سینیٹ میں پانامہ لیکس کی رپورٹ پر بحث کا آغاز ،اپوزیشن کا پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینے اورپارلیمان کی با اختیارمشترکہ کمیٹی تشکیل دے کر تحقیقات کرانے کا مطالبہ

پانامہ لیکس کے معاملے پر حکومت نے نالائقی کا مظاہرہ کیا ، وزیراعظم نے تقریر کرنے میں جلد بازی کی، اگر حکومت پارلیمنٹ پر مشتمل مشترکہ کمیٹی نہیں بناتی تو سینیٹ کی اخلاقی کمیٹی اس حوالے سے انکوائری کرے، حکومت نے چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیشن نہ بنایا تو عوام سڑکوں پر نکلیں گے،سب کا احتساب ہونا چاہیے سینیٹر مشاہد حسین سید،سینیٹر شیری رحمان،سینیٹر نعمان وزیر کا سینیٹ میں اظہا رخیال

جمعہ 15 اپریل 2016 18:52

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔15 اپریل۔2016ء) سینیٹ میں پانامہ لیکس کی رپورٹ پر بحث کا آغاز ہو گیا، اپوزیشن اراکین نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت پارلیمنٹ کو اعتماد میں لے اور پارلیمان کی با اختیارمشترکہ کمیٹی تشکیل دے کر تحقیقات کرائے، سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا ہے کہ پانامہ لیکس کے معاملے پر حکومت نے نالائقی کا مظاہرہ کیا اور وزیراعظم نے تقریر کرنے میں جلد بازی کی، اگر حکومت پارلیمنٹ پر مشتمل مشترکہ کمیٹی نہیں بناتی تو سینیٹ کی اخلاقی کمیٹی اس حوالے سے انکوائری کرے، الیکشن کمیشن کے ڈیکلریشن میں خفیہ آف شور اکاؤنٹس ہونے یا نہ ہونے کے حوالے سے شق کا اضافہ کیا جائے، سینیٹر چوہدری تنویر نے کہا کہ آف شور کمپنیاں بنانا غیر قانونی کام نہیں، اپوزیشن لیڈر اس معاملے پر جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کیلئے ہٹلر کے پروپیگنڈا وزیر والا کردار ادا کر رہے ہیں، اپوزیشن حکومت کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہ ڈالے، سینیٹر شیری رحمان نے کہا ہے کہ سب کا احتساب ہونا چاہیے، سینیٹر نعمان وزیر نے کہا کہ حکومت نے چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیشن نہ بنایا تو عوام سڑکوں پر نکلیں گے۔

(جاری ہے)

