سینیٹ کی قائمہ کمیٹی ہاؤسنگ اینڈ ورکس کا اجلاس

پاک پی ڈبلیو ڈی ،فیڈرل ا یمپلائیزفاؤنڈیشن، پی ایچ اے ایف، این سی ایل میں منظور شدہ اسامیوں ،گزشتہ تین سالوں میں صوبہ وار بھرتیوں کا جائزہ

منگل 3 مئی 2016 17:41

اسلام آباد ۔ 3 مئی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔03 مئی۔2016ء) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ہاؤسنگ اینڈ ورکس کا اجلاس سینیٹر تنویر الحق تھانوی کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں پاک پی ڈبلیو ڈی فیڈرل گورنمنٹ ا یمپلائیزہاؤسنگ فاؤنڈیشن، پی ایچ اے ایف، این سی ایل میں منظور شدہ اسامیوں اور گزشتہ تین سالوں میں صوبہ وار بھرتیوں کی تفصیلات کے علاوہ فیڈرل لاجز کے ملازمین کے سروس سٹرکچر کے بارے میں تفصیلی غور ہوا۔

چیئرمین کمیٹی سینیٹر مولانا تنویر الحق تھانوی نے ورکنگ پیپرز بروقت نہ ملنے کو وزارت اور محکمہ جات کی عدم دلچسپی قرار دیا اور کہا کہ کمیٹی کی طرف سے مانگی گئی تفصیلات بھی نامکمل ہیں۔ ڈیپوٹیشن پر تعینات افسران اور ملازمین کے بارے میں بھی مکمل تفصیلات مہیا نہیں کی گئیں اور ذیلی اداروں نے ڈیپوٹیشن ملازمین کے معیار، تعلیم اور تجربہ سے بھی آگاہ نہیں کیا۔

(جاری ہے)

سیکریٹری وزارت شاہ رخ ارباب نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ کچھ معلومات حاصل کرنے میں دیر ہوئی اور اضافی معلومات پر وقت لگ گیا، آئندہ ایسا نہیں ہو گا۔ ڈی جی پی ڈبلیو ڈی نے کہا کہ کل منظور شدہ اسامیاں 3571 ہیں، گریڈ 17 سے اوپر تعداد436 اور 77 ابھی خالی ہیں۔ محکمہ میں کل خالی اسامیوں کی تعداد1043 ہے۔ صوبائی کوٹہ پر مکمل عمل کیا گیا ہے۔ گزشتہ تین سالوں میں ایف پی ایس سی کے ذریعے 24 ملازم بھرتی کئے گئے، ملازمین 25 فیصد کوٹہ مانگتے ہیں، معاملہ عدالت میں 15 مئی سے قبل فیصلہ آنے کا امکان ہے، حکم امتناعی ختم ہونے کے بعد این ٹی ایس کے ذریعے بھرتیاں کی جائیں گی۔

سینیٹر خالدہ پروین نے کہا کہ موجود ملازمین اور خالی اسامیوں کی صوبہ وار تفصیل موجود نہیں جس پر آگاہ کیا گیا کہ اسامیاں 2010ء سے500 خالی تھیں، اب تعداد بڑھ کر ایک ہزار ہو گئی ہے اور انکشاف کیا کہ بلوچستان میں گریڈ 19 کا کوئی آفیسر موجود نہیں۔ گریڈ17 میں صرف7 لوگ ہیں، اسامیاں 25 ہیں، دو ایکسین، چار ایس ڈی او اورچیف انجینئر اور دو ایس ای کی اسامیاں خالی ہیں۔

بلوچستان میں جس کو بھیجا جائے میڈیکل یا کوئی اور بہانہ کیا جاتا ہے جس پر دو افسران کو معطل کیا گیا ہے۔ این سی ایل کے حوالے سے بتایا گیاکہ حکومت سے کوئی فنڈ نہیں ملتا، اپنی مدد آپ کے تحت کام چلایا جا رہا ہے۔ کچھ سال قبل بلوچستان میں ملنے والے 8 ارب روپے کے منصوبے پر این سی ایل کو کام دیا گیا۔ ایک ارب کی ادائیگیاں رکی ہوئی ہیں۔ نیب نے بھی مداخلت کی ہے، این سی ایل میں بلوچستان کے ڈومیسائل ہولڈر 300 ملازمین تنخواہوں کیلئے شور مچا رہے ہیں، 40 لاکھ ماہانہ تنخواہ دینی پڑتی ہے۔

