کراچی کینٹ اسٹیشن کے سامنے اربوں کے پلاٹ پر لینڈ مافیا نے قبضہ کر رکھا ہے، سینیٹ قائمہ کمیٹی ہاؤسنگ اینڈ ورکس کے اجلاس میں انکشاف

قائمہ کمیٹی کا پی ایچ اے کی اراضی کے معاملے کا نوٹس ، آئندہ اجلاس میں سے تمام ریکارڈ طلب

منگل 3 مئی 2016 17:34

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔03 مئی۔2016ء ) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی ہاؤسنگ اینڈ ورکس کے اجلاس میں انکشاف کیا گیا کہ کراچی کینٹ اسٹیشن کے سامنے اربوں روپے کے پلاٹ پر لینڈ مافیا نے قبضہ کر رکھا ہے،پی ایچ ایف حکام نے بتایا کہ چارایکڑ رقبے پرلینڈ مافیہ34 سال سے قابض ہے، پلاٹ پارسی فیملی کا تھا جسے بعد میں پی ایچ اے کو دیدیاگیا،،ایس ایچ او تھانہ کینٹ شفیق تنولی غیر قانونی قبضے میں ملوث ہے،لینڈ مافیا نے ججز اور پولیس افسران کو بھی خرید رکھا ہے۔

قبضہ مافیہ نے عدالت سے حکم امتناعی لیکر پلاٹ پر غیر قانونی تعمیرات بھی شروع کر دی ہے۔ کمیٹی نے پی ایچ اے کی اراضی پر معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے آئندہ اجلاس میں متعلقہ حکام سے تمام ریکارڈ طلب کر لیا۔

(جاری ہے)

ڈی جی پی ایچ ایف نے کہا کہ گزشتہ تین برسوں میں ہاؤسنگ فاونڈیشن میں کوئی مستقل تقرری نہیں ہو سکی،این سی ایل کا کوئٹہ میں ایک ارب روپے کا ترقیاتی کام فنڈز کی کمی کے باعث رکا ہوا ہے۔

چیئرمین کمیٹی نے وفاقی سیکرٹری پی ایچ ایف کو آئندہ اجلاس میں سوالات کے مکمل جوابات کے ساتھ آنے کی تنبیہ کی۔کمیٹی نے کراچی کینٹ اسٹیشن کے سامنے اربوں روپے مالیت کی اراضی پر قبضے کا نوٹس لیتے ہوئے پاکستان ہاؤسنگ فیڈریشن سے آئندہ اجلاس میں ریکارڈ پیش کرنے کی ہدایت کر دی۔سینیٹ قائمہ کمیٹی ہاؤسنگ اینڈ ورکس کے چیئرمین سینیٹر تنویر الحق تھانوی کی صدارت میں پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہونے والے کمیٹی اجلاس ہوا ۔

اجلاس میں پاک پی ڈبلیو ڈی فیڈرل گورنمنٹ ا یمپلائیزہاؤسنگ فاؤنڈیشن ،پی ایچ اے ایف اوراین سی ایل ،میں منظور شدہ آسامیوں اور پچھلے تین سالوں میں صوبہ وار بھرتیوں کی تفصیلات کے علاوہ فیڈرل لاجز کے ملازمین کے سروس سٹرکچر کے بارے میں تفصیلی غور ہوا۔چیئرمین کمیٹی سینیٹر مولانا تنویر الحق تھانونی نے ورکنگ پیپرز بروقت نہ ملنے کو وزارت اور محکمہ جات کی عدم دلچسپی قرار دیا اور کہا کہ کمیٹی کی طرف سے مانگی گئی تفصیلات بھی نا مکمل ہیں۔

ڈیپوٹیشن پر تعینات افسران اور ملازمین کے بارے میں بھی مکمل تفصیلات مہیا نہیں کی گئیں اور ذیلی اداروں نے ڈیپوٹیشن ملازمین کے معیار ،تعلیم اور تجربہ سے بھی آگاہ نہیں کیا گیا۔سیکرٹری وزارت شاہ رخ ارباب نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ کچھ معلومات حاصل کرنے میں دیر ہوئی اور اضافی معلومات پر وقت لگ گیا ۔آئندہ ایسا نہیں ہو گا۔ڈی جی پی ڈبلیو ڈی نے کہا کہ کل منظور شدہ آسامیاں 3571ہیں ۔

گریڈ 17 سے اوپر تعداد436اور 77ابھی خالی ہیں۔محکمہ میں کل خالی آسامیوں کی تعداد1043ہے۔صوبائی کوٹہ پر مکمل عمل کیا گیا ہے۔پچھلے تین سالوں میں ایف پی ایس سی کے ذریعے 24ملازم بھرتی کئے گئے۔ملازمین25فیصد کوٹہ مانگتے ہیں معاملہ عدالت میں 15مئی سے قبل فیصلہ آنے کا امکان ہے۔حکم امتناہی ختم ہونے کے بعد این ٹی ایس کے ذریعے بھرتیاں کی جائینگی۔

