظم کی اجازت سے یہ اشتہار چلا رہی ہے کہ ہاؤسنگ پروجیکٹ کی غرض سے F-14 اور F-15سیکٹرز حاصل کئے جائیں گے تاہم حقیقت یہ ہے کہ پلاننگ اصولوں کے مطابق زیادہ سے زیادہ 15 سو 2 ہزار آفسران کو ہی ان میں سے ہر دو سیکٹر میں ایڈجسٹ کیا جا سکتا ہے تاہم اراضی خریداری کے لئے فنڈنگ دستیاب نہیں ہے ۔

بدقسمتی سے زمین کی خریداری اور انتظامیہ کے فائدے کے لئے فنڈز اکٹھے کرنے کی غرض سے ان پروجیکٹس میں زیادہ افراد کی رجسٹریشن کی گئی ہے ۔

(جاری ہے)

تاہم یہ اقدامات فاؤنڈیشن کے ہزاروں دیگر اراکین کے لئے نقصان دہ ہیں ۔اراضی خریداری ایکٹ میں کہا گیا ہے کہ فنڈنگ کلکٹر کے اکاؤنٹ میں جمع کی جائیں تاکہ ایوارڈ کا اعلان ہو سکے ۔تاہم ریکوزیڈ فنڈز کو مختص نہیں کیا گیا ہے ۔

اگرچہ اراضی ایوارڈ اراضی خریداری ایکٹ کی دفعات کے تحت کیا گیا ہے ۔ایسے میں مذکورہ فاؤنڈیشن نے ان اراکین سے رقوم اکٹھا کرنا شروع کر دیں جو سرکاری ملازم ہیں تاکہ اراضی خریداری کے لئے فنڈ اکٹھے کئے جا سکیں ۔یہ ایسے وقت میں کیا جا رہا ہے کہ انہیں یہ بھی پتہ نہیں کہ F-14 اور F-15 کی اصل ایوارڈ قیمت کیا ہو گی اور کتنا عرصہ ایوارڈ عمل میں لگے گا ۔

مثال کے طور پر کئی وجوہات کی بنا پر ایوارڈ کو عدالت میں چیلنج کیا جا سکے گا ۔سب سے پہلے سیکشن فور ہے اس کے تحت ایک ماہ سے ایک سال کے اندر اراضی خریداری ضروری ہے ۔ تاہم یہ وقت گزر گیا ہے ایوارڈ کی قیمت بھی ایک ایشو ہو گا کیونکہ مارکیٹ کی قیمت بھی ادا کرنی ہو گی ۔ تاہم سب سے بڑا جرم جو اس پروجیکٹ میں قابل فہم ہے کہ ایک پرائیویٹ ڈویلپر یہ کر رہا ہے اور اس نے لے آؤٹ پلان ، پلان کی منظوری اور اراضی ملکیت کے بغیر رقوم اکٹھا کرنا شروع کر دیں ۔

یہ سب کچھ فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہاؤسنگ کارپوریشن کر رہی ہے اور حکومت پاکستان کا موقف الگ ہے جبکہ نیب اس معاملے پر سوئی ہوئی ہے کرپشن کے الزامات یہاں پر ختم نہیں ہوتے ۔ رپورٹ کے مطابق کئی سرکاری ملازمین نے اس پیشگی اطلاع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے 2014 میں اس علاقے میں اراضی کی خرید و فروخت شروع کر دی اس فہرست میں آئی سی ٹی انتظامیہ اور مذکورہ فاؤنڈیشن کے افسران بھی شامل ہیں یہ رپورٹس بھی ہیں کہ کچھ حکام بالا نے یہ معلومات حاصل کی ہیں اور کارروائی کے لئے آگے کر رہے ہیں ۔

سرکاری حکام بالا کی جانب سے اس سرمایہ کاری کا نتیجہ ہے کہ قیاس آرائی کی وجہ سے قیمت بڑھ گئی ہے ۔ اب خدشہ یہ ہے کہ ایوارڈ کی قیمت انتہائی زیادہ ہو گی کیونکہ وہ آفسران جنہوں نے خام اراضی میں سرمایہ کی وہ اپنے ذاتی فائدے کے لئے زیادہ سے زیادہ نفع حاصل کرنا چاہتے ہیں جو ان کی مرضی سے اعلان ہو گا ۔نقصان ان سرکاری ملازمین کا ہو گا جو مذکورہ ہاؤسنگ فاؤنڈیشن کے غریب اراکین ہیں ۔

