عوامی تحریک نے پانامہ لیکس کی تحقیقات کیلئے ٹی او آرز تجویز کر دئیے

بااختیار کمیشن کی تشکیل کیلئے اپوزیشن جماعتوں کی مشاورت سے آرڈیننس جاری کیا جائے ،کمیشن سزا دینے ،انٹرنیشنل فرانزک فرم کی خدمات لینے اور رپورٹ شائع کرنے کا مجاز ہو ،پاناما لیکس کے انکشافات ایکشن پلان کے تحت فوجی عدالت بھی تفتیش کر سکتی ہے،پاکستان عوامی تحریک

پیر 2 مئی 2016 22:13

عوامی تحریک نے پانامہ لیکس کی تحقیقات کیلئے ٹی او آرز تجویز کر دئیے

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔02 مئی۔2016ء) پاکستان عوامی تحریک نے پاناما لیکس کی تحقیقات کیلئے ٹی او آرز تجویز کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کمیشنز آف انکوائری ایکٹ 1956 ء کے تحت سپریم کورٹ کو لکھا جانے والا خط حکومت واپس لے اور اپوزیشن جماعتوں کی مشاورت سے نئے ٹی او آرز کے ساتھ بااختیار انکوائری کمیشن کی تشکیل کیلئے آرڈیننس جاری کیا جائے ،خزانے کو نقصان پہنچانے والے ہرفرد کا کڑا احتساب کیا جائے تاہم قومی خزانے کے امین وزیر اعظم کا احتساب سب سے پہلے ہونا چاہیے۔

پاناما لیکس انکشافات معاشی دہشتگردی ہے ،ایکشن پلان کے تحت فوجی عدالت بھی اس کی تحقیق کر سکتی ہے۔ٹی او آرز تجویز کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ مجوزہ کمیشن 1936 ء سے کاروبار کرنے کے دعویدار حکمران خاندان سے 1947 سے تاحال کاروباری تفصیل ،خاندانی اثاثوں کی تقسیم، منافع کی تفصیل ،ٹیکس کی ادائیگی اور اندرون، بیرون ملک بنائے جانے والے اثاثوں کے دستاویزی ثبوت طلب کرے۔

(جاری ہے)

ٹی او آرز کا اعلان پاکستان عوامی تحریک کے سیکرٹری جنرل خرم نواز گنڈاپور کی زیر صدارت منعقدہ ہنگامی اجلاس میں کیا گیا۔ اجلاس میں صوبائی صدور ،بریگیڈیئر(ر) محمد مشتاق، بشارت جسپال، فیاض وڑائچ، مرکزی سیکرٹری اطلاعات نوراﷲ صدیقی ،ساجد بھٹی نے شرکت کی۔اجلاس کے بعد بریفنگ دیتے ہوئے خرم نواز گنڈاپور نے کہا کہ وزیراعظم کے بیٹے نے آف شور کمپنیوں کی ملکیت کا اعتراف کیا اور وفاقی وزیر داخلہ نے مے فیئرفلیٹس کا مالک وزیراعظم کو قرار دیا اور اس سے قبل وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے وزیراعظم کے لیے منی لانڈرنگ کرنے کے متعلق نیب کو اپنا تفصیلی بیان ریکارڈ کروایا اور وزیراعظم نے اپنے ٹیکس گوشواروں اور الیکشن کمیشن کو جمع کروائی گئی دستاویزات میں اپنے اور اپنے بچوں کے اثاثے ظاہر نہیں کیے۔

وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز نے اندرون یا بیرون ملک کسی کمپنی اور جائیداد کی ملکیت سے انکار کیا تاہم پاناما لیکس آنے کے بعد ان کا یہ دعویٰ غلط ثابت ہو چکا ہے۔حکمران خاندان کے تضادات سے بھرے ہوئے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس مالیاتی سکینڈل میں وزیراعظم بلواسطہ یا بلاواسطہ ملوث ہیں۔لہٰذا فوری طور پر بااختیار کمیشن تشکیل دے کر اس الجھے ہوئے مالیاتی سکینڈل کی تفتیش کی جائے اور وفاقی وزراء کو بھی طلب کر کے ان کے بیانات لیے جائیں ۔

خرم نواز گنڈاپور نے کہا کہ وزیراعظم پاناما مالیاتی سکینڈل میں ملوث نظر آتے ہیں لہذا وہ کمیشن کی رپورٹ آنے تک اپنے عہدے سے بھی الگ ہو جائیں۔انہوں نے کہا کہ شریف برادران کو کمیشن کی رپورٹ آنے تک قومی خزانے کے اشتہاری استعمال سے روکا جائے۔ انہوں نے کہا کہ سربراہ عوامی تحریک ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے کمیشن کے اختیارات اور اس کی خصوصی حیثیت کے حوالے سے جو تجاویز دی ہیں ان پر عمل کیا جائے ۔

انہوں نے کہا کہ کمیشن حکمران خاندان کے اثاثوں کی چھان بین کرے اور دیگر غیر حکومتی افراد کے اثاثوں کی چھان بین انسداد کرپشن ایکٹ 1947 ء اور نیب قوانین کے تحت کی جائے۔انہوں نے کہا کہ کمیشن اس بات کا بھی جائزہ لے کہ میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے پاس اقتدار میں آنے سے پہلے کیا اثاثے اور لائف سٹائل تھا اور بعد میں کیا اثاثے تھے اور ان کے لائف سٹائل اور ٹیکسوں کی ادائیگی میں مطابقت کا جائزہ بھی لیا جائے ۔