پاکستانی لڑکی سے محبت کی سزا 11 سال قید، بھارتی ایجنسیوں نے حراست میں تشدد کا نشانہ بھی بنایا

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین بدھ 20 اپریل 2016 13:13

پاکستانی لڑکی سے محبت کی سزا 11 سال قید، بھارتی ایجنسیوں نے حراست میں ..

(اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔20 اپریل 2016ء) : (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔20 اپریل 2016ء): پاکستانی لڑکی سے محبت کرنے کی سزا میں ایک شخص کو 11 سال قید کی سزا کاٹنی پڑی۔ ساتھ ہی بھارتی خفیہ ایجنسیوں نے دہشت گرد اور جاسوس قرار دے کر زیر حراست نوجوان کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا۔ تفصیلات کے مطابق رام پور کے رہائشی محمد جاوید کو گمان بھی نہیں تھا کہ انہیں اپنی محبت کی اتنی بڑی اور تکلیف دہ سزا سے دو چار ہونا پڑے گا کہ انہیں دہشت گردی کے الزام میں تکالیف دی جائیں گی اور ساڑھے گیارہ برس جیل میں قید ہو کر رہنا پڑے گا۔

محمد جاوید کو دو سال قبل ہی جیل سے رہائی ملی جس کے بعد انہوں نے اپنے ایک انٹر ویو میں اپنی محبت اور اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والی تکالیف اور ایذا سے متعلق اپنی تمام تر کہانی بیان کی۔

(جاری ہے)

اپنے انٹر ویو میں محمد جاوید نے اپنی محبوبہ کو تحریر کیے عشقیہ خطوط بھی دکھائے اور بتایا کہ کیسےبھاری خفیہ اداروں نے محمد جاوید کو اغوا کر کے ان کو تشدد کا نشانہ بنایا لیکن ستم ظریفی تو یہ کہ جس پیار کے لیے وہ برسوں قید رہے اور تکالیف برداشت کیں بالآخر وہ بھی ان کو نہیں ملا۔

محمد جاوید کی عمر اب 33 برس ہے۔ اپنی کہانی بتاتے ہوئے محمد جاوید کا کہنا تھا کہ مبینہ سے ان کی پہلی ملاقات 1999ء میں اس وقت ہوئی تھی جب وہ اپنی والدہ کو لے کر شہر قائد یعنی کراچی گئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ میرے چچا اور خاندان کے دیگر افراد 1947 میں پاکستان ہجرت کر گئے تھے اور انہیں لوگوں سے ملاقات کے لیے میں اپنی والدہ کے ہمراہ رام پور سے کراچي گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ مبینہ اور میں نے اپنی پہلی ملاقات کے ایک ماہ کے دوران ہی ایک دوسرے سے اپنی محبت کا اظہار کر دیا تھا۔ ہماری ملاقات خاندان کی ایک شادی میں ہوئي جہاں اور بھی بہت سی لڑکیاں اور لڑکے موجود تھے۔ جاوید نے بتایا کہ مبینہ عدم تحفظ کا احساس لیے مجھے ایک کونے میں لے گئیں اور بتایا کہ وہ مجھ سے پیار کرتی ہپیں لہٰذا میں کسی اور لڑکی کی طرف نہ دیکھوں۔

جاوید کا کہنا تھا کہ میں نے مبینہ سے برملا کہا کہ میں بھی ایسا ہی محسوس کرتا ہوں۔ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح کراچی میں ساڑھے تین ماہ کے قیام کے دوران یہ محبت پروان چڑھتی گئی۔ جاوید نے بتایا کہ مبینہ گھر سے کالج جانے کا بہانہ کر کے نکلتیں اور پھر میں کالج سے باہر ان سے ملتا اور پھر ہم سفاری پارک جاتے اور وہاں بیٹھتے تھے۔ جاوید کا کہنا تھا کہ میں پیشے کے اعتبار سے ایک ٹی وی کے میکنک ہوں اور بھارت واپس آنے کے بعد میں اپنی تنخواہ کی تمام رقم مبینہ کو فون کرنے پر خرچ کر تا تھا جسے میں اب بھی پیار سے گڑیا کہتا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ اُس وقت موبائل فون نہیں تھے اس لیے میں ٹیلی فون بوتھ سے انہیں فون کیا کرتا تھا۔ یہ بہت مہنگا ہوتا تھا ان سے بات کرنے کے لیے اس وقت ایک منٹ کے لیے 62 روپے لگتے تھے۔ جاوید نے بتایا کہ ایک برس گزرنے کے بعد میں نے پھر سے دو ماہ کے لیے کراچی کا دورہ کیا۔ تب تک ہم دونوں کے اہل خانہ بھی اس پیار و محبت کے چکر سے آگاہ ہو چکے تھے۔

