امریکہ میں مسلمانوں کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی 19ویں صدی کے آخر میں خلافت عثمانیہ کے زیرِنگیں علاقوں سے شروع ہوئی‘ نیو یارک شہر، شکاگو اور ڈیٹرائٹ مسلمانوں کے ابتدائی مراکزہیں‘عرب مسلمانوں نے تجارت کا پیشہ اختیارکیا اور آج امریکہ کی بڑی تاجربرادری میں عرب گہرا اثرورسوخ رکھتے ہیں:امریکی مسلمان خصوصی سلسلہ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعہ 29 اپریل 2016 14:06

امریکہ میں مسلمانوں کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی 19ویں صدی کے آخر میں خلافت ..

واشنگٹن(ا ردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔29اپریل۔2016ء) امریکہ میں مسلمانوں کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی 19ویں صدی کے آخر میں خلافت عثمانیہ کے زیرِنگیں ان علاقوں سے شروع ہوئی، جن میں موجودہ دور کا لبنان، فلسطینی علاقے، شام اور ترکی شامل ہیں۔ زیادہ تر تارکین وطن نیو یارک شہر، شکاگو اور ڈیٹرائٹ جیسے بڑے شہری مراکز میں آباد ہوئے۔

انہوں نے تجارت کواختیارکیا- اس پیشے کی وجہ سےوہ شمالی ڈکوٹا، جنوبی ڈکوٹا اور آئیووا کے دیہی علاقوں، مشی گن اور الینوائے تک چلے گئے۔" امریکی بننا: ابتدائی عرب تارکین وطن کا تجربہ " میں دمشق سے آنے والے ان مسلمانوں کے بارے میں 1967 کی ایک اخباری سرگزشت کا حوالہ دیا گیا ہے جو 1902 کے لگ بھگ منیسوٹا کے علاقے کروکسٹن کے قریب آباد ہوئے۔

(جاری ہے)

پہلے پہل یہ مسلمان پہل کار شمالی ڈکوٹا میں پیدل چل کراپنا سامان بیچا کرتے تھے، لیکن جب ان کی مالی استطاعت میں اضافہ ہوا تو وہ گھوڑے اور بگھیاں استعمال کرنے لگے۔ حتیٰ کہ ان میں سے کچھ کامیاب بیوپاری گاڑیاں خریدنے کے قابل بھی ہو گئے۔کتاب کی مصنفہ ناف لکھتی ہیں کہ ان کو شمالی ڈکوٹا پسند تھا اور وہ تین مقامات - سٹینلے راس کے علاقے، روال ڈنسیتھ اور گلین فیلڈ بنفورڈ میں جمع ہو گئے تھے۔

اور جب انہوں نے بچت اور ادھارلے کر کافی رقم جمع کر لی اور زبان سیکھ لی تو وہ قانونی طور پر آبادکار بن گئے یا انہوں نے چھوٹے چھوٹے سٹور چلانا شروع کر دیے۔ شمالی ڈکوٹا کا علاقہ راس وہ جگہ تھی جہاں جدیدامریکہ میں معلوم شدہ پہلی مسجد 1929 میں تعمیر کی گئی۔ ناف شکاگو نقل مکانی کرکے آنے والی ایک ابتدائی تارک وطن کا حوالہ دیتے ہوئے کہتی ہیںمیں 1912 میں اپنے بھائی کے ساتھ شکاگو آئی۔

جہاں پہلے ہی سے ہمارے ایک چچا اور کزن رہتے تھے۔ انہوں نے ہمیں 18ویں اسٹریٹ پر ایک آرائش شدہ کمرہ دلوادیا۔ اپنی آمد کے اگلے ہی دن، ہم نے کام کرنا شروع کر دیا۔ ان دنوں 18ویں اسٹریٹ پر عربوں کے پاس پارچہ جات کے تھوک کے دو اسٹور تھے جہاں سے ہم پھیری والے اپنا سامان لیتے تھے۔ ہمارے پاس ایک سوٹ کیس ہوتا تھا جس میں لنن کے میزپوش، رومال، چھوٹے قالین، دستی رومال اور اسی طرح کا دوسرا سامان ہوتا تھا۔

دریں اثناءشمالی امریکہ کے بحر الکاہل کےساحل سے جنوبی ایشیائی تارکین وطن کی امریکہ آمد کا سلسلہ براستہ کینیڈا یا سان فرانسسکو میں واقع جزیرہ ای نجل پر واقع امیگریشن اسٹیشن سے شروع ہ±وا۔ "ہندو" کہلانے والے زیادہ تر یہ لوگ درحقیقت ہندوستان سے آنے والے پنجابی سکھ اور مسلمان تھے۔ جنوبی ایشیائی امریکیوں کے بارے میں وسیع پیمانے پر لکھنے والے دانشور کیرن اساکسن لیونارڈ کے مطابق، مسلمان ابتدائی تارکین وطن کا تقریبا 10 سے 12 فیصد تھے۔

خوش بختی کے متلاشی یہ نوجوان افراد مغربی علاقوں میں کھیتوں، ریلوے کی تعمیر یا لکڑی کی ملوں میں اس وقت تک کام کرتے رہتے جب تک وہ زمین خریدنے یا پٹے پر لینے کے قابل نہ ہو جاتے۔ ان میں سے چند ایک افراد جو یونیورسٹیوں میں داخلہ لینے کی استطاعت رکھتے تھے، وہ برکلے میں یونیورسٹی آف کیلی فورنیا جانا پسند کرتے تھے۔جب ایشیاءسے امریکہ نقل مکانی پر پابندی کے قوانین کو 1965 میں کالعدم قرار دیا گیا تو اس سے مسلمانوں کی غالب اکثریت والے ممالک کے تارکین وطن کے لئے دوبارہ دروازے کھل گئے اور بہت سے مزید مسلمانوں نے نقل مکانی کی۔

خاندان کے افراد کو امریکہ میں پہلے سے مقیم اپنے رشتہ داروں کے ساتھ رہنے کی اجازت دینے کے لئے امیگریشن قوانین میں مزید نرمی کی گئی۔ دیگر قوانین سے ہنرمند افراد کی نقل مکانی کرنے کی حوصلہ افزائی ہوئی۔ کافی تعداد میں لوگوں نے امریکی شہری بننے کے موقعے سے فائدہ اٹھایا جس وجہ سے آج پورے امریکہ میں ہر قسم کے پیشوں میں امریکی مسلمان ملتے ہیں۔

متعلقہ عنوان :