قائمہ کمیٹی قانون و انصاف نے سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد میں اضافے کا ترمیمی بل2016 مسترد کردیا

سینٹرل لاء آفیسرز ترمیمی بل کو پرائیویٹ پریکٹسنگ بل2016کا نام دیکر منظور، خواتین کو ہراساں کرنے کا ترمیمی بل2014قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کو بھجوا دیا گیا،صاحبزادہ طارق اﷲ کا فوری اورسستے انصاف کی فراہمی کیلئے ضابطہ دیوانی میں مزید ترمیم کا بل حکومتی بل کے ساتھ منسلک کرنے کی ہدایت جج محض اخباری بیانات دیکر خوش ہوتے ہیں ،ا ن کو اپنا اصل کام کرنا چاہئے، کام صحیح کریں گے توکیس جلد نمٹیں گے، چیئرمین کمیٹی کے ریمارکس

پیر 2 مئی 2016 20:26

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔02 مئی۔2016ء) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے اجلاس میں سینٹرل لاء آفیسرز ترمیمی بل2016کو نام کی تبدیلی کے بعد پرائیویٹ پریکٹسنگ بل2016کا نام دیکر منظور کرلیا گیا،کام کے مقامات خواتین کو ہراساں کرنے کا ترمیمی بل2014قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کو بھیج دیا گیا،سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد میں اضافے کا ترمیمی بل2016کمیٹی نے مسترد کردیا،صاحبزادہ طارق اﷲ کا فوری اورسستے انصاف کی فراہمی کیلئے ضابطہ دیوانی میں مزید ترمیم کا بل حکومتی بل کے ساتھ اکٹھا کرنے کی ہدایت کردی،کمیٹی نے ارکان اسمبلی کی مراعات اورتنخواہوں میں کمی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پروٹوکول 22اسکیل کا ہے مگرتنخواہ 22اسکیل کے افسر سے کم ہے۔

(جاری ہے)

بلوچستان اسمبلی کے سپیکر کی تنخواہ5لاکھ روپے ہے مگر قومی اسمبلی کے اسپیکر کی تنخواہ ان کے سیکرٹری سے بھی کم ہے۔کمیٹی چیئرمین چوہدری بشیر محمود ورک نے عدلیہ کی کارکردگی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جج محض اخباری بیانات دیکر خوش ہوتے ہیں انہیں اپنا اصل کام کرنا چاہئے کام صحیح کریں گے توکیس جلد نمٹیں گے۔اپوزیشن ارکان کمیٹی نے اپوزیشن ممبران کے بلوں پر پیش رفت نہ ہونے پر احتجاج کیا اور کہا کہ جب بھی کوئی اپوزیشن ممبر کوئی ترمیم لیکر آتاہے حکومت اپنی ترمیم بھی لے آتی ہے اور قانون سازی کا کریڈٹ چھین لیتی ہے۔

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کا اجلاس چیئرمین کمیٹی چوہدری بشیر محمود ورک کی صدارت میں ہوا،اجلاس میں نجی ممبرڈے کے موقع پر کمیٹی کو بھیجے جانیوالے بلوں پر غوروخوض کیا گیا،خواتین کو کام کی جگہ ہراساں کے ترمیمی بل2014کو کمیٹی نے انسانی حقوق کی قائمہ کمیٹی کو بھیج دیا،یہ جے یو آئی کی اقلیتی رکن آسیہ ناصر نے پیش کیا تھا،آئین پاکستان کی دفعات 51اور106میں مزید ترمیم کا بل بھی کمیٹی نے مسترد کردیا۔

جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر صاحبزادہ طارق اﷲ کے ضابطہ دیوانی میں مزید ترمیم کے بل کو حکومتی بل کے ساتھ اکٹھا کرنے کی کمیٹی نے ہدایت کی،کمیٹی نے ایم کیو ایم کی رکن اسمبلی سمن سلطانہ جعفری کی جانب سے قومی اسمبلی میں پیش کئے گئے بل جس میں سپریم کورٹ کے ججوں میں ایک چوتھائی نمائندگی خواتین کو دینے کے حوالے سے ترمیمی بل مسترد کردیا،سنٹرل لاء آفیسر زترمیمی بل2016کا نام تبدیل کرے ،کمیٹی نے پرائیویٹ پریکٹنگ بل2016کو ترامیم کے ساتھ منظورکرلیا۔

جے یو آئی (ف)کی رکن اسمبلی نعیمہ کشورخان نے سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد بڑھانے کے حوالے سے بل کو بھی کمیٹی نے مسترد کردیا۔وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے قانون و انصاف ظفراﷲ خان نے کہا کہ ججوں کی تعداد بڑھائی نہیں جاسکتی کیونکہ سپریم کورٹ سمیت وکلاء اور حکومت کا بھی یہی موقف ہے جس پر کمیٹی چیئرمین چوہدری بشیر محمو دورک نے کہا کہ ججوں کو اخباری بیانات سے زیادہ اپنے کام پر دھیان دیناچاہئے۔

ٹی وی اوراخبارات می بیانات دینے سے مقاصد حل نہیں ہوتے ،کام کرکے کیس جلد نمٹائے جاتے ہیں ۔کمیٹی رکن علی محمد خان نے کہا کہ ججوں کی تعداد بڑھانے کی بجائے عدالتی نظام کو درست کرنا ہوگا اجلاس میں ارکان کمیٹی نے ممبران اسمبلی کی کم تنخواہوں پر تشویش کا اظہار کیا۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ارکان کی تنخواہیں کم ہیں جبکہ عہدے کے لحاظ سے22گریڈ کے افسر کے برابرنہ تو تنخواہ دی جاتی ہے اورنہ ہی مراعات دی جاتی ہیں رکن اسمبلی کا عہدہ وفاقی سیکرٹری کے برابر مگر تنخواہ نصف سے بھی کم ہے۔

متعلقہ عنوان :