بلوچستان پاکستان کے رقبے کا 45فیصداور آبادی کے تقریباً 6فیصد پر مشتمل ہے

تیل ،گیس ،کوئلے ،سونا اور دوسری قیمتی معدنیات سے مالامال ہونے کے باوجود اس وقت ملک کا غریب ترین صوبہ ہے بلوچستان میں صرف 23فیصد آبادی کو پینے کا پانی دستیاب ہے باقی انسان اورمویشی ایک ہی تالاب سے پانی پیتے ہیں مضر صحت پانی پینے کی وجہ سے عوام گردے اور دیگر خطرناک بیماریاں میں مبتلا ہیں بجلی صوبے کے بارہ فیصدعلاقوں تک پہنچی ہے 86فیصد علاقہ بجلی سے محروم ہے ،سرکاری رپورٹ

بدھ 20 اپریل 2016 19:32

کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخاُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔20 اپریل۔2016ء ) بلوچستان پاکستان کے رقبے کا 45فیصداور آبادی کے تقریباً 6فیصد پر مشتمل ہے 750کلومیٹرساحلی علاقہ اور ایران وافغانستان سے سینکڑوں کلومیٹر مشترک سرحد ہے تیل ،گیس ،کوئلے ،سونا اور دوسری قیمتی معدنیات سے مالامال ہونے کے باوجود اس وقت یہ ملک کا غریب ترین صوبہ ہے صوبے کے دیہی علاقوں میں غربت پاکستان کی اوسط سے تقریباً دگنی ہے تکلیف دہ بات یہ ہے کہ وہ گیس جو سوئی سے نکل کر کراچی سے پشاورتک روشنی اور حرارت فراہم کر رہی ہے خودسوئی کی 99فیصد آبادی اور بلوچستان کی 95فیصد اس کی روشنی اور حرارت سے محروم ہیں بلوچستان میں صرف 23فیصد آبادی کو پینے کا پانی دستیاب ہے باقی انسان اورمویشی ایک ہی تالاب سے پانی پیتے ہیں مضر صحت پانی پینے کی وجہ سے عوام گردے اور دیگر خطرناک بیماریاں میں مبتلا ہیں بجلی صوبے کے بارہ فیصدعلاقوں تک پہنچی ہے 86فیصد علاقہ بجلی سے محروم ہے سرکاری رپورٹ کے مطابق اس وقت بلوچستان میں6554 دیہی آبادیاں ہے یہ صوبے کے76فیصد رقبے پر رہتے ہیں اور شہری رقبہ 24فیصد بنتاہے 76فیصد والی آبادی بنیادی سہولتوں تعلیم صحت علاج اور پینے کے صاف پانی سے یکسر محروم ہیں انسان کی بنیادی ضرورت پانی ہے محروم ومظلوم بلوچستان اور صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں ٹینکر مافیا کی من مانیاں بلوچستان حکومت پر سوالیہ نشان ہے پورابلوچستان پینے کے پانی کی کمی کاشکار ہے اور ایک تازہ رپورٹ کے مطابق تعلیم سے محروم بچوں کی سب سے زیادہ تعدادبلوچستان میں 60فیصد ہیں رواں مالی سال میں صوبائی حکومت نے تعلیم کیلئے بجٹ میں 36ارب 32کروڑ70لاکھ روپے مختص کیے تھے صوبہ بھر میں دوردرازکے علاقوں میں گھوسٹ سکولز اور گھوسٹ اساتذہ کی ایک بڑی تعداد صوبائی محکمہ خزانہ پر ایک بہت بڑاسوالیہ نشان ہے معیار تعلیم کا جنازہ نکل چکا ہے اگر صوبے میں صحت کی صورتحال کو دیکھیں تو یہ بھی انتہائی خراب ہے پورابلوچستان صحت کی بنیادی سہولیات سے محروم ہے اور پورے صوبے سے لوگ علاج کیلئے کوئٹہ آنا پڑتاہے اور یہاں سرکاری ہسپتال صحت کی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں ۔

(جاری ہے)

صوبائی حکومت نے بجٹ میں تقریباًڈیڑھ کروڑ روپے خرچ کرنے کا اعلان کیا تھا محکمہ صحت ہی کے مطابق 400اسپیشلٹ ڈاکٹرزہیں لیکن 119ڈاکٹرزہی ڈیوٹی دے رہے ہیں دوردرازعلاقوں میں خواتین اور بچے بنیادی صحت کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں غریب عوام بنیادی ضروریات زندگی سے محروم ہے بدامنی کی صورتحال میں لوگوں کی جان ومال عزت وآبرومحفوظ نہیں مگر خطیر رقم سرکاری اہل کاروں اور سیکورٹی اداروں کی سیکورٹی پر خرچ ہورہی ہے ۔