سینیٹر خالدہ پروین نے کہا کہ موجود ملازمین اور خالی آسامیوں کی صوبہ وار تفصیل موجو دنہیں جس پر آگاہ کیا گیا کہ آسامیاں 2010سے500خالی تھیں اب تعداد بڑھ کر1000ہو گئی ہے اور انکشاف کیا کہ بلوچستان میں گریڈ19کا کوئی آفیسر موجودنہیں۔گریڈ17میں صرف7 لوگ ہیں آسامیاں 25ہیں دو ایکسین، چار ایس ڈی او اورچیف انجینئر اور دو ایس ای کی آسامیاں خالی ہیں۔

بلوچستان میں جس کو بھیجا جائے میڈیکل یا کوئی او ربہانہ کیا جاتا ہے جس پر دو افسران کو معطل کیا گیا ہے۔این سی ایل کے حوالے سے بتایا گیاکہ حکومت سے کوئی فنڈ نہیں ملتا اپنی مدد آپ کے تحت کام چلایا جا رہا ہے۔کچھ سال قبل بلوچستان میں ملنے والے 8ارب روپے کے منصوبے پر این سی ایل کو کام دیا گیا ۔ایک ارب کی ادائیگیاں رکی ہوئی ہیں ۔نیب نے بھی مداخلت کی ہے ۔

این سی ایل میں بلوچستان کے ڈومیسائل ہولڈر 300ملازمین تنخواہوں کیلئے شور مچا رہے ہیں ۔40لاکھ ماہانہ تنخواہ دینی پڑتی ہے۔حکومت کو ایک کروڑ ٹیکس بھی دیا جا رہا ہے۔ہاؤسنگ فاؤنڈیشن کے بارے میں آگاہ کیا گیا کہ تین سالوں میں کوئی بھرتی نہیں ہوئی صرف25گارڈذ ایک پراجیکٹ پر بھرتی ہوئے۔منظور شدہ ملازمین کی تعداد471ہے۔26آسامیاں خالی ہیں اور ڈیپوٹیشن پر21آفیسر موجود ہیں صوبائی کوٹہ پر مکمل عمل کیا گیا ہے۔

ایم ڈی محمد الیاسپی ایچ اے ایف نے آگاہ کیا کہ کل منظور شدہ تعداد 265ہے ۔ گزشتہ تین سالوں میں کوئی بھرتی نہیں ہوئی ۔بھرتی ہونے والے130ملازمین کے تعلیمی سرٹیفکیٹ،تجربہ ا ور میرٹ کی تحقیقا ت نیب کر رہی ہے۔ فیڈرل لاجز کے ملازمین کے بارے میں آگاہ کیا گیا کہ کوئی سروس سٹرکچر موجود نہیں جس آسامی پر ملازم بھرتی ہوتا ہے اسی آسامی پر ریٹائر ہو جاتا ہے ۔

کمیٹی نے سفارش کی کہ گریڈ 16 کی آسامی کو گریڈ 17کیا جائے۔پی ایچ اے کے بھی سرو س رول بنانے کی سفارش کی گئی۔کراچی کینٹ میں ساڑھے تین ایکڑ کے اربوں مالیت کے پلاٹ پر قبضے کے حوالے سے چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ کمیٹی کے کراچی اجلاس میں بھی معاملہ سامنے آیا پہلے قبضہ چھڑا لیا گیا تھا پھر قبضہ کر لیا گیا تھا قابضین نے اتنی جلدی کی محکمہ کہاں تھا ۔

ایسے لگتا ہے کہ پلاٹ کا قبضہ واگزار ہی نہیں کرایا گیا تھا چیئرمین سینیٹ سے مشاورت کے بعد معاملہ نیب کو بھجوایا جائے۔سینیٹر شاہی سید نے بھی پلاٹ پر قبضے پر محکمے کی سستی پر شدید برہمی کا اظہار کیا تھا۔قبضہ مافیا اور پی ڈبلیو ڈی یا محکمے کے درمیان جو مقدمہ چل رہا ہے اسکا کمیٹی کے سامنے جواب دہ وزارت او رمحکمے ہیں۔چیئرمین کمیٹی نے متروکہ وقف املاک کی زمینی ملکیت کی تفصیلات بھی طلب کرلیں۔

اور کہا کہ اگر ضرورت پڑی تو معاملہ ایوان بالا میں اٹھائینگے۔چیئرمین کمیٹی نے سوال اٹھایا کہ کیا فقیر محمد کو ڈی جی پی ڈبلیو ڈی تعینات کرنے کی سمری وزیر اعظم نے منظور کی ہے۔سیکرٹری وزارت نے آگاہ کیا کہ پلاٹ پر قبضے کی اطلاع ملی تو آئی جی سندھ سے بات کی ایس ایس پی سعود سے کہا کہ پلاٹ پر قبضہ کیسے ہو گیا تو جواب دیا گیا کچھ نہیں کر سکتا ،عدالت سے حکم امتناہی ہے ا ور ایس ایچ او ملا ہوا ہے۔

