سینیٹ کی قائمہ کمیٹی خزانہ کا این جی اوز اور آئی این جی اوز کو ریگولیٹ کرنے کیلئے قانون و انصاف کمیٹی کو مناسب قانون بنانے کی سفارش کرنے کا فیصلہ

وفاقی ادارہ شماریات کے سربراہ کی جانب سے چھ ماہ تک بغیر حلف کام کرنے اور فنکشنل کمیٹی میں صوبوں کو نمائندگی نہ دینے کے معاملہ پر غور کیلئے ذیلی کمیٹی قائم ،وفاقی ادارہ شماریات کے معیشت کے حوالے سے اعداد و شمار میں تضادات کے حوالے سے تحقیقات کا فیصلہ

جمعرات 28 اپریل 2016 19:21

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔28 اپریل۔2016ء) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے ملک میں کام کرنے والی این جی اوز اور آئی این جی اوز کو ریگولیٹ کرنے کیلئے قانون و انصاف کی قائمہ کمیٹی کو مناسب قانون بنانے کیلئے سفارش کرنے کا فیصلہ کیا، سینیٹرسسی پلیجو کی جانب سے وفاقی ادارہ شماریات کے سربراہ آصف باجوہ کی جانب سے چھ ماہ تک بغیر حلف کے کام کرنے اور ادارے کی فنکشنل کمیٹی میں صوبوں کو نمائندگی نہ دینے کے حوالے سے معاملہ پر غور کیلئے ذیلی کمیٹی بنا دی گئی ۔

اجلاس کے دوران صحافیوں کی جانب سے کمیٹی کے گزشتہ اجلاس کے دوران چیئرمین کمیٹی سینیٹر سلیم مانڈوی والا کے سٹاف کی جانب سے صحافیوں کے ساتھ نازیبا رویہ اختیار کرنے پر واک آؤٹ کیا گیا،وفاقی ادارہ شماریات کی جانب سے معیشت کے حوالے سے اعداد و شمار میں تضادات کے حوالے سے بھی تحقیقات کا فیصلہ کیا۔

(جاری ہے)

جمعرات کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت ہوا۔

نیشنل بینک کے مینجمنٹ ٹرینی آفیسرز(ایم ٹی او) کی ترقیوں کے حوالے سے دائر کی گئی پٹیشن پر غور کے بعد کمیٹی نے وزارت خزانہ کو ہدایت کی کہ بینک میں ترقیوں کے حوالے سے رپورٹ جلد سے جلد مکمل کر کے کمیٹی کو بھجوائی جائے۔ کمیٹی میں ملک میں کام کرنے والی این جی اوز اور آئی این جی اوز کے حوالے سے معاملات زیر بحث لائے گئے، کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ ملک میں کام کرنے والی این جی اوز اور آئی این جی اوز کو ریگولیٹ کر نے کیلئے مناسب قانون بنانے کیلئے قائمہ کمیٹی قانون و انصاف کو سفارشات بھیجنے کا فیصلہ کیا۔

سینیٹر مشاہد اﷲ خان نے کہا کہ میرے اندازے کے مطابق ایک لاکھ سے زائد این جی اوز اس وقت ملک میں کام کر رہی ہیں، این جی اوز کے مخفی ایجنڈے ہوتے ہیں اور تھوڑے سے پیسہ لگاتے ہیں اور ملک کو نقصان پہنچاتے ہیں، این جی اوز پارلیمنٹ تک گھس آئی ہیں۔ سیکرٹری اقتصادی امور طارق باجوہ نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ 26آئی این جی اوز نے وزارت داخلہ میں رجسٹریشن کرالی ہے باقی پائپ لائن میں ہیں۔

سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ این جی اوز کھلے عام کام کرتی ہیں۔ سینیٹر فتح محمد حسنی نے معاملہ اٹھایا تھا کہ بلوچستان میں کام کرنے والی این جی اوز ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ اجلاس میں سینیٹر سسی پلیجو کی جانب سے وفاقی ادارہ شماریات کمیں صوبوں کی نمائندگی کے حوالے سے قرار داد کو زیر بحث لایا گیا۔ سیکرٹری شماریات آصف باجوہ نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ کمیٹی کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے سب صوبوں کی نمائندگی پوری کرنی ہے، قانون کے تحت تمام صوبوں کی ادارہ شماریات میں نمائندگی کی شرط ضروری نہیں ہے۔

سینیٹر سسی پلیجو نے کہا کہ ادارے کے موجودہ سربراہ آصف باجوہ نے چھ ماہ تک بغیر حلف لئے کام کیا اور اہم فیصلے کئے جو غیر آئینی اور غیر قانونی ہیں اور ادارے کے کنکشنل ممبرز کی بھرتیاں بھی کی گئیں جس میں صوبوں کو برابر نمائندگی نہیں دی گئی۔ وفاقی ادارہ شماریات کے سربراہ آصف باجوہ نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ ادارہ کی سربراہی سے پہلے بطور قائم سربراہ کام کیا اور قانون کے تحت کام کیا، ادارے کے سربراہ کی ذمہ داری ملنے کے بعد بار بار صدر کو خط لکھنے کے باوجود صدر کی جانب سے حلف لینے کیلئے وقت نہیں دیا گیا۔

بعد ازاں قائمقام صدر سے حلف لیا۔ کمیٹی نے معاملہ کی تحقیقات کیلئے کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا۔ سینیٹر کامل علی آغا نے کمیٹی کی سربراہی قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے چیئرمین کمیٹی پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کمیٹی کے چیئرمین میں جان ہی نہیں ہے، ہیوی الیکٹریکل کمپلیکس (ایچ ای سی) کی نجکاری کے حوالے سے میں نے جو رپورٹ پیش کی اس پر بحث ہی نہیں ہو گی۔ کہا گیا ہے کہ کرپشن سخت لفظ ہے کسی کی خواہش پر رپورٹ نہیں بنا سکتا۔ اجلاس کے دوران صحافیوں کی جانب سے کمیٹی کے گزشتہ اجلاس کے دوران چیئرمین کمیٹی کے ذاتی سٹاف کی جانب سے صحافیوں کے ساتھ نازیبا رویہ اختیار کرنے پر واک آؤٹ کیا۔ سینیٹر مسعود مجید کی مداخلت کے بعد صحافیوں نے واک آؤٹ ختم کر کے اجلاس کی کوریج کی۔

متعلقہ عنوان :