آج کے جدید ترقی یافتہ دورمیں صوبے کا کسان اور ماہی گیر پریشان ہے خواتین جو آبادی کا نصف ہیں وہ بنیادی ضروریات زندگی، صحت ،تعلیم اورپینے کے صاف پانی سے محروم ہیں ۔بلوچستان کی خواتین سب سے زیادہ مشکل وپریشانی میں ہیں اور ان کی مشکلات وپریشانی روز بروزبڑھ رہی ہے پینے کے پانی اورعلاج کی سہولتوں کے فقدان کا سب سے زیادہ بلوچستان کی خواتین شکار ہیں دوردرازعلاقوں میں علاج کی سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے خواتین جان بھی گنوابیٹھی ہیں خواتین کو ان کے ہاتھوں کی ہنر مندی کا مناسب معاوضہ نہیں ملتا بچوں کو تعلیمی سہولیات میسر نہیں ،پینے کا پانی دستیاب نہیں ان حالات میں بلوچستان کی خواتین کی پریشانیاں اور بھی بڑھ جاتی ہیں یہ سب کیوں ہورہا ہے صرف اور صرف کرپشن کی وجہ سے ۔

غریب صوبے کے غریب عوام امیر حکمرانوں سے اپنا حق اور زندگی مانگتے ہیں بلوچستان میں کرپشن ملک کے دیگر صوبوں سے کسی صورت کم نہیں حکمرانوں نے یہاں بھی کرپشن کابازارگرم کیا ہے ہرطرف لوٹ مار کا بازارگرم ہے ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں 66فیصد کرپشن ہوتی ہے کمیشن خوری نے اس صوبے کو تباہ وبرباد کر کے رکھ دیا ہے ٹھیکے داروں ،آفیسران اور نمائندوں کی کرپشن خوری صوبے کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے حکمرانوں کی شاہ خرچیاں اس کے علاوہ ہیں صوبے بلوچستان کے حکمرانوں نے سرکاری ملازمتوں کے بہبود فنڈ کو بھی نہیں بخشا اوراس حوالے سے 110ارب کے مقروض ہے یہ وہ صوبہ ہے کہ جہاں طویل ساحل ہے جہاں سونا چاندی کے وسیع زخائر ہیں جہاں کوئلے کرومائٹ کے خزانے ہیں بلوچستان جو پھلوں کی ایک خوبصورت ٹوکری ہے جہاں گرم پانیوں اور ساحل پورٹ ہے جس کے صحراؤں کی ہواؤں کاکوئی مقابلہ نہیں کر سکتا جس کو اللہ نے بے شمار نعمتوں معدنیات قدرتی حسن وذخائر سے نوازاہے وہاں عورت بے بس مجبور لاچار اور حقوق سے محروم ہیں اس کیلئے جماعت اسلامی حلقہ خواتین نے کرپشن فری بلوچستان کا آغازکیا ہے جس میں صوبے کے اندر اس حوالے عوام الناس خاص کر خواتین اور نوجوانوں کوآگہی مل جائیگی تمام اضلاع میں خواتین کے بڑے بڑے پروگرام منعقد کیے جائیں گے کوئٹہ گوادرمیں یوتھ کنونشن اور خواتین کانفرنسز منعقد ہوں گے ۔

تعلیمی اداروں ،جامعات میں کرپشن کے حوالے سے تقریری وتحریری مقابلے منعقد کیے جائیں گے حکمرانوں کو اس حوالے سے خطوط بھی لکھے جائیں گے۔ اس حوالے سے 21اپریل جمعرات کو شام 5بجے کوئٹہ پریس کلب کیساتھ خواتین کا عظیم الشان مظاہرہ منعقد ہوگا ۔ دستخطی مہم ،خواتین وبچیوں کی واک بھی منعقد ہوں گے۔ اوروہ لوگ جو اس کرپشن کا شکار اور اس کی وجہ سے مشکلات اور پریشانیوں کا شکار ہیں ان کی آواز کو میڈیا اور سوشل میڈیا پر اُٹھائیں گے پاناما لیکس میں حکمرانوں کی کرپشن سامنے آنا کرپشن کامنہ بولتا ثبوت ہے ۔

بلوچستان کی خواتین ماؤں بہنوں ،اساتذئے کرام ،علمائے کرام ،طلبہ ،صحافی ،ڈاکٹرزاور ہرطبقہ فکر کی خواتین وحضرات سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ بلوچستان کو کرپشن سے پاک کرنے کیلئے جماعت اسلامی کی اس عوامی انقلابی جدوجہد میں ساتھ دیں صحافی حضرات میڈیا کرپشن کے خلاف مہم کی سرگرمیوں کو اجاگر کرتے ہوئے خصوصی کوریج دیں اور اپنا حصہ کرپشن فری بلوچستان مہم میں حصہ ڈال کر عوام کو پریشانیوں سے نجات دینے اورلوٹ مار کرنے والوں کو عبرت ناک سزادینے وبے نقاب کرنے میں کردار ادا کریں انشاء اللہ ہماری تحریک کرپشن کے خاتمے تک جاری رہیگی ۔