اب ہو گا یہ کہ غریب سرکاری ملازمین کو آئی سی ٹی اور فاؤنڈیشن کے آفسران کی جانب سے زیادہ پریمیئر ادا کرنا ہوگا ۔بصورت دیگر ایسی کوئی وجہ نہیں کہ یہ ایوارڈ کیوں موخر کیا جا رہا ہے ۔ ایسی صورت میں جب فنڈ دستیاب نہ ہوں تو اس عمل کو آگے بڑھانا ایک سنگین جرم کا ارتکاب ہے ۔ اسی طرح دوسرا سکینڈل موضع ٹمہ ایریا پاک روڈ کا ہے یہاں پر بھی مذکورہ ہاؤسنگ فاؤنڈیشن نے سپریم کورٹ بار کی آڑ لی ہوئی ہے اور قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یہ پروجیکٹ شروع کیا ہے جو ان کے ممبران کے لئے نقصان دہ ہے مذکورہ فاؤنڈیشن نے آئی سی ٹی انتظامیہ کے ذریعے سیکشن فور آرڈر حاصل کیا ہے یہاں پر بھی انتظامیہ کے حکام بالا نے سرمایہ کاری کی ہوئی ہے یہ اس حقیقت کے باوجود کیا گیا ہے کہ ایسا پروجیکٹ جو صرف پرائیویٹ سیکٹر کے فائدہ کے لئے ہو لانچ نہیں کیا جا سکتا ۔

یہاں پر بھی اس علاقے میں اراضی کی مارکیٹ قیمت کروڑوں میں ہے اور لوگوں کو گمراہ کیا جا رہا ہے ۔اب یہ نیب کے لئے ٹیسٹ کیس ہے اگر یہ سب ایک پرائیویٹ ڈویلپر نے کیا ہوتا تو انہیں اب تک گرفتار کیا جا چکا ہوتا ۔صاف الفاظ میں مذکورہ فاؤنڈیشن سرکاری ملازمین سے ایسی اراضی کے لئے رقم اکٹھی کر رہی ہے جس کے وہ مالک نہیں اور یہ رقم ایسی اراضی کے لئے استعمال کی جائے گی جن کا انہیں کوئی آئیڈیا نہیں ۔

نیب ابھی تک خاموش ہے اس کی وجوہات کا علم اسی کو ہی ہو سکتا ہے بہارہ کہو پراجیکٹ بھی سابقہ حکومت کی بدانتظامی اور کرپشن کی نذر ہو گیا تھا موجودہ انتظامیہ اس کو آگے بڑھا رہی ہے تاہم اراضی کی نوعیت کی وجہ سے ہاؤسنگ پراجیکٹ کے لئے یہ زمین معقول نہیں ہے تاہم غریب سرکاری ملازمین کو نہیں بتایا جا رہا کہ یہ پراجیکٹ بمشکل ہی ڈویلپمنٹ کے لئے معقول ہے اور ان کو ان کی جمع پونجی سے محروم کیا جا رہا ہے ۔

فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہاؤسنگ فاؤنڈیشن کے G-13 اور G-14 جیسے پروجیکٹ بھی ڈانواں ڈول ہیں تاہم مشکوک خریداری کے ذریعے ناقص پلاننگ کی جا رہی ہے پانامہ لیکس کے تناظر میں حکومتی خاموشی حیران کن ہے ۔ توقع یہ تھی کہ وزیر داخلہ ایسی بے ضابطگیوں کا نوٹس لیتے جو ان کے ہی ایک محکمے کی آشرباد سے کی جا رہی ہے تاہم ان کی خاموشی ریاستی مشینری اور کرپشن کے خلاف لڑنے کی خواہش نہ رکھنے کی مظہر ہے یہ حقیقت ہے ۔

متعلقہ عنوان :