حکومت کو ایک کروڑ ٹیکس بھی دیا جا رہا ہے۔ ہاؤسنگ فاؤنڈیشن کے بارے میں آگاہ کیا گیا کہ تین سالوں میں کوئی بھرتی نہیں ہوئی، صرف 25 گارڈز ایک پراجیکٹ پر بھرتی ہوئے۔ منظور شدہ ملازمین کی تعداد 471 ہے۔ 26 اسامیاں خالی ہیں اور ڈیپوٹیشن پر21 افسران موجود ہیں۔ صوبائی کوٹہ پر مکمل عمل کیا گیا ہے۔ ایم ڈی پی ایچ اے ایف محمد الیاس نے آگاہ کیا کہ کل منظور شدہ تعداد 265 ہے، گزشتہ تین سالوں میں کوئی بھرتی نہیں ہوئی، بھرتی ہونے والے 130 ملازمین کے تعلیمی سرٹیفکیٹ، تجربہ اور میرٹ کی تحقیقات نیب کر رہی ہے۔

فیڈرل لاجز کے ملازمین کے بارے میں آگاہ کیا گیا کہ کوئی سروس سٹرکچر موجود نہیں، جس آسامی پر ملازم بھرتی ہوتا ہے، اسی اسامی پر ریٹائر ہو جاتا ہے۔ کمیٹی نے سفارش کی کہ گریڈ 16 کی اسامی کو گریڈ 17 کیا جائے۔ پی ایچ اے بھی سروس رول بنانے کی سفارش کی گئی۔ کراچی کینٹ میں ساڑھے تین ایکڑ کے اربوں مالیت کے پلاٹ پر قبضے کے حوالے سے چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ کمیٹی کے کراچی اجلاس میں بھی معاملہ سامنے آیا پہلے قبضہ چھڑا لیا گیا تھا، پھر قبضہ کر لیا گیا تھا۔

قابضین نے اتنی جلدی کی، محکمہ کہاں تھا، ایسے لگتا ہے کہ پلاٹ کا قبضہ واگزار ہی نہیں کرایا گیا تھا۔ چیئرمین سینیٹ سے مشاورت کے بعد معاملہ نیب کو بھجوایا جائے۔ سینیٹر شاہی سید نے بھی پلاٹ پر قبضے پر محکمے کی سستی پر شدید برہمی کا اظہار کیا تھا۔ قبضہ مافیا اور پی ڈبلیو ڈی یا محکمے کے درمیان جو مقدمہ چل رہا ہے، اس کا کمیٹی کے سامنے جوابدہ وزارت اور محکمے ہیں۔

چیئرمین کمیٹی نے متروکہ وقف املاک کی زمینی ملکیت کی تفصیلات بھی طلب کرلیں اور کہا کہ اگر ضرورت پڑی تو معاملہ ایوان بالا میں اٹھائیں گے۔ چیئرمین کمیٹی نے سوال اٹھایا کہ کیا فقیر محمد کو ڈی جی پی ڈبلیو ڈی تعینات کرنے کی سمری وزیراعظم نے منظور کی ہے۔ سیکریٹری وزارت نے آگاہ کیا کہ پلاٹ پر قبضے کی اطلاع ملی تو آئی جی سندھ سے بات کی۔

ایس ایس پی سعود سے کہا کہ پلاٹ پر قبضہ کیسے ہو گیا تو جواب دیا گیا کچھ نہیں کر سکتا۔ عدالت سے حکم امتناعی ہے اور ایس ایچ او ملا ہوا ہے، پلاٹ پر متروک وقف املاک کا بھی دعویٰ ہے۔ رجسٹرار ہائی کورٹ سندھ سے بھی گزارش کی ہوئی ہے، عدالت میں کیس نہیں لگا، سپریم کورٹ کے رجسٹرار سے بھی بات ہوئی ہے، ایک دن کیلئے بھی حکم امتناعی خارج ہو جائے تو ایک دن میں قبضہ واپس لے لیں گے۔

