پانامہ لیکس کی تحقیقات کیلئے اپوزیشن جماعتوں میں 6 نکات پر اتفاق رائے ہو گیا ہے ، تحقیقات انٹرنیشنل فرانزک آڈٹ فرم سے کرائی جا ئے گی ، سب سے پہلے وزیر اعظم ، ان کے خاندان اور اتفاق گروپ کی آف شور کمپنیوں کی تحقیقات کی جائینگی ، فرانزک آڈٹ فرم کی رپورٹ ممکنہ جوڈیشل کمیشن کو پیش کی جائے گی ، فرانزک آڈٹ فرم کی ہائرنگ بارے تمام ٹی اوآرز

پر بھی مکمل اتفاق ہو گیا ہے ، وزیر اعظم کے صاحبزادے بتائیں کہ مے فیئر کمپنی بنانے کیلئے سرمایہ کہاں سے آیا ، دوسرے آپشن کے طور پر پارلیمانی کمیٹی کا قیام بھی زیر غور ہے ،اس کا چیئرمین اپوزیشن سے ہوگا سینیٹ میں قائد حزب اختلاف اعتزاز احسن کا پانامہ لیکس بارے سینیٹر مشاہد حسین سید کی تحریک پر بحث کے دوران اظہار خیال

جمعرات 21 اپریل 2016 22:22

اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔21 اپریل۔2016ء ) سینیٹ میں قائد حزب اختلاف اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ پانامہ لیکس کی تحقیقات کے لئے اپوزیشن جماعتوں میں 6 نکات پر اتفاق رائے ہو گیا ہے جن کے تحت پانامہ لیکس کی تحقیقات انٹرنیشنل فرانزک آڈٹ فرم سے کروائی جائے ، فرم پانامہ لیکس میں آنے والے تمام پاکستانیوں میں سے سب سے پہلے وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے خاندان سمیت اتفاق گروپ کی آف شور کمپنیوں کی تحقیقات کرے گا ، فرانزک آڈٹ فرم کی رپورٹ چیف جسٹس آف پاکستان کے بنائے گئے جوڈیشل کمیشن کو پیش کی جائے گی ، فرانزک آڈٹ بنانے کے تمام ٹرم آف ریفرنس پر بھی مکمل اتفاق ہو گیا ہے ، سب سے پہلے وزیر اعظم کے صاحبزادے یہ بتائیں کہ مے فیئر کمپنی بنانے کے لئے سرمایہ کہاں سے آیا ،تحقیقات کے لئے دوسرے آپشن کے طور پر پارلیمانی کمیٹی پر بھی تمام جماعتوں میں اتفاق ہے، پارلیمانی کمیٹی کا چیئرمین اپوزیشن کی جانب سے ہوگا۔

(جاری ہے)

وہ جمعرات کو سینیٹ میں پانامہ لیکس پر سینیٹر مشاہد حسین سید کی تحریک پر بحث میں حصہ لے رہے تھے ۔ پانامہ لیکس پر سینٹ میں گزشتہ چار دن بحث ہوئی جس پر 36 سینیٹرز نے 4گھنٹے 31 منٹ تک اظہار خیال کیا ۔ قبل ازیں جمعرات کو پانامہ لیکس کے حوالے سے تحریک پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے سینیٹر سعید غنی نے کہا کہ جب سے پانامہ لیکس کا ایشو سامنے آیا ہے تو دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں نے اس پر احتجاج کیا اور کئی ممالک میں وزراء اور سربراہان مستعفی ہوئے جب کہ برطانیہ کے وزیر اعظم کے والد کا نام بھی پانامہ لیکس میں آیا جس پر برطانیہ کے وزیر اعظم نے پارلیمنٹ میں پیش ہو کر اپنے اور خاندان کے اثاثہ جات اور ٹیکسز کی تفصیلات پیش کی مگر ہمارے وزیر اعظم پارلیمنٹ میں آنے کی بجائے ٹی وی پر خطاب کرنے چلے گئے ۔

وزیر اعظم نے قوم سے اپنے خطاب میں جوڈیشل کمیشن کا اعلان کیا مگر 20 دن گزر گئے اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی ۔ انہوں نے کہا کہ پانامہ لیکس کے انکشاف کے بعد وزیر اعظم اور ان کے بیٹوں کے بیانات میں تضاد ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم وزیر اعظم کے خاندان کی تعریف کرتے ہیں کہ وہ اتنا کامیاب کاروباری خاندان ہے کہ جس نے 5 سالوں میں قرضوں سے بنی سٹیل مل کا تمام قرضہ اتار دیا اور سٹیل مل سے ہونے والے منافع سے آف شور کمپنیاں بھی بنا دیں ۔