جمعہ کو سینیٹ کا اجلاس ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مولانا عبدالغفور حیدری کی صدارت میں ہوا، پانامہ لیکس کی رپورٹ پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ پانامہ لیکس قومی و بین الاقوامی مسئلہ ہے اور یہ مسئلہ بحرانی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے، حقائق یہ ہیں کہ موساک فونیسکا ایک قانونی فرم ہے جو پانامہ میں قائم کی گئی ہے جہاں پر آف شور بزنس کیا جاتا ہے، 2 لاکھ 14ہزار کمپنیاں رجسٹر کرائی گئیں، ایک کروڑ 15 لاکھ دستاویزات سامنے لائے ہیں، ٹیکس جسٹس نیٹ ورک ادارے نے 21 کھرب ڈالر اکاؤنٹ میں چھپائے ہیں،اگر ان کا ٹیکس ادا کیا جائے تو 300 ارب بنتا ہے ،ایک فرم کے وکیل نے جرمن اخبار سے رابطہ کیا اورعوامی مفاد میں اس کو بے نقاب کرنے کا ارادہ کیا، جودستاویز جو سامنے آئی ہیں ان میں پاکستان کابھی ذکر آیا ہے، 220پاکستانی اس میں ملوث ہیں،،143 سیاستدان ہیں، باقی بزنس مین، فنکار اور باقی لوگوں میں اور 12 ممالک کے اہم سیاستدان ہیں، پاکستان کے خاندان کا ذکر ہے، سابق وزیراعظم اور 2 پارلیمنٹیرین کا ذکر بھی آیا ہے، یہ دستاویزات آئی سی آئی جے کے ساتھ لندن میں شیئر کئے گئے ، ان میں سے 100 مختلف دنیا کے اخبارات کے ساتھ شیئر کئے گئے ، ڈیوڈ کیمرون نے معاملے پر معافی مانگی، آئس لینڈ کے وزیراعظم نے معافی مانگی اور مستعفی بھی ہو گئے ، حکومت نے اس کو مس ہینڈل کیا اور وزیراعظم نے فوراً ہی تقریر کر ڈالی اور ان کے خاندان نے کچھ اور بیان دیا اور کنفیوژن پیدا ہوئی اور حکومت نے نالائقی کا مظاہرہ کیا جس کی وجہ سے طوفان بن گیا، حج سکینڈل ، اوگرا اور ایفی ڈرین سکینڈل 5 سالوں سے کیسز چل رہے ہیں، ان کو ابھی تک منطقی انجام تک نہیں پہنچایا گیا، دھرنے کے دوران جوڈیشل کمیشن نے فیصلہ دیا اس پر اعتراضات کئے گئے ، یہاں قول و فعل میں تضاد ہے، اسحاق ڈار نے آتے ہی کہا تھا کہ 200 ارب ڈالر پاکستان کے پیسے سوئس بنکوں میں ہیں اور سوئس حکومت سے مل کر واپسی کا کہا تھا لیکن بعد میں یہ کہا گیا کہ حکومت نے سوئس حکومت سے اس سلسلے میں کوئی رابطہ نہیں کیا، سوئٹزرلینڈ نے قانون پاس کیا تھا کہ کوئی حکومت درخواست کرے غیر قانونی اکاؤنٹس کے بارے میں تو ان کو معلومات فراہم کی جائیں گی، حکومت کو عدم استحکام کا شکار کرنا ٹھیک نہیں ہو گا اور ذالی حملے نہ کریں خاندانوں پر، بہتر راستہ یہ ہے کہ مشترکہ پارلیمنٹ کا کمیشن بنایا جائے جس میں تمام لوگ شامل ہوں اور 220 لوگوں کے بارے میں تحقیقات کریں ، یہ ملک اور سیاسی جماعتوں کے مفاد میں ہوں گا اور جمہوریت کی بالادستی کے حوالے سے بہتر ہو گا، نیب ، سٹیٹ بینک اور ایف آئی اے کے اداروں اور دیگر اداروں سے مدد لے، حکومت اس حوالے سے جلد فیصلہ کرے، اگر حکومت نہ کرے تو سینیٹ کی اخلاقی کمیٹی فیصلہ کرے، اس حوالے سے، کسی ریفری کی بات کرنے سے بہتر ہے کہ پارلیمنٹ کے ذریعے احتساب کیا جائے، الیکشن کمیشن آف پاکستان میں ڈیکلریشن میں اضافہ کرا کر اس میں یہ شق ڈالی جائے کہ میرا خفیہ آف شور اکاؤنٹس نہیں ہے اگر ہے تو ظاہر کریں، بہتر مفادات کے اختلاف کے حوالے سے قانون سازی ہونی چاہیے، وقت آ گیا ہے کہ پارلیمنٹ اپنا احتساب خود کریں اور حکومت پارلیمنٹ پر اعتماد کرے، حکومت اور جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں لیکن پاکستان کا امیج خراب ہو رہا ہے کہ سیاستدان آپس میں لڑ رہے ہیں، حکومت نالائقی ختم کریں اور معاملہ حل کریں۔

