قائمہ کمیٹی قانون و انصاف کا اجلاس:ججز کی تعداد بڑھانے سے متعلق بل مسترد

برطانیہ میں 9 اور امریکہ میں صرف3 ججز ہیں ،وقت پر تمام فیصلے کرتے ہیں،کمیٹی ارکان نے ججز کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگادیئے

پیر 2 مئی 2016 18:59

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔02 مئی۔2016ء) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد بڑھانے کے حوالے سے بل کو مسترد کر دیا‘ ممبران کمیٹی نے کہا کہ کارکردگی بہتر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ تعداد بڑھانے کی اگر ججز صبح کام کریں تو تمام مقدمات وقت پر ہی ختم کئے جا سکتے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کا اجلاس پیر کے روز پارلیمنٹ ہاؤس میں چیئرمین کمیٹی چوہدری محمد نصیر ورک کی زیر صدارت منعقد ہوا۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ججز صرف اخباروں میں سرخیاں چھپوانے اور ٹی وی پر بیٹھ کر تجزیہ دینے میں ہی خوشی محسوس کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر بھی کافی متحریک ہوتے ہیں۔

(جاری ہے)

اگر ایک بندہ سیوریج کے گٹر میں پاؤں پھسلنے سے گر جائے تو اس پر سوموٹو لیا جاتا ہے لیکن دیگر مقدمات پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ برطانیہ میں صرف 9 سپریم کورٹ کے ججز ہیں اور وہ اپنے تمام فیصلے وقت پر کرتے ہیں جبکہ امریکہ جس کی آبادی بھی ہم سے کہیں زیادہ ہے وہاں صرف 3 سپریم کورٹ کے ججز ہیں ججز کی کارکردگی بڑھانے کیلئے تعداد بڑھانے کی نہیں بلکہ کارکردگی بہتر کرنے کی ضرورت ہے ممبران کمیٹی نے بھی سپریم کورٹ کے ججز کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگا دیئے اور کہا کہ بتائیں ججز کیوں سیاست میں پھنسے رہتے ہیں اور اپنا کام مکمل نہیں کرتے واضح رہے کہ سپریم کورٹ میں ججز بڑھانے کا بل اپر ہاؤس سے منظوری کے بعد لوئر ہاؤس میں جمع کروایا گیا تھا جسے لوئر ہاؤس نے نامنظور کر دیا ہے کمیٹی نے سٹیڈنگ اٹارفنی جنرل اک عہدہ کا نام تبدیل کر کے اسسٹنٹ اٹارنی جنرل کرنے کا بل متفقہ طور پر منظور کر لیا اور کمیٹی نے اٹارنی جنرل کی تنخواہوں کے بارے میں بھی تحفظات کا اظہار کر دیا کہ ان کی تنخواہیں کم ہیں اور کمیٹی اٹارنی جنرل کے پرائیویٹ پریکٹس کے بل کو بھی منظور کر لیا جس کے تحت کوئی بھی اٹارنی جنرل اب پرائیویٹ پریکٹس نہیں کرے گا۔

قانون و انصاف کے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ اس وقت ملک میں تقریباً 130 اٹارنی جنرل عہدوں پر کام کر رہے ہیں اور تقریباً ڈیڑھ لاکھ ماہانہ تنخواہ ادا کی جاتی ہے ایک اور بل جس میں سپریم کورٹ میں عورت بطور چیف جسٹس کے عہدے کے حوالے تھا کو کمیٹی نے نامنظور کر دیا ہے ممبران کمیٹی کا کہنا تھا کہ ہم ان کیلئے کوئی کوٹہ مختص نہیں کر سکتے اور جو بھی اہل ہو گا وہ سپریم کورٹ کا جج تعینات ہو سکتا ہے کمیٹی نے وومن ہراسمنٹ کا بل انسانی حقوق کی کمیٹی کو بھجوا دیا ہے کہ وہ اس پر بات کرنے کے بعد خود فیصلہ دے گی کیونکہ اضافی حقوق کی کمیٹی میں 14 سے زیادہ عورتیں ممبران کمیٹی ہیں ممبر قومی اسمبلی صاحبزادہ طارق اللہ نے کمیٹی میں بل جمع کرا دیا تھا کہ عام مقدمات کی سماعت کیلئے ٹائم فریم دیا جائے جس کے مطابق ایک سول مقدمے کو 2 سے 3 ماہ میں نمٹانا لازمی ہو جس کی وجہ سے لاکھوں مقدمات پینڈنگ پڑے ہوئے ہیں جس پر قانون و انصاف حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ اگر کوئی مقدمہ وقت پر حل نہیں ہوتا اس کا فیصلہ وقت پر نہیں سنایا جاتا تو اس کیلئے آئین میں شق موجود ہے کہ اس کے خلاف کارروائی کی جائے کہ فیصلہ وقت پر کیوں نہیں ہوا وزیر مملکت برائے قانون و انصاف نے کہا کہ اس حوالے سے ایک بل لایا جا رہا ہے جس کی منظوری کے بعد مقدمات کے حل کیلئے پراپر وقت دیا جائے گا اور اس وقت کے اندر مقدمے کو نمٹانا لازمی ہو گا چیئرمین کمیٹی نے ممبر قومی اسمبلی صاحبزادہ طارق اللہ نے عوام کے درد کو محسوس کرنے پر شکریہ ادا کیا۔