سینیٹر گیان چند نے کہا کہ ماضی میں بھی وزیر اعظم نواز شریف اسامہ بن لادن اور ایجنسیوں کے پیسے ہضم کر چکے ہیں۔ پانامہ کے معاملے پر ابھی بھی حکومت کا یہی رویہ نظر آتا ہے ۔ سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ پانامہ لیکس میں جتنے پاکستانیوں کے نام آئے ہیں ان کی اور جن کمپنیوں کے بھی نام پانامہ لیکس میں آئے ہیں ان کی تحقیقات ہونی چاہئیں ۔ ہمیں تحقیقات کے لئے کسی اور ادارے کی طرف نہیں جانا چاہیے بلکہ پارلیمان کے بنائے گئے قوانین کے مطابق انکوائری کمیشن سے تحقیقات کرانی چاہیے ۔

ایم کیو ایم کے سینیٹر میاں عتیق نے کہا کہ آف شور کمپنیاں بنانا کوئی غیر قانونی کام نہیں ہے ۔ پانامہ لیکس کے بعد دنیا بھر میں قانون سازی کی گئی مگر پاکستان میں قانون سازی کے بجائے الزام تراشی کی سیاست شروع ہو گئی ۔ انہوں نے کہا کہ پانامہ لیکس میں کوئی تو ایسی بات تھی کہ وزیر اعظم اگلے ہی روز قوم سے خطاب کرنے پہنچ گئے اور اپنی صفائی پیش کرتے رہے ۔

اس موقع پر سینیٹ میں قائد حزب اختلاف اعتزاز احسن نے کہا کہ پانامہ لیکس کا الزام بین الاقوامی سطح پر لگایا گیا ہے اگر یہ الزامات درست ہیں تو یہ تمام پیسے ملک سے مختلف سرحدوں کو عبور کرتے ہوئے گئے ہیں اس کی تحقیقات نیب ، ایف آئی اے یا ایف بی آر کے بس کی بات نہیں ہے ۔ پانامہ لیکس کے بارے میں ایک انٹرنیشنل آڈف فرم کی جانب سے تحقیقات کرائی جائیں تاکہ یہ پتا چلایا جا سکے کہ یہ پیسہ قانونی تھا یا غیر قانونی ۔

پیپلزپارٹی نے پانامہ لیکس کی تحقیقات کے لئے تمام جماعتوں نے اتفاق رائے پیدا کرنے کے لئے تحریک انصاف ، اے این پی ، جماعت اسلامی اور دیگر جماعتوں سے مشاورت کی ہے ۔ پانامہ لیکس کی تحقیقات کے لئے تمام جماعتوں میں 6 نکات پر اتفاق ہو چکا ہے ۔جس میں پانامہ لیکس کی تحقیقات انٹرنیشنل فرانزک آڈٹ فرم سے کروایا جائے گا ، فرم پانامہ لیکس میں آنے والے تمام پاکستانیوں میں سے سب سے پہلے وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے خاندان سمیت اتفاق گروپ کی آف شور کمپنیوں کی تحقیقات کرے گا ، فرانزک آڈٹ فرم کی رپورٹ چیف جسٹس آف پاکستان کے بنائے گئے جوڈیشل کمیشن کو پیش کی جائے گی ، فرانزک آڈٹ بنانے کے تمام ٹرم آف ریفرنس پر بھی مکمل اتفاق ہو گیا ہے ، سب سے پہلے وزیر اعظم کے صاحبزادے یہ بتائیں کہ مے فیئر کمپنی بنانے کے لئے سرمایہ کہاں سے آیا۔

انہوں نے کہا کہ جن نکات پر اتفاق ہوا ہے ان میں انٹرنیشنل فرانزک فرم کی یو این سے مشاورت کے لئے حکومت سہولت کار بنے گی ۔ تحقیقات کے لئے جوڈیشل کمیشن کے بعد دوسرے آپشن کے طور پر پارلیمانی کمیٹی پر بھی تمام جماعتوں میں اتفاق ہوا ہے ۔ پارلیمانی کمیٹی کا چیئرمین اپوزیشن کی جانب سے ہوگا