سی پیک چین پاکستان تعاون کی درخشاں مثال ہے ، احسن اقبال

پاک چین راہداری کے تحت موجودہ منصوبے دو سال کے اندر واضح کامیابی سے ہمکنار ہونگے پاکستان کے دفاتر ، فیکٹریاں ، گھر اور ہسپتال جمگمگ کرنے لگیں گے ، گلوبل ٹائمز سے انٹرویو

جمعہ 29 اپریل 2016 18:34

بیجنگ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔29 اپریل۔2016ء ) وفاقی وزیر منصوبہ بندی ، ترقی و اصلاحات احسن اقبال نے بیجنگ میں ایک خصوصی انٹرویو میں گلوبل ٹائمز کو بتایا کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک ) کے تحت موجودہ منصوبے د و سال کے اندر واضح کامیابی دکھائیں گے جبکہ یہ منصوبے پہلے ہی چین اور پاکستان کے درمیان کاروباری تبادلوں کو فروغ دے رہے ہیں ۔

میڈیا اطلاعات کے مطابق سی پیک ’’ ون بیلٹ ، ون روڈ ‘‘ (بی اینڈ آر ) منصوبے کا پرچم بردار منصوبہ ہے ، شاہراہ ریشم اقتصادی بیلٹ کے سابقہ نام والا اور 21ویں صدی کا بحری شاہراہ ریشم منصوبہ 2013ء میں تجویز کیا گیا تھا۔ احسن اقبال نے کہا کہ سی پیک دنیا میں پہلا منصوبہ ہے جو دنیا کو یہ بتائے گا کہ ون بیلٹ ، ون روڈ تصور ایک حقیقت ہے ۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ 2015ء میں توانائی کے شعبے میں اہم پیشرفت ہوئی ہے اور اس سے پاکستان کو توانائی کی شدید کمی پر قابو پانے میں مدد ملی ہے ، 2015ء میں بجلی پیداکرنے والے متعدد منصوبوں پر کام میں خوش اسلوبی سے پیشرفت ہوئی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ان منصوبوں میں پورٹ قاسم میں کوئلے سے چلنے والا ، ساہیوال میں کوئلے سے چلنے والا ایک اور منصوبہ اور تھر میں کوئلے کی کان اور بجلی کے پیداواری منصوبے شامل ہیں ۔

انہوں نے کہا ہمیں امید ہے کہ ان منصوبوں کی بدولت ہم 16000میگاواٹ کی گنجائش کا اضافہ کر سکیں گے اور ان پر کام انتہائی تیز بنیاد پر آگے بڑھ رہا ہے ، یہ منصوبے 2017ء کے اواخر سے ایک ایک کر کے مکمل کئے جائیں گے اور توانائی کی قلت کے مسئلے پر 2018ء کے موسم گرما میں قابو پا لیا جائے گا ۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک پاکستان کے توانائی کے بحران کو حل کرنے میں مدد کررہا ہے اور اس سے دفاتر ، فیکٹریاں ، گھر اور ہسپتال جگمگا اٹھیں گے ۔

انہوں نے مزید کہا کہ بجلی میں تعاون جو سی پیک چین اور پاکستان کے درمیان تعاون کی درخشاں مثال ہو گا ، چینی کمپنیوں کے لئے توانائی کے شعبے میں تعاون زبردست کاروباری مواقعوں کی پیشکش کرتا ہے کیونکہ یہ تجارتی شرحوں پر سرمایہ کاری ہیں اور حکومت پاکستان بجلی خریدے گی۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ چینی کنٹریکٹرز کاکہنا ہے کہ وہ یہ منصوبے چین میں اسی قسم کے ورک لوڈ والے منصوبے مکمل کرنے کی طرح زیادہ تیزی سے مکمل کریں گے ، وہ ایسا پاکستان کی مدد کے جذبے سے سرشار ہونے کے پیش نظر کریں گے ، مزید برآں وہ ایسا پاکستانی حکومت کی طرف سے دی جانے والے زبردست حمایت کی بدولت بھی کر سکیں گے۔

