ملکی تاریخ میں پہلی بار کسی وزیراعظم نے اپنے خاندان کو احتساب کیلئے پیش کیا ہے اور پاناما پیپرز پر کمیشن بنانے کا اعلان کیا ہے۔ دوسروں پر الزامات لگانے والوں کو پہلے اپنے گریبان میں جھانکنا چاہئے۔ پاناما پیپرز کے معاملہ کی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی بنا کر تحقیقات کرائی جائیں ،اراکین سینٹ

جمعہ 15 اپریل 2016 14:53

اسلام آباد ۔ 15 اپریل (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔15 اپریل۔2016ء) سینیٹ کے ارکان نے کہا ہے کہ ملکی تاریخ میں پہلی بار کسی وزیراعظم نے اپنے خاندان کو احتساب کیلئے پیش کیا ہے اور پاناما پیپرز پر کمیشن بنانے کا اعلان کیا ہے۔ دوسروں پر الزامات لگانے والوں کو پہلے اپنے گریبان میں جھانکنا چاہئے۔ پاناما پیپرز کے معاملہ کی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی بنا کر تحقیقات کرائی جائیں۔

پارلیمنٹ ہی اختیارات کا منبع ہے، اسے نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔ جمعہ کو ایوان بالا میں پاناما پیپرز پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ پاناما آف شور کمپنیوں کا کاروبار ہوتا ہے، موسیک فونیسکا نے 20 لاکھ 14 ہزار کمپنیاں رجسٹر کرائی ہیں جن میں ایک کروڑ 15 لاکھ دستاویزات سامنے آئیں۔

(جاری ہے)

دنیا کے 21 کھرب ڈالر ان اکاؤنٹس میں چھپے ہوئے ہیں، اس پر ٹیکس 300 ارب ڈالر بنتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان دستاویزات میں پاکستان کے 220 افراد کا ذکر سامنے آیا ہے۔ دنیا کے 143 سیاستدان ہیں، پاکستان سے جن لوگوں کے نام سامنے آئے ہیں ان کا مختلف شعبوں سے تعلق ہے جن میں دو ارکان پارلیمنٹ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر برطانیہ کے وزیراعظم نے معافی بھی مانگی ہے۔ آئس لینڈ کے وزیراعظم، ارجنٹائن کے صدر، ملائیشیا کے وزیراعظم کے بیٹے کا بھی اس میں نام آیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں تین سکینڈل اوگرا سکینڈل، حج سکینڈل اور ایفی ڈرین سکینڈل سامنے آئے لیکن ان کا نتیجہ کچھ نہیں نکلا۔ انہوں نے کہا کہ 10 مئی 2014ء کو وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا تھا کہ سوئس بینکوں میں 200 ارب ڈالر پڑے ہیں، ہم یہ واپس لائیں گے لیکن کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ ان 200 ارب ڈالر میں سے 97 ارب ڈالر صرف ایک بینک کریڈٹ سوئس میں پڑے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ کسی پر ذاتی حملے نہیں کرنے چاہئیں، میں اور میری پارٹی حکومت کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے حامی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو چاہئے کہ پاناما پیپرز کے معاملے کی تحقیقات کے لئے مشترکہ پارلیمانی کمیشن قائم کیا جائے جو قانون کی خلاف ورزی اور ٹیکس چوری سمیت تمام معاملات کی تحقیقات کرے۔ مشترکہ پارلیمانی کمیشن عوامی سماعت کرے۔

اس کمیشن کو مکمل اختیارات دیئے جائیں اور نیب ایف آئی اے اور دوسرے ادارے اس سے تعاون کریں۔ انہوں نے کہا کہ اگر اس تجویز پر پیشرفت نہیں ہوتی تو سینیٹ کی اخلاقیات کمیٹی بنا دیجائے جو کم از کم اپنے ارکان پارلیمنٹ کے معاملے کی چھان بین کرے۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن میں جو ڈیکلریشن دینا ہوتا ہے اس میں یہ چیز بھی شامل کرلی جائے کہ میرا کوئی خفیہ آف شور اکاؤنٹ نہیں ہے۔

اگر ہو تو اس کو منظر عام پر لایا جائے۔ تیسری تجویز ہے کہ مفادات کے تضادات پر قانون سازی ہونی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ اپنا احتساب خود کرے، حکومت اور جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں۔ یہ قومی، عالمی اور پاکستان کے تشخص کا معاملہ ہے، اس پر کھل کر فیصلہ کیا جائے۔ شیری رحمان نے کہا کہ یہ صرف پاکستان کے لئے نہیں بلکہ عالمی بحران ہے، ہم دولت جمع کرنے کے خلاف نہیں ہیں لیکن معاملہ اخلاقی ہے۔

جمہوری نظام کے لئے ہم نے قربانیاں دی ہیں، جیلیں کاٹی ہیں، آمریت کا مقابلہ کیا ہے لیکن احتساب سب کا ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ ہی اختیارات کا منبع ہے، اسے نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ہم دھرنے کی سیاست پر یقین نہیں رکھتے، کرپشن اور ٹیکس فراڈ اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہیں۔ سینیٹر چوہدری تنویر خان نے کہا کہ ملکی تاریخ میں پہلی بار وزیراعظم نواز شریف نے اپنے خاندان کو احتساب کے لئے پیش کیا ہے اور کمیشن بنانے کا اعلان کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ دوسروں پر الزامات لگانے والوں کو پہلے اپنے گریبان میں جھانکنا چاہئے۔ دھرنوں کی دھمکیاں دینے والوں کو عوام نے پہلے بھی مسترد کیا آئندہ بھی کریں گے۔ سینیٹر نعمان وزیر نے کہا کہ پاناما پیپرز کا معاملہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے، اس کی تحقیقات ہونی چاہئیں۔