بلاول بھٹو زرداری نے پارٹی کے تنظیمی ڈھانچے کی بہتری اور چیلنجز کا مقابلہ کرنے کیلئے کارکنوں سے چھ نکاتی سوالنامے کی شکل میں تجاویز طلب کرلیں

الیکشن کمیشن نے ویب سائٹ سے اثاثے ہٹادیئے تو یہ غلط اقدام ہے ٗچھوٹوگینگ نے پنجاب حکومت کے دعوؤں کی قلعی کھول دی ہے ٗ فیصل کریم کنڈی کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب

جمعہ 15 اپریل 2016 20:41

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔15 اپریل۔2016ء) پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے پارٹی کے تنظیمی ڈھانچے کی بہتری اور نئے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کیلئے کارکنوں سے چھ نکاتی سوالنامے کی شکل میں تجاویز طلب کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئندہ سال پارٹی کی گولڈن جوبلی کی منزل کو پہنچ رہی ہے اس مرحلے پر سماجی تقسیم اور تضادات سے متعلق مشاورت کا نیا سلسلہ شروع کرنا ضروری ہے ۔

اس سلسلہ میں انہوں نے سوالنامے کے ہمراہ کارکنوں کے نام خط بھی تحریر کیا ہے جسے جمعہ کو پیپلز پارٹی کے سیکرٹری اطلاعات قمر زمان کائرہ اور سابق ڈپٹی سپیکر فیصل کریم کنڈی نے پریس کانفرنس میں میڈیا کو جاری کیا۔ بلاول بھٹو کی طرف سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ ملک کی تاریخ کے اس سب سے زیادہ بڑے چیلنجوں سے بھر پور دور میں پاکستان کی سب سے زیادہ اہم ترقی پسند عوامی طاقت پاکستان پیپلز پارٹی کو آگے لیجانے کے موثر ترین طریقہ کار کا تعین کرنے کے سلسلے میں مجھے آپ کی رائے اور مشورہ درکار ہے ۔

(جاری ہے)

پاکستان کو پہلے سے جمہوری اور روشن خیال معاشرہ بنانے میں پاکستان پیپلز پارٹی کے کردار سے آج ہر ایک آگاہ ہے ۔ ملک میں ایک ترقی پسند موقف اور نقطہ نظر کے فروغ کی جدوجہد میں پاکستان پیپلز پارٹی نے ایک موثر اور تاریخی کردار ادا کیاہے ہمارا ترقی پسند موقف ہمیشہ ایک واضح موقف رہاہے جس میں ہم نے کبھی لچک دکھائی ہے اور نہ ہی کبھی اسے تبدیل کیا ہے ۔

جیسا کہ آپ کو علم ہے کہ 1967 میں پاکستان پیپلز پارٹی کو پاکستان کی سماجی طور پر افتادہ اور معاشی طور پر استحصال زدہ طبقات کی نمائندگی کرنے اور ان کی کچلی ہوئی امنگوں کو برسرعام لانے اور پورا کرنے کیلئے قائم کیا تھا ۔ پاکستان پیپلز پارٹی اگلے سال اپنی گولڈن جوبلی کی منزل کو پہنچ رہی ہے اور میں ضروری سمجھتا ہوں کہ ہم اپنے سماج کے ان کلیدی اور اہم تضادات پر جن پر ہمارا سماج منقسم ہے ہم گیر مشاورت کا ایک نیا سلسلہ شروع کریں۔

خط میں کہا گیا ہے کہ مجھے ان تبدیلیوں کا شدید احساس ہے جو پچھلی پانچ دہائیوں کے دوران ہمارے سماج میں وقوع پذیر ہوئی ہیں مجھے احساس ہے کہ ہمارے شہریوں کی ایک بڑھتی ہوئی تعداد ہر قسم کے چیلنجوں سے نبرد آزما ہمارے ملک میں با معنی اصلاح کی تلاش میں ہے ۔ مجھے اس بات کا احساس ہے کہ پیش قدمی کی راہ میں بہت عالمی ، قومی اور مقامی مسائل درپیش ہیں اور ان میں کچھ مسائل ایسے بھی ہیں جو اپنی نوعیت اور حجم کے اعتبار سے خاصے مہیب ہیں لیکن لیڈر شپ کا امتحان اس بات میں ہے کہ وہ ان دشواریوں اور دنیا میں آنے والے بیشمار تبدیلیوں کے سامنے کس طرح سینہ سپر ہوتی ہے ۔

مجھے یقین ہے کہ آپ کی بصیرت اور مشورے قومی بلکہ علاقائی معاملات کو سمجھنے اور ان کو حل کرنے میں ا نتہائی کارآمد ثابت ہونگے ۔ فی الوقت میں اس مرحلے میں آپ سے اپنی پارٹی کے رول اور اس کے معاملات کے بارے میں رہنمائی حاصل کرنا چاہتا ہوں ۔ مجھے امید ہے کہ آگے چل کر میں رواں قومی حالات اور ایک قوم کی حیثیت کے بارے میں کہیں زیادہ وسیع نوعیت کے سوالات پر آپ کی رائے جاننے کی جسارت کروں گا۔