جاوید نے بتایا کہ اس رشتے پر تو کسی کو اعتراض نہیں تھا لیکن مبینہ کے اہل خانہ چاہتے تھے کہ میں پاکستان منتقل ہوجاؤں جبکہ اس کے بر عکس میری فیملی چاہتی تھی کہ مبینہ انڈیا آجائیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس بار جب میں واپس آنے لگا تو مبینہ نے کہا آپ جائیے میں اپنے والدین کو قائل کر لوں گی اور دوسری بار آکر مجھے ساتھ لے کر چلنا۔ لیکن مجھے نہیں معلوم تھا کہ اب میں دوبارہ کبھی واپس نہیں آپاؤں گا اور نہ ہی کبھی دوبارہ مبینہ کو دیکھ پاؤں گا۔

انہوں نے کہا کہ اس کے بعد اگلے دو برس تک میں اور مبینہ فون پر رابطے میں رہے اور دونوں نے ایک دوسرے کو طویل خطوط بھی لکھے۔ لیکن مشکل یہ تھی کہ مجھے اردو زبان بہت کم آتی تھی ، اس لیے میں خط پڑھوانے کے لیے اپنے دوست مقصود کی مدد لیتا تھا۔ میرے ایک دوسرے دوست تاج محمد اردو میں تحریر کردہ خطوط کو ہندی میں ترجمہ کرتے تھے جنہیں میں بار بار پڑھا کرتا تھا۔

مقصود ہی میری طرف سے اردو میں مبینہ کو جواب بھی لکھا کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ میرے خطوط دس صفحات مشتمل ہوتے اور میں 12 صفحے کا جواب دیتا۔ اسے لکھنے میں مجھے بارہ دن لگتے تھے۔اور پھر ایک دن اچانک پوری دنیا ہی بدل گئی۔جاوید کا کہنا تھا کہ مجھے وہ دن آج بھی یاد ہے۔ یہ 10 اگست 2002ء کا سنیچر کا دن تھا۔ میں اپنی دکان میں تھا جب ایک آدمی آیا اور ٹی وی درست کرنے کے لیے ساتھ چلنے کو کہا۔

میں نے کہا میں گھروں میں جا کر ٹی وی نہیں بناتا ہوں۔ لیکن ایسا محسوس ہوا کہ جیسے وہ بہت پریشان ہے اس لیے میں چلنے کے لیے راضی ہوگیا۔ میں دکان سے کچھ ہی میٹر دور گیا ہوں گا کہ ایک کار آئی جس کا دروازہ کھلا اور بس مجھے اغوا کر لیا گيا۔جاوید کا کہنا تھا کہ مجھے پہلے محسوس ہوا کہ شاید یہ مجرم پیشہ ور افراد ہیں لیکن پھر ان کی باتیں سن کر میں سمجھ گیا کہ یہ پولیس اہلکار ہیں اور میری کی مشکل وہیں کار میں ہی شروع ہوگئی۔

جاوید نے بتایا کہ انہوں نے میرا پرس، گھڑی اور دیگر چيزيں لے لیں۔ میرے پاس مبینہ کے دو خط بھی تھے اور وہ بھی انہوں نے لے لیے۔ انہوں نے کہا اگر میں چپ نہیں رہا تو وہ مجھے گولی مار دیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ میرے خاندان کو بھی اغوا کر لیا گيا ہے اور دوسری کار میں ان پر تشدد کیا جا رہا ہے۔میں رو رو کر، چیخ چلّا کر ان سے رحم کرنے کی گزارش کر رہا تھا۔

