عالمی امن کو یقینی بنانے کے لئے مسئلہ کشمیر اور فلسطین کا منصفانہ حل ناگزیر ہے، اسلام امن کا مذہب ہے‘گمراہ لوگ اسلام کے نام پر غلط کام کر رہے ہیں، پاکستان خطہ اور ہمسایہ ممالک میں بہتر حالات کی امیدیں رکھتا ہے

سلامتی کونسل میں او آئی سی کی نمائندگی سے اقوام متحدہ کی کارکردگی میں بہتری آئے گی پرامن ہمسائیگی اور پڑوسی ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات کو فروغ دینا ہماری خارجہ پالیسی کا اہم ستون ہے،افغانستان میں قیام امن کے لئے کوششیں کبھی نہ کبھی بارآور ثابت ہونگی صدر مملکت ممنون حسین کاپی ٹی وی کو انٹرویو

بدھ 20 اپریل 2016 14:37

اسلام آباد ۔ 20 اپریل (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔20 اپریل۔2016ء) صدر مملکت ممنون حسین نے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر اور فلسطین کے منصفانہ حل سے دنیا میں قیام امن میں مدد ملے گی،اسلام امن کا مذہب ہے‘ پاکستان خطہ اور ہمسایہ ممالک میں بہتر حالات کی امیدیں رکھتا ہے‘ سلامتی کونسل میں او آئی سی کی نمائندگی سے اقوام متحدہ کی کارکردگی میں بہتری آئے گی۔

پی ٹی وی سے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ ترکی میں ہونے والے او آئی سی کے حالیہ سربراہ اجلاس میں مسلم ممالک کو درپیش مسائل اور چیلنجوں کا جائزہ لیا گیا جس کا موضوع اتحاد و یکجہتی برائے امن و انصاف تھا۔ انہوں نے کہا کہ دہشتگردی صرف اسلامی ممالک کا ایشو نہیں‘ دیگر ممالک میں بھی یہ واقعات ہوئے۔

(جاری ہے)

اس کانفرنس کا انعقاد اسی مقصد کے لئے کیا گیا تھا کہ دہشتگردی کا خاتمہ ہو۔

مسلم ممالک ایک دوسرے سے انٹیلی جنس شیئرنگ کریں۔ انہوں نے کہا کہ اسلام کا قتل وغارت سے کوئی تعلق نہیں‘ گمراہ لوگ اسلام کے نام پر غلط کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کانفرنس میں اس بات کا بھی جائزہ لیا گیا کہ جن اسلامی ممالک میں جہاں اختلافات ہیں ان کو ختم کرایا جائے۔ پاکستان پہلے بھی ان کوششوں میں مصروف رہا ہے اور کانفرنس میں یہ طے پایا کہ جو بھی باہمی اختلافات ہیں وہ ختم ہوں۔

اسلامی ممالک میں دہشتگردی و قتل و غارت کا خاتمہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر اور فلسطین کے لوگوں کو حق خودارادیت نہیں دیا گیا، کشمیریوں کو حق خودارادیت دینے سے بہتری آئے گی۔ او آئی سی نے اپنے اعلامیہ میں کہا ہے کہ فلسطین اور کشمیر کے معاملے کو اجاگر کیا جائے تاکہ ان مسائل کا حل تلاش کیا جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ ایک وقت ضرور آئے گا جب انصاف کا بول بالا ہوگا۔

اسی سے دنیا میں اچھے حالات پیدا ہونگے۔ صدر مملکت نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ موجودہ حکومت جب سے برسراقتدار آئی ہے ہماری خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون پرامن ہمسائیگی اور پڑوسی ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات کو فروغ دینا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کے ساتھ مذاکرات کا عمل جاری ہے۔ پرامن مذاکرات کے ذریعے کشمیر کے مسئلے کو حل کیا جانا چاہیے۔

انہوں نے کہاکہ جب پڑوسیوں سے اچھے تعلقات ہوں گے تو حالات بہتر ہونگے۔ دیگر پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات کے متعلق ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ افغانستان کے معاملے پر چین اور امریکہ کو بھی شامل کیا گیا ہے اور یہ کوششیں افغانستان میں قیام امن کے لئے کبھی نہ کبھی بارآور ثابت ہونگی۔انہوں نے کہا کہ افغانستان میں امن نہ ہو تو خطے میں امن نہ ہوگا۔

ضروری ہے کہ افغانستان میں امن ہو۔ سلامتی کونسل میں توسیع سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ او آئی سی اسلامی ممالک کا سب سے بڑا فورم ہے جس میں پچاس سے زائد ممالک شامل ہیں۔ اگر سلامتی کونسل میں اتنے ممالک کی نمائندگی ہوگی تو یہ اچھی بات ہے۔ پانچ بڑی طاقتوں کو ویٹو پاور حاصل ہے اور اسلامی ممالک کے نمائندہ کو سلامتی کونسل میں شامل کرنے سے اسلامی دنیا کی آواز بلند ہوگی اور اقوام متحدہ کی کارکردگی میں بہتری آئے گی۔

