اپوزیشن وزیر اعظم سے استعفیٰ مانگنے کے معاملے پر متفق نہ ہو سکی ، ہر جماعت کا اپنااپنا موقف

اے این پی اور ایم کیو ایم کا موقف یکسر مختلف،پیپلز پارٹی میں دو آراء پائی گئیں پی ٹی آئی ، شیخ رشید احمد اور اعتزاز احسن کا وزیراعظم کے استعفے پر زور سراج الحق نے بھی وزیر اعظم سے استعفیٰ مانگنے کے معاملے پر حمایت سے گریز

پیر 2 مئی 2016 22:43

اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔02 مئی۔2016ء ) اپوزیشن وزیر اعظم سے استعفیٰ مانگنے کے معاملے پر متفق نہ ہو سکی اس معاملہ پر ہر جماعت کا موقف علیحدہ علیحدہ تھا ۔ تفصیلات کے مطابق پیر کو یہاں سینیٹ میں قائد حزب اختلاف سینیٹر اعتزاز احسن کی رہائش گاہ پر اپوزیشن جماعتوں کا پانامہ لیکس کی تحقیقات کے لئے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل اور ٹی او آرز کے معاملے پر مشترکہ اجلاس ہوا ۔

جس میں تمام متعلقہ جماعتوں کے نمائندوں نے شرکت کی تاہم اپوزیشن وزیر اعظم سے استعفیٰ مانگنے کے معاملے پر متفق نہ ہو سکی ۔ اے این پی اور ایم کیو ایم کا موقف یکسر مختلف تھا جب کہ پیپلز پارٹی میں بھی دو آراء پائی گئیں تاہم ذرائع کے مطابق اجلاس میں وزیراعظم کے استعفے پر زیادہ زور پی ٹی آئی ، عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد اور پیپلز پارٹی کے اعتزاز احسن نے دیا تاہم باقی جماعتوں اور ان کے رہنماؤں کی رائے تھی کہ کوئی ایسا اقدام نہ اٹھایا جائے جس سے ملک میں بڑا سیاسی بحران پیدا ہو اور ملک مشکلات کا شکار ہو بلکہ کمیشن کے قیام اور ٹی او آرز پر توجہ مرکوز رکھی جائے ۔

(جاری ہے)

معاملے پر اتفاق رائے پیدا کرنے اور ٹی او آرز کے لئے (آج) منگل کی صبح پھرکمیٹی اجلاس ہو گا ۔ ذرائع نے بتایا کہ مشترکہ اجلاس میں عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما غلام احمد بلور نے سب سے اچھی تقریر کی اور انہوں نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں لیاقت علی باغ میں اے این پی کے سینکڑوں کارکنوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا ہمارے رہنماء اس میں جاں بحق ہوئے ۔

کیا اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا انہوں نے کہا کہ پانامہ لیکس میں وزیر اعظم نواز شریف کا براہ راست نام نہیں آیا بلکہ ان کے بچوں کا نام آیا ہے ۔ سیاسی اور جمہوری فضاء کو خراب نہ کیا جائے اور اسے برقرار رہنے دیا جائے ۔ پانامہ لیکس میں جن لوگوں کے نام آئے ہیں ان کا بلا امتیاز احتساب کیا جائے اور ٹی او آرز پر توجہ دی جائے ۔

جب کہ مسلم لیگ ق کے سیکرٹری جنرل مشاہد حسن سید نے کہا کہ اس وقت وزیر اعظم سے استعفے کا مطالبہ درست نہیں کیونکہ یہ سلسلہ ابھی چل رہا ہے اگر کل پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کے نام آجاتے ہیں تو کیا پیپلز پارٹی اپنے رہنماؤں سے استعفے مانگے گی ۔ اس سلسلے میں دہرا معیار نہ رکھا جائے ۔ ٹی او آرز پر توجہ رکھی جائے جب کہ حکومت کو بھی اس سلسلے میں بڑے دل کا مظاہرہ کرنا ہو گا اور اس حوالے سے اپوزیشن کی مشاورت سے ٹی او آرز بنانا ہونگے ۔

ذرائع کے مطابق خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی اتحادی جماعت قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمد شیر پاؤ نے بھی وزیر اعظم کے استعفے کی تجویر کی حمایت نہیں کی ۔ انہوں نے کہا کہ اگر اس طرح معمولی الزامات پر استعفوں کا معاملہ شروع ہو گیا اگر کسی پارٹی کے سربراہ یا وزراء وغیرہ پر الزامات لگ جاتے ہیں تو پھر معاملات چل نہیں سکیں گے ۔

انہوں نے تجویز دی کہ ہمیں تحقیقات پر فوکس رکھنا چاہیے اور چیف جسٹس پر اعتماد کرنا چاہیے ۔ ایسی فضاء پیدا نہ کی جائے جس سے غیر یقینی کی صورتحال پیدا ہو ۔ فیصلے پارلیمنٹ میں ہونے چاہیے اور وزیر اعظم کو بھی پارلیمنٹ میں آکر ان الزامات کا سامنا کرنا چاہیے ۔ ذرائع کے مطابق ایم کیو ایم کے رہنماؤں نے بھی استعفوں کے مطالبے کی تائید نہیں کی ۔

جس کے بعد ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی کے سخت موقف رکھنے والے رہنما سینیٹر اعتزاز احسن اور پی ٹی آئی کے رہنماؤں کو بھی معتدل موقف رکھنے والے رہنماؤں کے ساتھ چلنا پڑا اور ان کی بات ماننا پڑی ۔ جس کے بعد چار نکاتی اعلامیہ تیار کیا گیا ۔ ذرائع کے مطابق جماعت اسلامی کے سربراہ سینیٹر سراج الحق نے بھی وزیر اعظم سے استعفیٰ مانگنے کے معاملے پر حمایت سے گریز کیا۔