واشنگٹن کی لائبریری آف کانگریس مرکزی ہال کے گنبدمیں 160 فٹ کی بلندی پر نقاشی کو غور سے دیکھیں حیرانگی سے آپ کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گئی۔دیگراقوام کے ساتھ مسلمانوں کی تخلیقی خدمات کو نقاشی میں خراج عقیدت پیش کیا گیا ہے- 2007میں کیتھ ایلیسن پہلے مسلمان کانگرس مین کا حلف اٹھایا توان کے ہاتھ میں قرآن مجید کا وہ نسخہ تھا جو تیسرے امریکی صدر اور اعلان آزادی کے مصنف تھامس جیفرسن کی ذاتی لائبریری کا حصہ تھا:امریکی مسلمانوں کے کردارپر خصوصی رپورٹ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعہ 29 اپریل 2016 14:06

واشنگٹن کی لائبریری آف کانگریس مرکزی ہال کے گنبدمیں 160 فٹ کی بلندی پر ..

واشنگٹن(ا ردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔29اپریل۔2016ء) سمیر منصور موبائل ایپ اور نفاذ قانون کے ڈیش بورڈ LiveSafe کے بانی ہیں جو کمیونٹی کے تحفظ کے لئے ایک آلے کے طور پر استعمال کی جاتی ہے۔ وہ بنگلہ دیش تکثریتی منصوبے کے بانی اور ڈائریکٹر بھی ہیں، جو بنگلہ دیش میں سول سوسائٹی اور عالمی مشغولیت کی معاونت کرتا ہے انہوں نے امریکہ کی معاشرتی زندگی پر گہری تحقیق کی ہے-اپنے تحقیقی مقالے میں انہوں نے چند ایسے انکشافات کیئے ہیں جوکہ شاید امریکہ میں پیدا ہونے والے مسلمانوں کے علم میں بھی نہ ہوں -وہ لکھتے ہیں کہ واشنگٹن میں واقع لائبریری آف کانگریس میں مطالعے کے مرکزی کمرے میں 160 فٹ کی بلندی پر نقاشی سے مزین گنبد کو غور سے دیکھیں حیرانگی سے آپ کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گئی۔

(جاری ہے)

لائبریری کے مرکزی گنبد پر پروں والے 12 مردوں اور عورتوں کی تصاویر بنائی گئی ہیں جو تہذیبی ترقی میں کردار ادا کرنے والے مختلف ادوار اور روحانی اثرات کی نمائندگی کرتی ہیں۔ تاریخ کے ان روشن ستاروں کے درمیان ایک کانسی رنگ کا مجسمہ ہے، جسے ایک سائنسی آلے کے ذریعے گہری سوچ کے انداز میں دکھایا گیا ہے۔ اس کے برابر میں ایک تختی ہے جواس روحانی طاقت کی منادی کرتی ہے جس کی وہ نمائندگی کرتی ہے اسلام۔

یہ حقیقت کہ امریکی کانگرس کی عمارت سے چند قدموں کے فاصلے پر دنیا کی سب سے بڑی لائبریری، دیگر گروہوں کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے تخلیقی کارناموں کو خراج عقیدت پیش کرتی ہے، امریکی تشخص کے ایک مرکزی اصول کا اعادہ کرتی ہے یعنی امریکہ نہ صرف تنوع سے پیدا ہونے والا ایک ملک ہے، بلکہ وہ ایک ایسا ملک بھی ہے جو تنوع کی وجہ سے پھل پھول رہا ہے۔

اورایسا حادثاتی نہیں بلکہ ارادی طور پر ہوا ہے۔ملک کے بانیوں کو احساس تھا کہ ریاستوں کا نازک اتحاد جس سے ابتدائی ریاستہائے متحدہ کا قیام عمل میں آیا، صرف اس صورت میں اپنا وجود قائم رکھ سکے گا اگر وہ اپنے متنوع، مسابقتی - اور بسا اوقات باہم متصادم - مذہبی اور نسلی گروہوں کو ایک نئے، اجتماعی اور قومی تشخص کی لڑی میں پرو سکے۔ تخلیقی اور جامع تصفیوں کے بغیر، یہ نازک ملک بڑی آسانی سے فرقہ ورانہ تقسیم کی صورت میں ٹوٹ سکتا تھا۔

تخلیقی حل جو بانیوں نے وضع کیا وہ ملک کا ایک ایسا آئین تھا جس کے تحت افراد کی مذہبی عبادت اور نظریات کی آزادی کے حق کو سب سے مقدم رکھا گیا۔ یہ آزادی کے وعدے کی بنیاد پر قائم کی گئی صرف اس سرزمین کوجچتا تھا جس کا آغاز فرد کی دلی اور ذہنی آزادی سے کیا گیا۔تقریبا 250 سال قبل یہ ایک انقلابی تصور تھا – یہ ایک ایسی پر خطر کاوش تھی جس کی جدید دور میں کوئی مثال نہیں تھی۔