چیف انجینئر کراچی اعظم خلیل نے آگاہ کیا کہ پہلی دفعہ محکمہ کو ہائی کورٹ سندھ میں 16 جنوری کو سنا گیا، اسی دن حکم امتناعی جاری ہوا، شفیق تنولی ایس ایچ او کا قبضہ ہے اور پلاٹ پر بسیں کھڑی ہیں۔ ایس پی، ڈی آئی جی، کور کمانڈراور نیب کو کاغذات دیئے ہیں۔ صدارت حکم کے ذریعے پلاٹ پی ڈبلیو ڈی کے پاس ہے، عدالت میں ایک دفعہ مقدمہ کا نمبر نہیں آیا، دوسری دفعہ جج چلے گئے، اگلی پیشی پر ہمارے وکیل کو بولنے نہیں دیا گیا۔

پی ایچ اے کی طرف سے آگاہ کیا گیا کہ مقدمہ1982ء سے چل رہا ہے، پارسی خاندان کے وارثین اور جعلی افراد نے کاغذات بنائے ہوئے ہیں، 23مئی2016ء سے قبل عدالت سے تاریخ مل جائے گی۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل کے ذریعے جواب داخل کرائیں گے۔ پلاٹ پر پی ایچ اے کو ہاؤسنگ سکیم بنانے کیلئے کیا گیا تھا، سکیم نہیں بنائی جا سکی، اب پلاٹ کی وزیراعظم کی اجازت سے کھلی نیلامی کی جائے گی۔

سینیٹر خالدہ پروین نے کہا کہ جب پلاٹ واگزار کرایا گیا تو گارڈ کیوں ہٹا لئے گئے تھے۔ محکمہ کی ملی بھگت لگتی ہے اور کہا کہ پی ایچ اے اور پی ڈبلیو ڈی کی کارکردگی اور جواب تسلی بخش نہیں۔جس پر سیکرٹری وزارت نے کہا کہ ایس ایس پی نے یقین دہانی کرائی ہے کہ ایک گھنٹے میں قبضہ واپس لے دینگے۔رینجرز کو بھی خط لکھا ہوا ہے۔گلشن معمار کراچی کے جوائنٹ وینچر کے حوالے سے آگاہ کیا گیا کہ معاملہ نیب میں ہے شروع میں 718فلیٹس بننے تھے جو مکمل نہیں کئے گئے عبد الرشید نامی شخص نے وصول ہونے والی رقوم کو ذاتی اکائنٹ میں جمع کرایا اب فیصلہ ہو رہا ہے کہ فلیٹ مانگنے والے136کو پرانی قیمت پر فلیٹ دیئے جائیں اور60کو ریفنڈ دیا جائے۔

عبد الرشید کا اکاوئنٹ منجمند کر دیا گیا ہے۔سینیٹر خالدہ پروین نے کہاکہ کروڑوں اربوں کی زمین کا قبضہ واگزار نہیں ہوا ادارے کی بدنامی ہوئی ہے چار کروڑ براہ راست اپنے اکاوئنٹ میں جمع کر ا لئے گئے کیوں کاروائی نہیں کی گئی۔چیئرمین کمیٹی نے کہ کہ نیب رپورٹ میں گلشن معمار معاملے پر پی ایچ اے کی نا اہلی قرار دی گئی ہے۔ڈی جی پی ڈبلیو ڈی کی وزیر اعظم کی طرف سے تعیناتی کے چیئرمین کمیٹی کے سوال کے جواب میں سیکرٹری نے آگاہ کیا کہ محکمہ میں گریڈ21کا اہل آفیسر موجود نہیں وزیر اعظم کے پاس معاملہ گیا تو تین سینیئر افسران کے نام دیئے گئے۔

دو ماہ کیلئے فقیر محمد کو چارج دینے کا فیصلہ ہوا اور کہا کہ سروس رول بھی بنا لیئے جائیں۔وزارت کی طرف سے موجودہ ڈی جی علی اکبر شیخ کو 30جون تک کام کرنے کی سفارش بھجوائی گئی۔اور وزیر اعظم نے تجویز مان لی ہے۔30جون سے پہلے سروس رول اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اور ایف پی ایس سی کے ذریعے بنا لئے جائینگے تاکہ ڈیپوٹیشن پر باہر سے بھی آفیسر لایا جا سکے۔کمیٹی اجلاس میں سینیٹرز خالدہ پروین، خانزادہ خان، سیف الله خان بنگش کے علاوہ سیکریٹری وزارت شاہ رخ ارباب، ڈی جی پی ڈبلیو ڈی اکبر شیخ، ڈی جی ایف جی ای ایچ ایف وقاص علی، ایم الیاس ایم ڈی پی ایچ اے کے علاوہ اعلی افسران نے شرکت کی۔

متعلقہ عنوان :