سینیٹر چوہدری تنویر نے کہا کہ آف شور کمپنیاں پوری دنیا میں بھی بنائی جاتی ہیں، پاکستان میں ٹیکس کی رعایات مختلف مد میں دی جاتی ہیں اور کاروباری حضرات فائدہ اٹھاتے ہیں، آف شور کمپنی غیر قانونی کام نہیں، مجھے ہٹلر کا پروپیگنڈا وزیر ہوتا تھا جو جنگ جیتنے کیلئے پروپیگنڈا کرتے ہیں یہاں کچھ ہٹلر کے پیروکار نظر آتے ہیں، جو جھوٹ کو سچ ثابت کرنا ہو بار بار ذکر کرتے ہیں، سیاستدانوں میں بے نظیر اور وزیراعظم کے خاندان کا ذکر کیا ہے،یہاں پر بڑے بڑے سکینڈل آئے لیکن ان پر کمیشن نہیں بنا، جب میاں نواز شریف کے خاندان کا نام آیا ہے تو سب سے پہلے کمیشن کا اعلان کیا، کچھ لوگ اپنی کوہتایاں چھپانے کیلئے ہٹلر کے وزیر کے جھوٹ کا فارمولہ استعمال کر رہے ہیں، اگر کوئی یہاں سے لوٹ کر پیسہ باہر لے گیا اس کا احتساب ضرور ہونا چاہیے، اعتزاز ہٹلر کے پیروکار بن گئے ہیں پروپیگنڈا سیکرٹری بن کر، جب آمریت کے خلاف لڑرہے تھے تو اعتزاز احسن لاکھوں کروڑوں کی فیس لے کر وکالت کرتے تھے، جب نواز شری کی حکومت آئی تو دہشت گردی اور بد امنی سے لپٹا ہوا ملک تین سال بعد سرمایہ کار دنیا بھر سے سرمایہ کاری کرنا چاہتی ہیں ، ترقی کے دشمن غیر ملکی ایجنٹوں کے ہاتھ مضبوط کر رہے ہیں، ملکی ترقی کے راستے میں رکاوٹیں نہ ڈالیں۔

سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ یہ بحران صرف پاکستان کیلئے نہیں ہے ساری دنیا کیلئے سرمایہ کاری کے حوالے سے بحران ہے دنیا کیلئے بڑا مسئلہ ہے، دنیا کے ایک فیصد لوگ 40 سے 60 فیصد سرمایہ کے مالک ہیں، عدم مساوات بڑھ رہی ہے، یہ غیر قانونی نہیں ہے لیکن اخلاقی معاملہ ہے، اس وقت سوموٹو کی تلوار نہیں گر رہی کیونکہ یہ پی پی پی کی حکومت نہیں ہے، سب کا احتساب ہونا چاہیے، پارک لین کے فلیٹس میں چارٹر آف ڈیمو کریسی کے مذاکرات کے دوران بڑے ناشتے کھاتے ہیں، وزی اظم ایوان کے ساتھ سوتیلا سلوک کیوں کر رہے ہیں، عدالت ختم ہو تو پارلیمنٹ میں جواب دیں، ہم دھرنوں کی سیاست نہیں کریں گے، کرپشن اور ٹیکس فراڈ اس ملک کا بڑا مسئلہ ہے، معاملہ کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔

سینیٹر نعمان وزیر خٹک نے کہا کہ یہ ایک فیصلہ کونسا موڑ ہے پاکستان کیلئے، 68 سال سے کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی، شوکت خانم کی 100 دفعہ انکوائری کریں جب تک عوام گریبان نہیں پکڑیں گے اس وقت تک کچھ بھی نہیں ہو گا، ملک میں بڑے پیمانے پر کرپشن کی جا رہی ہے، لوٹ مار مچاتی ہے، وزیراعظم کے بچے باہر سرمایہ کاری کر رہے ہیں اور حکومت کہہ رہی ہے کہ بیرونی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں، جوڈیشل کمیشن کی سربراہی میں کمیشن نہ بنا تو پاکستانی عوام سڑکوں پر نکلیں گے۔