پلاٹ پر متروک وقف املاک کا بھی دعوی ہے ۔رجسٹرا ر ہائی کورٹ سندھ سے بھی گزارش کی ہوئی ہے عدالت میں کیس نہیں لگا۔سپریم کورٹ کے رجسٹرا ر سے بھی بات ہوئی ہے ایک دن کیلئے بھی حکم امتناہی خارج ہو جائے تو ایک دن میں قبضہ واپس لے لینگے۔چیف انجینئر کراچی اعظم خلیل نے آگاہ کیا کہ پہلی دفعہ محکمہ کو ہائی کورٹ سندھ میں16جنوری کو سنا گیا اسی دن حکم امتناہی جاری ہوا شفیق تنولی ایس ایچ اوکا قبضہ ہے اور پلاٹ پر بسیں کھڑی ہیں۔

ایس پی،ڈی آئی جی ،کور کمانڈرا و رنیب کو کاغذات دیئے ہیں۔صدارت حکم کے ذریعے پلاٹ پی ڈبلیو ڈی کے پاس ہے عدالت میں ایک دفعہ مقدمہ کا نمبر نہیں آیا دوسری دفعہ جج چلے گئے اگلی پیشی پر ہمارے وکیل کو بولنے نہیں دیا گیا۔PHAکی طرف سے آگاہ کیا گیا مقدمہ1982سے چل رہا ہے پارسی خاندان کے وارثین اور جعلی افراد نے کاغذات بنائے ہوئے ہیں 23مئی2016سے قبل عدالت سے تاریخ مل جائیگی۔

ڈپٹی اٹارنی جنرل کے ذریعے جواب داخل کراینگے۔پلاٹ پر PHAکو ہاؤسنگ سکیم بنانے کیلئے کیا گیا تھا سکیم نہیں بنائی جا سکی اب پلاٹ کی وزیر اعظم کی جازت سے کھلی نیلامی کی جائیگی۔سینیٹر خالدہ پروین نے کہا کہ جب پلاٹ واگزار کرایا گیا تو گارڈ کیوں ہٹا لئے گئے تھے۔محکمہ کی ملی بھگت لگتی ہے اور کہا کہ پی ایچ اے اورپی ڈبلیو ڈی کی کارکردگی اور جواب تسلی بخش نہیں۔

جس پر سیکرٹری وزارت نے کہا کہ ایس ایس پی نے یقین دہانی کرائی ہے کہ ایک گھنٹے میں قبضہ واپس لے دینگے۔رینجرز کو بھی خط لکھا ہوا ہے۔گلشن معمار کراچی کے جوائنٹ وینچر کے حوالے سے آگاہ کیا گیا کہ معاملہ نیب میں ہے شروع میں 718فلیٹس بننے تھے جو مکمل نہیں کئے گئے عبد الرشید نامی شخص نے وصول ہونے والی رقوم کو ذاتی اکائنٹ میں جمع کرایا اب فیصلہ ہو رہا ہے کہ فلیٹ مانگنے والے136کو پرانی قیمت پر فلیٹ دیئے جائیں اور60کو ریفنڈ دیا جائے۔

عبد الرشید کا اکاوئنٹ منجمند کر دیا گیا ہے۔سینیٹر خالدہ پروین نے کہاکہ کروڑوں اربوں کی زمین کا قبضہ واگزار نہیں ہوا ادارے کی بدنامی ہوئی ہے چار کروڑ براہ راست اپنے اکاوئنٹ میں جمع کر ا لئے گئے کیوں کاروائی نہیں کی گئی۔چیئرمین کمیٹی نے کہ کہ نیب رپورٹ میں گلشن معمار معاملے پر پی ایچ اے کی نا اہلی قرار دی گئی ہے۔ڈی جی پی ڈبلیو ڈی کی وزیر اعظم کی طرف سے تعیناتی کے چیئرمین کمیٹی کے سوال کے جواب میں سیکرٹری نے آگاہ کیا کہ محکمہ میں گریڈ21کا اہل آفیسر موجود نہیں وزیر اعظم کے پاس معاملہ گیا تو تین سینیئر افسران کے نام دیئے گئے۔

دو ماہ کیلئے فقیر محمد کو چارج دینے کا فیصلہ ہوا اور کہا کہ سروس رول بھی بنا لیئے جائیں۔وزارت کی طرف سے موجودہ ڈی جی علی اکبر شیخ کو 30جون تک کام کرنے کی سفارش بھجوائی گئی۔اور وزیر اعظم نے تجویز مان لی ہے۔30جون سے پہلے سروس رول اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اور ایف پی ایس سی کے ذریعے بنا لئے جائینگے تاکہ ڈیپوٹیشن پر باہر سے بھی آفیسر لایا جا سکے۔

متعلقہ عنوان :