میری آنکھوں پر پٹّی باندھ دی گئی اور جب وہ کھولی گئی تو میں نے اپنے آپ ایک کمرے میں پایا جہاں اگلے تین روز تک مجھے ایذائیں دی گئیں۔ جاوید کا کہنا تھا کہ انہوں نے مجھے بہت مارا۔ مجھے الٹا لٹکا دیتے اور میرا سر ایک پانی کے ٹب میں ڈبوتے تھے۔ یہ بہت تکلیف دہ تھا۔ جب میری یہ برداشت سے باہر ہوگيا تو میں نے ان سے ہاتھ جوڑ کر کہا کہ وہ مجھے قتل کر دیں۔

جاوید نے بتایا کہ مجھ پر پاکستانی انٹیلیجنس ایجنسی آئی ایس آئی کا ایجنٹ ہونے کا الزام عائد کیا گیا اور پولیس نے دعوٰی کیا کہ میں وزارت خارجہ اور دفاع کے خفیہ راز اسلام آباد کو پہنچاتا رہا ہوں۔تین روز بعد مجھے رام پور دوبارہ واپس لایا گيا اور میرے دوستوں مقصود، ممتاز میاں اور تاج محمد کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔دوسرے دن میرے دوستوں کو عدالت میں پیش کیا گيا اور صحافیوں کے سامنے خطرناک قسم کے دہشت گرد کے طور پر پیش کیا گيا جنہوں نے بھارت کے خلاف جنگ چھیڑ رکھی تھی۔

حکام کا دعوی تھا کہ میں نے دو بار کراچی کا دورہ آئی ایس آئی کے حکام سے ملاقات اور خفیہ راز پہنچانے کے لیے کیا تھا۔ مجھ پر پوٹا کے تحت مقدمہ چلا۔ انہوں نے بتایا کہ مجھے قید تنہائی میں رکھا گیا اور بہت ایذائیں دی گئیں۔ میں اپنے بہترین دوستوں سے جدا ہوگیا لیکن میرے پیار کی یادیں ہی جیل کی ساتھی تھیں جن کے سہارے میں نے اپنا وقت گزارا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ میں جیل میں دوسرے قیدیوں کو مبینہ کی کہانی سناتا تھا۔ کیسے مجھے پیار ہوا، اس کی عادتیں، کیسے وہ مجھے چڑاتی تھی۔ اس سے جیل میں مجھے بہت ہمت ملتی تھی۔جاوید کی والدہ افشاں بیگم تو جاوید کی اس تمام تر تکلیف کے لیے خود کو ذمہ دار ٹھہراتی ہیں۔ جاوید کی والدہ کا کہنا ہے کہ اگر کراچی جانے کے لیے میں اس سے اصرار نہ کرتی تو ہوسکتا ہے کہ وہ اس مصیبت سے بچ جاتا۔

جاوید کے والد نے اپنے بیٹے کی آزادی کے لیے مقدمہ لڑا جس کے لیے انہیں اپنی زمین، جائیداد اور زیور تک فروخت کرنے پڑے۔بالآخر 19 جنوری 2014 کو جاوید رہا کر دیا گيا اور جج نے ان پر عائد تمام الزامات سے جاوید کو یہ کہہ کر بری کیا کہ ان کے خلاف ثبوت نہیں ہیں۔ جاوید کا کہنا ہے کہ میری زندگي کے قیمتی سال جیل میں گزر گئے۔گذشتہ دو برس میں میں نے اپنی زندگی دوبارہ شروع کرنے کی کوشش کی ہے۔

میں نے گھر کے پاس ہی ایک ٹی وی ریپیئر کی دکان کھولی ہے۔ تاہم جاوید اس بات پر برہم ہیں کہ وہ بے قصور ہونے کے باوجود ان کے ساتھ یہ سلوک ہوا تو اس کا ہرجانہ کیوں نہیں ملا اور قصورواروں کو سزا کیوں نہیں ملی۔مبینہ سے متعلق انہوں نے کہا کہ وہ ان سے بہت دنوں سے رابطے میں ہی نہیں ہیں اور شاید مبینہ کی شادی ہو چکی ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ مبینہ کو اپنے ذہن سے تو نکالنے میں کامیاب رہے ہیں لیکن دل سے نہیں نکال پائے۔ جاوید نے کہا کہ میں اب بھی اس سے پیار کرتا ہوں لیکن فون کرنے سے ڈرتا ہوں کہ کیا ہوگا اگر وہ پھر میرے یا میرے خاندان کے پیچھے پڑ جائیں۔

متعلقہ عنوان :