اسلام فوبیا کے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ اسلام فوبیا کا سلسلہ غلط ہے۔ دنیا میں کسی بھی طبقے کے متعلق غلط بات پھیلانے سے نفرت پھیلتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام آزادی رائے کی حمایت کرتا ہے تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ کوئی اپنی مرضی سے جو چاہے کہے۔ انہوں نے کہا کہ او آئی سی اقوام متحدہ کو باور کرائے کہ اسلام امن کا مذہب ہے۔ ہمیں اپنی گفتگو کے ذریعے ایسا پیغام پہنچانا چاہیے اور اپنے عمل سے بھی اس کا ثبوت دینا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ اسلام کسی طرح دہشتگردی کی حمایت نہیں کرتا بلکہ اسلام امن کا مذہب ہے۔انہوں نے کہا کہ غیر اسلامی ممالک میں مسلمانوں اور اقلیتوں سے جہاں زیادتیاں ہو رہی ہیں اس پر بھی او آئی سی نے توجہ دینے کی ضرورت پر زور دیا۔ صدر نے کہا کہ او آئی سی کو چاہیے کہ وہ مشترکہ طور پر میڈیا گروپ تشکیل دے اور ایسی پالیسی ہو کہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف غلط باتوں کا تدارک کیا جاسکے۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ او آئی سی کی ذمہ داری ہے کہ دنیا میں جہاں مسلمانوں سے زیادتی ہو رہی ہو اسے اجاگر کرکے عالمی برادری کو آگاہ کرے تاکہ اس قسم کے واقعات کو روکا جاسکے۔ داعش سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ دنیا میں جتنے ممالک دہشتگردی سے متاثر ہو رہے ہیں سب دہشتگردی کے خلاف اقدامات کر رہے ہیں۔صدر نے کہا کہ داعش اور بوکوحرام جیسی تنظیموں کے متعلق انٹیلی جنس شیئرنگ کرنی چاہیے تاکہ دہشتگردی کو روکا جاسکے۔

انہوں نے کہا کہ او آئی سی اسلامی بھائی چارے کا فورم ہے جنہیں ایک دوسرے کی مہارتوں سے استفادہ کرنا چاہیے۔ ہمیں ایسی کوششیں کرنی چاہئیں کہ ایک دوسرے سے فائدہ اٹھائیں۔ پاکستان میں ٹیکسٹائل کا شعبہ بڑا ترقی یافتہ ہے اور جن دیگر ممالک میں دوسرے شعبوں کی ترقی ہے ان سے ایک دوسرے کو استفادہ کرنا چاہیے، ہمیں آپس کی تجارت کو بڑھانا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ کانفرنس میں اس بات کا بھی جائزہ لیا گیا کہ جن ممالک میں ایک دوسرے کی فضائی سروس نہیں وہاں ایئرلائنز کی فلائٹس شروع کی جائیں۔ چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ اس منصوبے سے روابط فروغ پائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ کئی رہنماؤں نے ہمیں بتایا کہ وہ اپنے ممالک میں کوریڈور سے رابطے کے لئے شاہرات تعمیر کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ اسلامی ممالک نے آپس کی تجارت کو فروغ دینے پر اتفاق کیا ہے۔ بیلاروس کو مبصر کی حیثیت حاصل ہے تاہم اس کے ساتھ بہت سے معاہدے ہوئے ہیں اور جوائنٹ وینچر تشکیل پائے ہیں۔ اکتوبر میں بیلاروس کے صدر پاکستان کا دورہ کریں گے۔ اسی طرح ترکمانستان‘ آذربائیجان اور دیگر وسطی ایشیائی ریاستوں اور ایران سے بھی باہمی معاہدے کئے گئے۔

انہوں نے کہاکہ اسلامی ممالک کو علم و تحقیق کے شعبہ میں ترقی کرنی چاہیے اور ایک دوسرے کی ریسرچ سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ جہاں جہاں تحقیق ہو رہی ہے محققین کی مدد کی جائے گی۔ مسلم ممالک میں سائنس و ٹیکنالوجی کے فروغ سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ پاکستان اس سلسلے میں بھرپور کردار ادا کرے گا۔ پاکستان کے سائنسدان او آئی سی کے پلیٹ فارم پر سائنس و ٹیکنالوجی کے فروغ کے لئے بھرپور کردار ادا کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ اگرچہ ہم شروع میں سائنس و ٹیکنالوجی میں اتنے اچھے نہ تھے تاہم اب شروعات ہوگئی ہیں اور اطمینان بخش طریقے سے اس شعبے میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ او آئی سی نے 2025ء کے پروگرام میں 18 شعبوں کی نشاندہی کی ہے جہاں رکن ممالک ایک دوسرے کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں جنہیں آپس میں تعاون کی راہیں ہموار کرنی چاہئیں اور ان ممالک کو چاہیے کہ وہ یہ جائزہ لیں کہ ہمیں کن شعبوں میں تعاون کو ترجیح دینی چاہیے۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ترکی اور پاکستان کے درمیان مثالی تعلقات ہیں جن کی بنیاد مذہبی‘ ثقافتی‘ سماجی اور تاریخی رشتوں پر ہے۔ ترکی سے انجینئرنگ‘ زراعت سمیت تین چار شعبوں میں تعاون پر اتفاق ہوا ہے اور مستقبل میں دونوں ممالک کے درمیان بہت سے پروگراموں پر تعاون ہوگا۔