امریکہ میں خود کشی کی شرح بڑھ کر تین دہائیوں میں سب سے زیادہ ہو گئی،رپورٹ

ہفتہ 23 اپریل 2016 14:11

نیویارک(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔23 اپریل۔2016ء ) امریکہ میں خود کشی کی شرح بڑھ کر تین دہائیوں میں سب سے زیادہ ہو گئی ۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق ایک تازہ رپوٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ امریکہ میں خود کشی کی شرح بڑھ کر تین دہائیوں میں سب سے زیادہ ہو گئی ہے۔پورے امریکہ میں کی جانے والی ان خودکشیوں میں سے ایک تہائی درمیانی عمر کے سفید فام لوگوں کی ہیں۔

بیماریوں سے تحفظ اور کنٹرول کے ادارے کی اس رورٹ میں اس اضافے کی وجہ نہیں بتائی گئی۔تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ 2008 کے بعد سے آنے والے معاشی بحران کے بعد پیدا ہونے والے حالات میں نشے کا استعمال اس کی وجوہات میں شامل ہے۔اس تازہ رپورٹ میں خود کشی کے واقعات کی تعلیم اور معاشی حالات کے اعتبار سے درجہ بندی نہیں کی تاہم اس سے پہلے آنے والے جائزوں کے مطابق ایسے سفید فام لوگوں میں خود کشی کا رجحان زیادہ تھا جن کے پاس یونیورسٹی کی ڈگری نھیں تھی۔

(جاری ہے)

ہارورڈ میں پبلک پالیسی کے پروفیسر رابرٹ ڈی پٹنم کا کہنا تھا یہ بھی غربت، مایوسی اور صحت کے باہمی تعلق کے بارے میں سامنے آنے والیثبوتوں کا حصہ ہے۔سی ڈی سی کی رپورٹ کے مطابق امریکہ میں ہر ایک لاکھ نفوس میں سے تین خود کشی کر رہے ہیں۔ جو 1986 کے بعد سب سے زیادہ ہے۔تاہم اسی دورانیے میں قتل اور بیماریوں جیسے کہ دل کے عارضے اور کینسر سے ہونے والی ہلاکتوں میں کمی آئی ہے۔

ماضی میں بھی سفید فام لوگوں میں خود کشی کا رجحان زیادہ عام تھا لیکن حالیہ برسوں میں اس میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔سی ڈی سی کے مطابق 1999 سے 2014 کے درمیان خودکشی کی شرح 24 فیصد بڑھی ہے۔ یہی شرح 45 سے 64 سال کی عمر کے سفید فام مردوں میں 43 فیصد تک بڑھی اور اسی عمر کی خواتین میں خود کشی کا رجحان 63 فیصد بڑھا۔ 2014 میں درمیانی عمر کے 14000 لوگوں نے اپنی جان لی۔اگر اس میں سیاہ فاموں سمیت دیگر نسلوں کے لوگوں کو بھی شامل کر لیا جائے تو یہی تعداد دونگی ہو جاتی ہے ۔خود کشی کا راجحان اگر کم ہوا تو وہ سیاہ فام مروں اور 75 برس کی عمر سے زیادہ کے تمام لوگوں میں ہوا۔

متعلقہ عنوان :