لیکن ماضی کو دیکھتے ہوئے، یہ بات حیران کن نہیں کہ دستور کی نظریات اور عبادت کی آزادی کی قانونی ضمانتیں ایک مذہبی طور پر متنوع اور متحرک معاشرے کو جنم دیں گی۔ اور اگرچہ ایسی کہانیاں کہ کس طرح مختلف النوع لوگ امریکی شہری بنے ہمیشہ تصادم اور المناک واقعات سے پاک نہیں ہیں، امریکہ کی اس وقت جاری کہانی تنوع کے ذریعے اتحاد کی مسلسل روداد ہے۔

بنیادی طور پر اپنے کھلے پن کی وجہ سے، امریکہ اس وقت دنیا کے ثقافتی اور مذہبی طور پر سب سے متنوع ممالک میں سے ایک ہے - یہاں تک کہ 30 سالوں کے اندر، اس کی اقلیتی آبادیاں اس کی اکثریت سے تعداد میں بڑھ جائیں گی۔ منظم امتیازی سلوک کا سامنا کرنے کے خوف کے بغیر، امریکی شہری اپنے مذہب پر عمل کرنے، اپنے نظریات کا اظہار کرنے اور اپنی ذاتی امنگوں کو پورا کرنے کے لئے اپنی تخلیقی توانائیوں کو استعمال کرنے کے لئے آزاد ہیں۔

اس کا نتیجہ نظریات کی ایک متحرک منڈی ہے جہاں سب کو اپنی رائے کا اظہار کرنے کا حق حاصل ہے، جب تک کہ وہ دوسروں کے حقوق کا احترام کرتے ہیں۔امریکی زندگی کے بہت سارے پہلووں کی طرح، امریکہ میں مذہبی عبادت بھی باہمی احترام کے جذبے سے سرشار ہے۔ مثال کے طور پر، رمضان کے مہینے کے دوران مساجد اپنے دروازے دیگر عقائد کے پڑوسیوں کے لئے کھول دیتی ہیں تاکہ وہ غروب آفتاب کے وقت افطار میں شریک ہو سکیں۔

امریکہ میں جہاں مسلمان افطار کی دعوتوں کا اہتمام کرتے ہیں وہیں دیگر مذاہب کی جانب سے بھی افطارپارٹیوں کا اہتمام کیا جاتا ہے جن میں مختلف مذاہب کے لوگ شرکت کرتے ہیں۔ اس طرح کے مناظر پورے امریکہ میں معمول بن گئے ہیں کیوںکہ کمیونٹیاں امریکی ہونے کے متنوع اور اجتماعی تجربے کا اشتراک کرنے اور اس سے لطف اندوز ہونے کے لئے ایک دوسرے کے قریب آ رہی ہیں۔

امریکہ میں مسلمان اپنی کمیونٹیوں کی سماجی اور معاشی ساخت میں کردار ادا کرتے ہیں۔ وہ ملک میں سب سے زیادہ تعلیم یافتہ اور سب سے زیادہ آمدنی والے گروہوں میں شامل ہیں، اور وہ اساتذہ، ڈاکٹروں، وکلاءاور انجنیئروں سے لے کر حکومت کی اعلی ترین سطحوں پر منتخب عہدیداروں تک، معاشرے کی ہر سطح پر شرکت کرتے ہیں۔ لائبریری آف کانگریس کا گنبد عظیم لائبریری میں رکھا گیا ایک اور قیمتی خزانہ ہے۔

جب امریکہ کے پہلے مسلمان رکن کانگریس، کیتھ ایلیسن، نے 2007 میں اپنے عہدے کا حلف اٹھایا تو انہوں نے قرآن مجید کا وہ نسخہ استعمال کیا جو تھامس جیفرسن اعلان آزادی کے مصنف اور امریکہ کے تیسرے صدرکی ملکیت تھا۔ لائبریری میں قرآن مجید کا یہ نسخہ، جس پر "ٹی جی" کے حروف ہاتھ سے لکھے گئے ہیں، جیفرسن کے تورات کے نسخے کے ساتھ رکھا گیا ہے۔

امریکہ کی کہانی مذہبی آزادی کی کہانی کے ساتھ شروع ہوئی۔ حکومت کے ایوانوں سے لے کر تاریخ کے محافظ خانوں تک، یہ وہ کہانی ہے جس نے بار بار اپنے آپ کو دہرایا ہے۔ یہ وہ کہانی ہے جو آج بھی ملک کی تشکیل میں کردار ادا کررہی ہے۔ امریکہ کے تنوع کی جانب غیر معمولی کھلے پن نے تحلیل کی طرف لے جانے کے بجائے متحرک سماجی اور اقتصادی ترقی کو جنم دیا ہے۔

ایک ایسی دنیا میں جہاں بہت سارے ممالک کو تین قوتوں عالمگیریت، ٹیکنالوجی اور سفر کی وجہ سے پیدا ہونے والے بڑھتے ہوئے تنوع کو قبول کرنا ہو گا، امریکہ کے تجربے اور امریکی شناخت کے قیام میں اس کے لئے ایک سبق ہے۔ یہ وہ سبق ہے جو امریکہ کی مہر پر کندہ کیے گئے لاطینی حروف میں مجسم ہے، اور امریکی شناخت کے مرکزی تصور کا خلاصہ پیش کرتا ہے: "E Pluribus Unum" بہت ساروں میں سے، ایک۔

متعلقہ عنوان :