گوادر بندر گاہ کے بارے میں احسن اقبال نے کہا کہ گوادر بندر گاہ کے آس پاس اور اندر بنیادی ڈھانچہ میں پیشرفت والی بہتری سے دونوں ممالک کے درمیان بزنس تبادلوں کو زبردست فروغ حاصل ہوا ہے ، گوادر بندرگاہ جنو ب مغربی پاکستان میں گہری پانی والی بندرگاہ ہے اور یہ بحیرہ عرب میں آبنائے ہرمز کے گیٹ وے پر واقع ہے ۔ انہو ں نے کہا پورٹ آپریٹر کو توقع ہے کہ 20ہزار چینی کاروباری افراد سرمایہ کاری کی گنجائش بارے تحقیقات کے لئے ایک سال کے اندر بندرگاہ کا دورہ کریں گے ۔

انہوں نے کہا کہ اس قدر زیادہ کاروباری افراد کی آ مد سے پاکستان کو بندر گاہ کی تیزی سے ترقی میں مدد ملے گی ۔انہوں نے کہا کہ حکومت پاکستان نے ایک فری ٹریڈ زون پرکام کی رفتار تیز کرنے کے لئے 2015ء میں اراضی پورٹ کے آپریٹر چائنا اوورسیز پورٹس ہولڈنگ کمپنی کے حوالے کردی ہے اور بنیادی ڈھانچہ تعمیرکیا جارہا ہے اور موجودہ بڑی شاہراؤں سے بندرگاہ کو ملانے والی ایکسپریس ویز اور ایک آپریٹر کی تعمیر میں بھی پیشرفت ہوئی ہے ، ہر ماہ چین کے کاروبار ی وفود پاکستان آتے ہیں اور پاکستانی کاروباری افراد کے ساتھ مواقعوں کے بارے میں تبادلہ خیال کرتے ہیں سب سے بڑا موقعہ یہ ہے کہ ہمارے پاس چین میں سرمایہ کاری اور ٹیکنالوجی ہے اور پاکستان میں لوکیشن اور کم لاگت والی پیداوار ہے ، ان چاروں عوامل کی بدولت ہم برآمد کے لئے کئی مسابقتی اشیاء تیار کر سکتے ہیں ، گوادر بندرگاہ اپنی گنجائش اور مستقبل کے پیداواری موقعوں کی وجہ سے بھی منفرد اہمیت کی حامل ہے وہاں ایسی سڑکیں ہیں جو بندرگاہ کو کوئٹہ ، بلوچستان صوبہ اور سندھ صوبہ سے ملائیں گی ۔

توقع ہے کہ یہ سڑکیں رواں سال کے اواخر تک مکمل کر لی جائیں گی ۔ انہوں نے کہا کہ بہتر رابطوں کی بدولت پاکستان اور شہروں میں کئی کاروباری افراد یہ چاہیں گے کہ ان کی مصنوعات گوادر بندرگاہ کے ذریعے بھیجی جائیں ، وسطی ایشیا کی ممالک کی بھی یہ خواہش ہے وہ بیرونی دنیا کے ساتھ اپنی تجارت کے لئے گوادر بندر گاہ کو استعمال کریں ، گوادر بندرگاہ میں خلیج فارس کی بندرگاہوں کی خدمت کرنے کی بھی صلاحیت موجود ہے کیونکہ خلیج کی بندر گاہوں پر آنے والے بڑے جہازوں کو خلیج سے آنے اور جانے میں کلیرنس کی مشکلات درپیش ہیں ، اس طرح انہیں سامان اتارنے اور چڑھانے میں تین سے چاردن لگے ہیں ،اگر بڑے جہاز گوادر آئیں اور یہاں چھوٹے جہاز ان کا سامان خلیجی بندر گاہوں پر پہنچائیں تو اس سے گوادر بندرگاہ زبردست منتقلی والی بندر گاہ بن جائے گی ۔