پانامہ لیکس،پارٹی میٹنگز میں طے ٹی او آرز کی کوئی قانونی حیثیت نہیں،صرف وفاقی کابینہ میں طے ٹی او آرز ہی چیف جسٹس کو بھیجے جا سکتے ہیں،افتخار محمد چوہدری

وزیر اعظم کی طرف سے سپریم کورٹ کو بھیجے گئے ٹی او آرز اپنی افادیت پہلے ہی کھو چکے ہیں، مشرف کا بیرون ملک جانا کھلا مذاق ہے ، قرض اتارو ملک سنوارو سکیم کے اربوں روپوں کا بھی احتساب ہونا چاہیے، سربراہ جسٹس ڈیمو کرپاکستان جسٹس ڈیموکریٹک پارٹی کی گفتگو

اتوار 1 مئی 2016 17:29

رحیم یار خان(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔01 مئی۔2016ء) سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ پارٹی میٹنگز میں طے کیے گئے ٹی او آرز کی کوئی آئینی اور قانونی حیثیت نہیں ہے ۔پانامہ لیکس کے حوالے سے صرف وفاقی کابینہ میں طے کیے جانے والے ٹی او آرز ہی آئینی اور قانونی طور پر چیف جسٹس آف پاکستان کو بھیجے جا سکتے ہیں ۔گزشتہ روز رحیم یار خان میں ”آن لائن“ سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم محمد نواز شریف کی طرف سے سپریم کورٹ کو بھیجے گئے ٹی او آرز اپنی افادیت سپریم کورٹ میں جانے سے پہلے ہی کھو چکے ہیں کیونکہ سپریم کورٹ میں ان کی طرف سے لیا گیا ایک سوموٹو نمبر 26/2007 زیر بحث ہے جس میں انہوں نے 1997 سے 2009ء تک 50 لاکھ سے زیادہ قرضہ معاف کروانے والوں کا کھوج لگانے کیلئے ایک کمیشن قائم کیا تھا اور اس کمیشن کی رپورٹ اور سفارشات بھی آ چکی ہیں اس لیے سپریم کورٹ کو آئینی طور پر پہلے اس کمیشن کی رپورٹ پر فیصلہ جاری کرنا چاہیے اور اس فیصلے کے بعد مذکورہ ٹی او آرز کی اہمیت ختم ہو کر رہ جائے گی ۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ اگر چیف جسٹس آف پاکستان نواز شریف کی طرف سے بھیجے گئے ٹی او آرز تبدیل کرنا چاہیں تو انہیں اس کیلئے کوئی ٹھوس مواد پیش کرنا پڑے گا اور انہیں یہ بھی بتانا پڑے گا کہ یہ مواد انہوں نے کہا سے حاصل کیا ہے تاہم چیف جسٹس آف پاکستان کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ ترجیحی بنیادوں پر کن ٹی او آرز کی پہلے تحقیقات کرنا چاہیں گے ۔انہوں نے مزید کہا کہ 1999ء کے ظفر علی شاہ کیس میں اس وقت کی حکومت نے شریف فیملی کی کرپشن کے خلاف تمام ثبوت سپریم کورٹ میں دیے تھے اور شریف فیملی کی طرف سے آج تک ان ثبوتوں کے خلاف کوئی صفائی پیش نہیں کی گئی ۔

سپریم کورٹ کو چاہیے کہ وہ اس کیس کو بھی ان ٹی او آرز کا حصہ بنا دے جس سے توقع ہے کہ شریف فیملی کی کرپشن پوری طرح سامنے آ جائے گی ۔انہوں نے کہا کہ پانامہ لیکس میں شریف فیملی پر انتہائی سنگین الزامات عائد کیے گئے ہیں اس لیے وزیر اعظم نواز شریف کو چاہیے کہ وہ اپنے عہدے سے فوری طور پر مستعفی ہو جائیں تاکہ ان الزامات کی شفاف طریقے سے تحقیقات یقینی بنائی جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ 1998ء میں ایٹمی دھماکے کے وقت نواز شریف حکومت نے تمام فارن کرنسی اکاؤنٹس اور بینک لاکرز منجمند کر دیے تھے لیکن اطلاعات کے مطابق شریف فیملی نے اس رات ہنگامی طور پر تمام بینک کھلوا کر تمام بینکوں اور لاکرز سے اپنی فارن کرنسی اور قیمتی سامان نکلوا لیا تھا جبکہ 1997ء میں نواز گورنمنٹ کی طرف سے شروع کی گئی قرض اتاروں ملک سنواروں سکیم میں جمع ہونے والے اربوں روپے کا بھی آج تک آڈٹ نہیں ہوا اور نہ ہی اس سکیم کے تحت جمع ہونے والے پیسیوں سے کوئی قرض اتارنے کا دستاویزی ثبوت موجود ہے اس لیے شریف خاندان کا ان دونوں حوالوں سے بھی احتساب ہونا چاہیے ۔

انہوں نے مزید کہا کہ جنرل پرویز مشرف کا بیرون ملک جانا پاکستانی آئین و قانون کے ساتھ ایک کھلا مذاق ہے جس کی مکمل تحقیقات ہونی چاہے ۔انہوں نے کہا کہ ان کی سیاسی پارٹی ”پاکستان جسٹس ڈیموکریٹک پارٹی“ نے ملک بھر سے بڑی تعداد میں لوگ شامل ہو رہے ہیں اور عنقریب وہ اپنی پارٹی کے ضلعی اور صوبائی انتخابات بھی کروا رہے ہیں تاہم انہوں نے اس افسوس کا اظہار کیا کہ ان کا کسی بھی سیاسی پارٹی سے الحاق نہیں ہو سکتا کیونکہ اس وقت پاکستان میں کوئی بھی سیاسی پارٹی غریبوں کو اوپر لانے اور اپنے احتساب پر یقین نہیں رکھتی ۔