سوالنامے میں پوچھا گیا ہے کہ آپ کے خیال میں پاکستان پیپلز پارٹی کے قیام کے بنیادی مقاصد کیا تھے ؟ پارٹی کس حد تک یہ مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب رہی؟ اپنے بنیادی نظریاتی اقدار پر قائم رہتے ہوئے پارٹی نئے چیلنجز کا مقابلہ کیسے کر سکتی ہے ؟پارٹی کو داخلی اور خارجی سطح پر کن چیلنجیز کا سامنا ہے ؟ اور ملک کو کن اہم مسائل کا سامنا ہے ؟ پارٹی کا تنظیمی ڈھانچہ کیسے فعال اور موثر بنایا جا سکتا ہے ؟ پارٹی کے خارجی اور داخلی کمیونیکیشن (رابطہ اور ابلاغ) کو کیسے موثر بنایا جا سکتا ہے ؟ حال اور مستقبل کے چیلنجز سے نمٹنے کیلئے پارٹی کی اقتصادی ، سماجی او ر سیاسی ترجیحات کیا ہونی چاہیں ؟ برائے مہبربانی فوری نوعیت کے تین ترجیحات اور طویل المدتی پالیسی سازی کیلئے تین یا زائد ترجیحات کی نشاندہی کریں۔

اس موقع پر صحافیوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے قمر زمان کائرہ نے کہا کہ بلاول بھٹو زرداری نے قیادت سننبھانے کے بعد مشاورتی عمل شروع کیا ہے کارکنوں سے رائے لی جائیگی اور جلد از جلد سوالنامے کے جواب مل جائیں تنظیم سازی میں کارکنوں کی رائے شامل کی جائیگی ۔ انہوں نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو ، بے نظیر بھٹو کنونشن کے ذریعے کارکنوں سے بات کرتے تھے تاکہ معاشی سیاسی اور دیگر معاملات پر انک رائے لی جائے ۔

بلاول بھٹو زرداری سیکیورٹی کی وجہ سے بڑے کنونینش نہیں کر سکتے خط لکھنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ وزیراعظم نواز شریف کے حوالے سے سوال کے جواب میں قمر زمان کائرہ نے کہا کہ وہ علاج کیلئے لندن گئے ہیں اﷲ ان کو صحت دے ۔ پانامہ لیکس میں ان کے خاندان پر جو سوالات اٹھائے گئے ہیں ہم نے2 کمیٹیاں تشکیل دیدی ہیں جو آئندہ چند دنوں میں حتمی لائحہ عمل تیار کریں گیں۔

ہماری رائے ہے کہ اس پر پارلیمانی کمیٹی بنائی جانے انہوں نے کہا کہ لندن میں سابق صدر آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کے درمیان کوئی ملاقات طے نہیں اور نہ ہی کوئی ٹیلیفونک رابطہ ہوا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پانامہ لیکس پر اپوزیشن کی دوسری جماعت سے بھی مشاورت کی جائیگی ۔ اس معاملے پر حکومت اگر اپوزیشن کے مطالبات کو تسلیم کرتی ہے تو اپوزیشن ہٹ دھرمی اختیار نہیں کرے گی بلکہ حکومت کے موقف کو سنا جائیگا ۔

انہوں نے کہا کہ جب عمران خان اور طاہر القادری نے دھرنا دیا تھا تو ہم نے وزیراعظم کے استعفے کی حمایت نہیں کی اس وقت بھی کہا تھا کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے تو اس کی تحقیقات ہونی چاہئیں اگر ثابت ہو گیا تو پھر استعفے کا مطالبہ کیا جائیگا۔آج بھی ہم اسی موقف پر قائم ہیں ہم نے اپنی رائے د ی ہے باقی جماعتوں کی رائے بھی آ جائے جس کے بعد مشترکہ حکومت عملی طے کی جائیگی۔

پانامہ لیکس کے معاملے کو منتطقی انجام تک پہنچائیں گے ۔ ہم کھلے ذہن سے اپوزیشن جماعتوں کے پاس جا رہے ہیں اگر انکی رائے بہتر ہو گی تو اسے تسلیم کیا جائیگا ۔ ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے ویب سائٹ سے اثاثے ہٹالئے ہیں تو غلط بات ہے ۔ پنجاب میں چھوٹو گینگ نے پنجاب حکومت کے دعوں کی کلی کھول دی ہے ۔ ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ عوام کی رائے کسی کے خلاف آتی ہے تو پیپلزپارٹی میں ہمت موجود ہے وہ ہر طرح کے حالات کا سامنا کرنے کیلئے تیار ہیں بلاول بھٹو نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ ان آراء کی روشنی میں مستقبل کی پالیسی بنائیں گے ۔ اکثریت کی رائے کو احترام کیا جائیگا ۔